دو کتابیں ایک رسالہ اور تاریخ کے سچ
کتب بینی (مطالعہ) جاری ہے دو کتابیں ایک ساتھ پڑھنا شروع کی ہیں۔ جنرل اسد درانی اور امرجیت سنگھ دولت کی "جاسوسوں کی کتھا" اور ڈاکٹر ہمایوں خان اور جی پارتھا سار تھی کی "سفارتی تفریق" عموماً الگ الگ موضوعات کی کتب کا پڑھنے کے لئے انتخاب کرتا ہوں۔ دوسرے طالب علموں کی طرح برسوں ایک کتاب مکمل کرچکنے کےبعد دوسری پڑھنا شروع کرتا تھا گاہے اب بھی ترتیب یہی رہتی ہے لیکن درمیان میں کبھی کبھی دو الگ موضوعات پر لکھی کتب پڑھ لیتا ہوں۔
مثلاً اگرآپ بیتی کے صفحات صبح کے وقت زیرِ مطالعہ رہے تو دوسری کوئی سی بھی کتاب دوپہر اور پھر اداریہ اور کالم وغیرہ لکھ چکنے کے بعد پڑھتا ہوں۔
البتہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایسی دو کتابیں شروع کی ہیں جو دو پڑوسی ملکوں بھارت اور پاکستان کے تعلقات، نفرتوں کدورتوں، سازشوں، عدم برداشت وغیرہ کا احاطہ کرتے ہوئے ہمیں (طالب علموں کو) بتاتی ہیں کہ کرہ ارض کے میخانہ میں ظرف کےساتھ جو نہیں رہتے وہ صرف بوجھ ہی نہیں بنتے بلکہ ان کی وجہ سے فکری سموگ نسل در نسل سانسوں اور فہم کو کاٹتی ہے۔
ابھی دونوں کتابوں کے ابتدائی صفحات پڑھے ہیں۔ "جاسوسوں کی کتھا" آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی اور بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کے درمیان پاک بھارت تعلقات جاسوسی اور گھٹالوں سے بنے ماحول پر ہوا مکالمہ ہے۔
ایک سے زائد نشستوں میں ہونے والے اس مکالمے کا اردو ترجمہ حمزہ ارشد نے کیا ہے۔ ادتیہ سنہا کی کوششوں اور میزبانی میں دو حریف ملکوں کی بڑی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان کا یہ مکالمہ خاصے کی چیز ہے۔
کتاب کا پیش لفظ بھارت کے زیراہتمام ریاست جموں و کشمیر (جسے ہمارے ہاں مقبولہ کشمیر کہا جاتا ہے) کے سیاسی رہنما فاروق عبداللہ نے لکھا ہے۔ فاروق عبداللہ نے درست سو فیصد درست لکھا کہ
"اس کتاب (جاسوسوں کی کتھا، آئی ایس آئی، را اور امن کا واہمہ) کی تصنیف میں جو اسلوب اختیار کیا گیا وہ اس سے قبل اختیار نہیں کیا گیا"۔
یہ کتاب ابتداً انگریزی زبان میں شائع ہوئی تب ہمارے یہاں جنرل اسد درانی زیرعتاب آئے پنشن وغیرہ روک لی گئی باجوہ اینڈ کمپنی نے ان سے نامناسب سلوک کیا۔ البتہ امرجیت سنگھ دولت (اے ایس دولت) کے ساتھ بھارت میں ایسا برتائو نہیں کیا گیا وہاں اعتراض کرنے والوں نے بھی دو پڑوسی ملکوں کے تعلقمات میں در آئے بُعد و نفرت کو اپنے اعتراضات کا رزق بنایا۔
ہمارے ہاں اسد درانی کے ساتھ ان کے پیٹی بھائیوں نے جو کیا سو کیا البتہ بھارت سے نفرت کے سودے لگائے خوانچہ فروشوں کی زبانیں اڑھائی اڑھائی گز باہر نکل آئیں۔ کتاب کو پاکستان کی فکری اساس پر حملہ قرار دیا اور درانی کو غدار۔
دوسری کتاب "سفارتی تفریق" بھارت اور پاکستان کے سردوگرم تعلقات، تنازعات، الزامات کی بارشوں اور اس سے بنے عمومی ماحول کے پس منظر میں ڈاکٹر ہمایوں خان اور جی پارتھا سارتھی کی آراء ہیں۔ ہمایوں اور پارتھا سارتھی منجھے ہوئے سفارتکار ہیں "سفارتی تفریق" میں ان کے مضامین ہیں۔ جو موضوع اور پس منظر کا احاطہ کرنے کے ساتھ امید کے دیپ بھی جلاتے ہیں اپنے وقت کے منجھے ہوئے سفارت کاروں نے پاک بھارت تعلقات کے ماہ و سال کی اونچ نیچ، اختلافات، جنگوں، کارگل، مسئلہ کشمیر کو کیسے دیکھا اور اس حوالے سے ان کی فہم کیا نتیجہ دیتی ہے اس پر یقیناً آگے (آئندہ کالموں میں) بات ہوگی۔
"سفارتی تفریق" عزیزم سید زاہد کاظمی کے ادارے "سنگی اشاعت گھر" نے شائع کی ہے اور "جاسوسوں کی کتھا" وین گارڈ لاہور نے۔ وین گارڈ بکس نے کتاب کی قیمت 3500رکھی ہے جو حقیقت میں بہت زیادہ ہے
بجا کہ یہ چیز مہنگی ہے آج کل تو موت بھی سستی نہیں پڑتی لیکن 312 صفحات پر مشتمل کتاب کی ساڑھے تین ہزار روپے قیمت مرحوم مشتاق احمد یوسفی یاد آگئے۔
بات وہی ہے کہ دکاندار ہر گاہک کو آخری اور پھر نہ آنے والا گاہک سمجھ کر اس کی کھال اتارلینا چاہتاہے۔
ان دو کتابوں کا مطالعہ جاری ہے۔ آپ کے استفادے کے لئے ان سطور میں عرض کرتا رہوں گا اقتباسات اور اپنی رائے بھی۔
فی الوقت یہ ہے کہ ہمارے برادر بزرگ معروف قانون دان اور ترقی پسند رہنما سید طیب محمود جعفری ایڈووکیٹ نے گزشتہ شب "پنجتنی کٹھ" (دوستوں کے ایک گروپ کا نام ہے) میں ہمیں "پاکستان عوامی محاذ" نامی سیاسی جماعت کا "عوامی منشور اور لائحہ عمل" پر مشتمل رسالہ عنایت کیا پیر جی کے حکم کی بھی آئندہ دنوں میں تعمیل ہوگی ان سطور میں، پاکستان عوامی محاذ کے رسالے کے ٹائٹل پر جماعت کا پرچم بھی ہے چارنگ کا۔ یہ بھی لکھا ہے کہ " ایک محب وطن، عوام دوست، ترقی پسند سیاسی پارٹی کا منشور"۔
لیکن ابتدائی صفحات میں برصغیر کے بٹوارے کے ڈھکوسلے "تقسیم" کو دو قومی نظریہ کی بنیاد قرار دیا گیا اپنی جانب سے تقسیم کے حامیوں اور مخالفوں دونوں کے ہی لتے لئے منشور اور لائحہ عمل لکھنے والوں نے۔
اس رسالے کا مطالعہ کرکے ہی عرض کرسکیں گے کہ اس نئی سیاسی جماعت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور مختلف الخیال عوامی حلقوں میں اسے کتنی پذیرائی ملے گی۔
تاریخ صحافت اور سیاسیات کے طالب علم کی حیثیت سے ہماری رائے یہی ہے کہ اس وقت ایک ترقی پسند جماعت کی اشد ضرورت ہے لیکن جماعت بناکون لوگ رہے ہیں ترقی پسند افکار کی ترویج میں خود ان کا کتنا حصہ ہے اور یہ کہ کہیں یہ بھی تو "ان متروک کمیونسٹوں کی طرح تو نہیں کہ جب دو سے تین ہوئے ایک نئی جماعت بنالی؟"
اب آیئے ایک بار پھر کالم کے اصل کی طرف پلٹتے ہیں۔ ہمارے ہاں برصغیر کی (بٹوارے) تقسیم اس کے پس منظر، ضرورت، معروضی حالات وغیرہ پر حقیقت پسندانہ انداز میں بہت کم بات ہوئی اور اتنا ہی کم لکھا گیا۔ بات کرنے اور لکھنے والے برصغیر میں تبدیلی مذہب کے عمل (یعنی قبول اسلام) وہ مسلمان حملہ آوروں کی وجہ سے ہوا ہو تبلیغ سے یا درویشوں کے کردار و عمل سے، اس کی بنیادی جزئیات کے ساتھ اس بات کو یکسر فراموش کردیتے ہیں کہ برصغیر میں تبدیلی مذہب کا مطلب اور مقصد یہ سمجھا لیا گیا کہ اب جس نے اسلام قبول کرلیا وہ اپنے پرکھوں، تہذیب و تمدن اور تاریخ سے "فارغ" ہوگیا۔
اسی طرح اس تلخ حقیقت کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ ذات پات چھوت چھات اور طبقات میں بٹے سماج (ہند اور سندھ) میں ابتدائی طور پر اسلام سمیت ہر نئے مذہب نے ان طقبات کو متاثر کیا جو طبقاتی و سماجی اور معاشی استحصال کا نسل در نسل شکار تھے۔
مذہب کی تبدیلی کے بعد انہوں نے سماج کے ان طبقوں سے بُعد و نفرت کو پال پوس کر جوان کیا جو ماضی میں ان کے بزرگوں اور ان کے ساتھ طبقاتی اور ذات پاس کی بنیاد پر سلوک کرتے تھے۔ ہماری دانست میں جب تک تبدیلی مذہب سے جنم لینے والی کدورت، نفرت اور ماضی کے بدلے کی خواہش وغیرہ کا دیانتدارانہ تجزیہ نہیں کیاجاتا ہم تقسیم (بٹوارے) کی حقیقت اور پس منظر ہر دو کو نہیں سمجھ سکتے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس دور کی عالمی سامراجی قوتوں اور ان قوتوں کے برصغیر میں سہولت کاروں اور کارندوں بارے بھی مفصل معلومات حاصل کرناہوں گی تب کہیں ہم ان نفرتوں کی بنیاد تلاش کرپائیں گے جو پچھلے 76 برسوں سے دو پڑوسی ملکوں کی حکمران اشرافیہ اور دونوں طرف کے مذہب فروشوں کا رزق ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف بٹوارہ یا تقسیم ہی نفرت کی بنیاد نہیں اس کی تاریخ بٹوارے سے شروع نہیں ہوتی اس لئے ٹھنڈے دل سے دستیاب شواہد کو سامنے رکھ کر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر "لگے رہیں منا بھائی" کے مصداق ہی معاملہ رہے گا۔