"بلوچ راجی مچی" الزامات اور تضادات
گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام "بلوچ راجی مچی" (بلوچ قومی اجتماع) کے انعقاد اور بلوچ راجی مچی میں شرکت کے لئے قافلوں کے سفری مراحل میں پیش آئی مشکلات اور کھڑی کی گئی رکاوٹوں کے حوالے سے دستیاب اطلاعات کی آزادانہ تصدیق انتہائی ضروری ہے اس سے زیادہ ضروری اس امر کی وضاحت ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے صرف آئی ایس پی آر کے اعلامیہ کی نشرواشاعت کو ہی ضروری کیوں سمجھا اس کے برعکس بلوچ راجی مچی کے منتظمین کا موقف ریاستی موقف کے بوجھ تلے دبادیا گیا۔
ذرائع ابلاغ کے اس غیرذمہ دارانہ طرزعمل سے پیدا ہوئے مسائل بڑھتی دوریوں اور دیگر مسائل کا یہاں کسی کو رتی برابر احساس نہیں۔
بالفرض اگر کچھ غلط ہوا جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ بلوچ راجی مچی کے شرکا نے گوادر میں سکیورٹی فورس پر حملہ کیا جس سے ایک اہلکار جاں بحق اور درجن بھر سے زائد زخمی ہوگئے تو یہ سوال اہم ہے کہ کیا یکطرفہ موقف کی اشاعت سے پوری کہانی بیان کردی گئی ہے؟
دوسری جانب بلوچ راجی مچی کی انتظامیہ نے بھی چند زخمیوں کی تصاویر جاری کی ہیں ان کا موقف ہے کہ بلوچ راجی مچی کے یہ شرکا سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔ ایک سے دو افراد کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ بھی سامنے آیا۔
ان متضاد اطلاعات کی ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران کی معرفت تصدیق میں مشکلات اس لئے پیش آئیں کہ گوادر جہاں بلوچ قومی اجتماع منعقد ہونا تھا، کے علاوہ بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں انٹرنیٹ کو بند کروادیا گیا تھا۔ سرکاری ذرائع قافلوں کے ساتھ مختلف مقامات پر پیش آئے واقعات کے حوالے سے سوشل میڈیا اور بعض غیرملکی میڈیا ہاوسز کی ویب سائٹس پر موجود تصاویر اور ویڈیوز کو پروپیگنڈہ قرار دے رہے ہیں دوسرا فریق بلوچ قومی اجتماع کے منتظمین ان کے درست ہونے پر مُصر ہے۔
گزشتہ روز اس معاملہ پر بلوچستان اسمبلی میں ہونے والی بحث کے دوران تلخی اور ہاتھا پائی کی کوششوں کو نظرانداز کرکے حکومت اور اپوزیشن ارکان کی تقاریر کے سنجیدہ حصوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ سب اچھا تھا نہ ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں کی جانے والی تقاریر میں جہاں پولیس کے خواتین کے ساتھ برتائو کو مقامی روایات کی کھلم کھلا توہین کے مترادف قرار دیا گیا وہیں حکومتی بنچوں سے یہ آوازیں بھی سنائی دیں کہ بلوچ راجی مچی میں شرکت کے لئے مختلف علاقوں سے جانے والے قافلوں میں شامل مردوں نے خواتین کو ڈھال بناکر راستے میں دوسری سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نجی عمارتوں اور دکانوں پر پتھرائو کیا یہی نہیں دوسری جماعتوں کے پوسٹروں، جھنڈوں وغیرہ کو آگ بھی لگائی گئی۔
اس امر پر دو آراء ہرگزنہیں کہ پرامن سیاسی جدوجہد کا حق دستور پاکستان دیتا ہے "بلوچ راجی مچی" کے انعقاد کو پرامن جدوجہد سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا البتہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ خود سے سیاسی اختلافات رکھنے والوں کو قاتل، غدار اور بلوچوں کے دامن پر دھبہ وغیرہ قرار دینے والی زبانوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔
جہاں تک بلوچستان کے مختلف مقامات اور بالخصوص گوادر میں پیش آئے واقعات کا تعلق ہے تو ان پر محض افسوس کافی نہیں گوادر واقعہ کے حوالے سے آئی ایس پی آر کے اعلامیہ پر موجود تحفظات اور ایک جوابی موقف دونوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
بلوچ قومی اجتماع کے منتظمین اور دیگر ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ سکیورٹی فورسز پر جس حملے کی ذمہ داری بلوچ راجی مچی کے شرکا پر ڈالی جارہی ہے یہ واقعہ اجتماع میں شرکت کے لئے لوگوں کی گوادر آمد سے قبل پیش آچکا تھا اس کا ذمہ دار بلوچ اجتماع کو قرار دینے کا مقصد پرامن جدوجہد کے خلاف کارروائی کا جواز تراشنا ہے۔
ظاہر ہے کہ ہر دو موقف تو درست نہیں ہوسکتے ان میں سے ایک موقف ہی درست ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ درست موقف کی تصدیق اور اسے عوام کے سامنے رکھنے کےلئے کیا اقدامات ہوں گے یا ہو سکتے ہیں کہ جن پر اور بعدازاں رپورٹ پر عوام اور خصوصاً بلوچستان کے لوگ اعتماد کرسکیں؟
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انٹرنیٹ سروس کی بندش، ذرائع ابلاغ کا غیر ذمہ دارانہ طرزعمل اور ہر دو جانب سے اچھالے گئے الزامات کی وجہ سے کسی بھی بات پر سوفیصد اعتماد مشکل ہوگیا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام "بلوچ راجی مچی" کے انعقاد کا مقصد جبری گمشدگیوں، مسخ نعشوں، شہری و سیاسی حقوق کی پامالی پر پرامن احتجاج بتایا گیا۔
لاریب پرامن احتجاج پر دستور بہت واضح ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں جاری مسلح کارروائیوں کو ریاست سے بغاوت کے طور پر پیش کرکے سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا جواز پیش کیا جارہا ہے۔
بلوچستان میں ریاستی کارروائیوں کی اپنی الگ تاریخ ہے اس پر ایک موقف ریاست کا ہے دوسرا بلوچوں کے ایک بڑے طبقے کا، البتہ یہ حقیقت ہے کہ 1948ء میں قلات پر ہوئی فوج کشی ایک عاجلانہ فیصلہ تھا بعدازاں ایوب دور میں قرآن پر صلح کے باوجود پہاڑوں سے اتر آنے والے بلوچوں کے قائد سردار نوروز خان اوران کے چند ساتھیوں کو پھانسی کی سزا دینے کے عمل سے بداعتمادی کی جو خلیج پیدا ہوئی اس میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوا۔
ریاست اور بلوچوں میں بداعتمادی کے بڑھاوے میں ذوالفقار علی بھٹو دور میں ہوئے فوجی آپریشن یا جنرل پرویز مشرف کے دور میں ریاستی طاقت کے اندھادھند استعمال کا بھی عمل دخل ہے۔ رہی سہی کسر نواب اکبر بگٹی کے سفاکانہ قتل نے پوری کردی جس کی تمام تر ذمہ داری جنرل پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے۔ بداعتمادی کی اس فضا میں جن مسائل نے جنم لیا وہ بھی ہر گزرنے والے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتے گئے اور ہو رہے ہیں
یہ امر اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچ قوم پرست رہنما لالہ غلام محمد بلوچ کی مسخ شدہ نعش ملنے کے بعد بلوچستان کے متوسط اور سفید پوش ترقی پسند سوچ کے حامل طبقات کا ریاست اور سیاسی عمل پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوکر رہ گیا۔ بلوچستان کی موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لئے تجزیہ کرتے وقت جہاں مندرجہ بالا معاملات کو مدنظر رکھنا ہوگا وہیں اس سوال کو بھی کہ اس سارے عرصے میں بلوچستان کی سرزمین پر جو محنت کش اپنی غیربلوچ شناخت کے باعث بیدردی سے قتل کردیئے گئے ان کا ذمہ دار کون ہے؟
اس سوال پر محض یہ کہہ دینا کہ جنگ زدہ علاقوں میں غیرمقامی افراد کو جانے سے اجتناب کرنا چاہیے یا یہ کہ قتل ہونے والے ریاستی مخبر تھے، درست نہیں۔ ہماری دانست میں بلوچستان مسائل کا گڑھ ہے۔ مسائل کیسے حل ہوگں یے اہم سوال ہے۔ ظاہر ہے مسائل بات چیت سے ہی حل ہوں گے لیکن اس کے لئے اعتماد سازی بہت ضروری ہے۔ فی الوقت اعتماد سازی کے لئے ریاست کی جانب سے کوئی اقدام ہوتا دیکھائی نہیں د ے رہا اسی باعث عام آدمی کی پریشانی بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں فوری طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ
"مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے"۔۔
نوٹ: یہ تحریر دودن قبل لکھی گئی تھی آج بروز جمعہ 2 اگست کی صورتحال یہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ڈپٹی کمشنر گوادر کے درمیان معاہدہ ہوگیا ہے۔