بھٹو کیس، صدارتی ریفرنس کا فیصلہ اور چند حقائق
بظاہر یہ طے ہے کہ 43 برس پرانے عدالتی فیصلے پر نظرثانی یا اسے حرف غلط کی طرح مٹانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خود پارلیمان کوئی قانون سازی نہ کرے۔ پارلیمان اگر 43 برس قبل کے کسی عدالتی فیصلے پر تمام جزئیات کے ساتھ نظرثانی کا سپریم کورٹ کو اختیار دیتی ہے تو کیا یہ اختیار صرف ایک مقدمے کے لئے دیا جائے گا یا پھر تمام مقدمات کے فیصلوں کے حوالے سے ہوگا؟
دساطیر اور عدالتی و پارلیمانی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ظاہر ہے کہ کوئی پارلیمان ایسی قانون سازی نہیں کرتی جس سے پنڈورا باکس کھلنے شروع ہوجائیں۔
سو یہ کہنا درست ہوگا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کیس کے حوالے سے 2011ء میں سپریم کورٹ میں دائر کئے جانے والے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بنچ کی جو متفقہ رائے سامنے آئی ہے وہی درست بھی ہے اور نظام عدل کے چہرے پر لگی سیاہی دھونے کی شعوری کوشش بھی۔
دو باتیں تو بہرطور سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے متفقہ طور پر تسلیم کیں اولاً یہ کہ بھٹو کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں ملا۔ یہ کہ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے دوران فرد کے بنیادی حقوق کو نظرانداز کیا گیا۔
اس ریفرنس میں عدالتی معاونت کرنے والے سابق جج، منظور ملک نے فوجداری مقدمہ کی سماعت اور اس سے جڑے معاملات میں موجود تعصب، اختیارات سے تجاوز، ٹرائل کے ایک مرحلہ سے بھٹو کو محروم رکھنے اور دوسرے امور پر تفصیل کے ساتھ سپریم کورٹ کو مشاورت فراہم کی۔
کریمنل لاء میں اتھارٹی سمجھے جانے والے جسٹس ر منظور ملک یقیناً تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پاکستانی نظام انصاف کی کمزوریوں سے تو عدالت میں پردہ اٹھایا ہی اس کےساتھ ساتھ انہوں نے بھٹو کے خون کے پیاسے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے سیاہ کردار کو بھی واضح کردیا۔
خود عدالت نے بھی تسلیم کیا کہ مارشل لاء حکومت کا کردار جانبدارانہ تھا۔ منظور ملک نے جن دو بنیادی سوالات پر عدالتی معاونت کی بنیاد رکھی ان میں ایک سوال یہ تھا کہ مجسٹریٹ کی سطح پر انکوائری مکمل کرکے کیس داخل دفتر کردیا گیا تھا۔ مجسٹریٹ کے اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوئی۔
نیز داخل دفتر ہوئے مقدمے کو پھر سے عدالتی عمل کا حصہ بنانے کے لئے بھی کہیں کوئی درخواست نہیں دی گئی۔
دوسرا سوال تھا، مقدمہ سیشن کورٹ کی بجائے براہ راست ہائیکورٹ میں چلانے کے حوالے سے بھی کہیں کوئی درخواست نہیں دی گئی بس ایک خصوصی حکم جاری ہوا اور داخل دفتر کیس اوپن کرکے سماعت کےلئے ہائیکورٹ بھیج دیا گیا۔
ریفرنس کی حالیہ سماعتوں کے آخری دن ججز نے بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کے مدعی احمد رضا قصوری سے چند چبھتے ہوئے سوالات کئے۔ ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ وہ بھٹو کو اپنے والد کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے تھے تو پھر دوبارہ پیپلزپارٹی میں کیوں شامل ہوئے؟
داخل دفتر مقدمہ کو اوپن کرنے اور قبل ازیں مقدمہ داخل دفتر کرنے کے مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف کہیں کوئی درخواست دینے بارے بھی ان سے دریافت کیا گیا۔ احمد رضا قصوری کا جواب نفی میں تھا۔
آگے بڑھنے سے قبل میں دو تین باتیں ریکارڈ کی درستگی کے لئے پڑھنے والوں کی خدمت میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اولاً یہ کہ داخل دفتر کئے جانے والے مقدمہ قتل کو اوپن کرکے کارروائی کے لئے رضامندی احمد رضا قصوری نے براہ راست جنرل ضیاء الحق کو دی۔ قصوری ضیاء ملاقات راولپنڈی میں ہوئی قصوری کے ہمراہ ملاقات کے لئے جنرل جیلانی خان اور میاں طفیل محمد لاہور سے راولپنڈی گئے تھے۔
میاں طفیل محمد ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے ایف ایس ایف کے اس مقدمہ میں گرفتار اہلکاروں سے لاہور جیل میں ملاقات اور انہیں بھٹو کے خلاف بیان دینے پر رہا کئے جانے کی نوید دی لیکن رہائی صرف مسعود محمود کو ملی باقی کے اہلکاروں کو پھانسی چڑھادیا گیا۔
قبل ازیں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد مری میں بھٹو ضیاء ملاقات تلخی پر ختم ہوئی تھی۔ پھر بھٹو نے ضمانت پر رہائی کے بعد ناصر باغ لاہور میں لاہور کی تاریخ کے بڑے جلسہ سے جو خطاب کیا اس کے بعد فوجی آمر جنرل ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں نے بھٹو کو منظر سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔
ابتداً ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے مقدمہ چلانے پر غور کے لئے جنرل فیض علی چشتی کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی تھی۔ جنرل جمال سید میاں اور جنرل اعجاز عظیم اس کمیٹی کے ممبران تھے کمیٹی نے حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کا باریک بینی سے جائزہ لیا کیمٹی کے سامنے بھٹو مخالف رہنمائوں کے بیانات اور مضامین بھی تھے جن میں انہیں سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا لیکن اس تین رکنی کمیٹی نے رائے دی کہ اس طرح کا مقدمہ چلانے کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں
بھٹو کے خلاف احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ اور تجویز جماعت اسلامی کی قیادت کی طرف سے آئی۔ اس سارے معاملے میں میاں طفیل محمد کا کرادر بڑا پرجوش رہا، کیوں؟ اس سوال کا جواب جماعت اسلامی کی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف غلیظ پروپیگنڈہ مہم میں موجود ہے۔
اسی طرح اس وقت بعض تجزیہ نگار یہ بھی کہتے تھے کہ جنرل ضیاء قبر ایک اور مردے دو والی بات پر قبرمیں بھٹو کو ڈالنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوئے۔ تاریخ و صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری رائے مختلف ہے میرے خیال میں بھٹو کی پھانسی اصل میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ تھا ضیاء رجیم نے عمل میں معاونت کی اور صلہ پایا۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ امریکہ کے نزدیک بھٹو کے دو جرائم ناقابل معافی تھے۔ ایک پٹرولیم مصنوعات کے معاملے پر پٹرول پیدا کرنے والے مسلم ممالک کو ایک پیج پر لانا نیز اسلامی بینک کا تصور پیش کرنا۔ ثانیاً پاکستان کا ایٹمی پروگرام۔
ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بھٹو کا تختہ الٹے جانے اور پھر پھانسی دیئے جانے تک کے درمیانی وقت میں خطے میں جو تبدیلیاں آرہی تھیں ان سے امریکی پریشان تھے۔ امریکیوں کی پریشانی سمجھنا ہو تو جولائی تا ستمبر 1976ء کے درمیان ذوالفقار علی بھٹو سے امریکی سفیر کی متعدد ملاقاتوں اور بعدازاں امریکہ اور فوج کے تعاون سے قائم ہونے والے بھٹو مخالف اتحاد پی این اے کی سرگرمیوں، تحریک اور دوسرے معاملات کا جائزہ از بس ضروری ہے۔
بنیادی بات تقریباً وہی ہے کہ ضیاء رجیم بھٹو کو راستے سے ہٹانے کی خواہش مند تھی۔ امریکیوں کی سرپرستی اور جنرل جیلانی و میاں طفیل محمد کی کوششوں سے احمد رضا قصوری کا داخل دفتر مقدمہ کو پھر سے اوپن کرکے عدالتی عمل کا حصہ بنانے پر رضامندی نے فوجی آمریت کا کام آسان کردیا۔
احمد رضا قصوری نے اپنے والد کے قتل کے بعد قومی اسمبلی اور پبلک مقامات پر بھٹو کے خلاف سخت تقاریر کیں۔ لیکن پھر 1977ء کے عام انتخابات میں انہوں نے پیپلزپارٹی کا ٹکٹ لینے کے لئے پارٹی کو درخواست بھی دی۔ اس درخواست کے بعد بھٹو نے انہیں ملاقات کے لئے بلایا یہ ملاقات ہوئی قصوری نے نہ صرف بھٹو سے معافی مانگی بلکہ درخواست کی کہ بیگم نصرت بھٹو ان کے گھر آکر ا گر پارٹی ٹکٹ کا اعلان کریں تو عزت افزائی ہوگی۔ بیگم نصرت بھٹو احمد رضا قصوری کے گھر گئیں جہاں ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا۔
قصوری نے اس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیگم بھٹو میری بڑی بہن ہیں وہ میرے گھر آئی ہیں میں اپنی غلطیوں پر معذرت کرتے ہوئے صدق دل سے بھٹو کی قیادت پر اعتماد کا اعلان کرتا ہوں، لیکن جولائی 1977ء میں جب آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگایا تو یہ منہ بولی رشتہ داری "دفن" ہوگئی۔ بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قصوری کے مقدمہ قتل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز جنرل جیلانی خان و غیرہ کی تھی میاں طفیل محمد نے احمد رضا قصوری کو مقدمہ دوبارہ کھولنے اور جنرل ضیاء الحق سے ملاقات پر آمادہ کیا۔
مختصراً یہ کہ 43 سال بعد سپریم کورٹ کے 9 رکنی بنچ کا متفقہ طور پر یہ اعتراف کہ بھٹو کیس میں بنیادی حقوق نظرانداز ہوئے اور فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا اہمیت کا حامل ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے ضیاء رجیم، اس کے سہولت کاروں اور منشیوں کو تاریخ کی عدالت میں لاکھڑا کیا ہے یہی بھٹو کی بے گناہی کا ثبوت ہے۔