بابائے انکشافات کا "ہٙڑ"
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ پشاور اور بہاولپور کے سابق کور کمانڈر جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری سے زیادہ مجھے اس بات پر حیرانی ہے کہ فاطمہ ٹاور والیاں بھی کہہ رہی ہیں کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں اور فیض حمید کے ایجنڈے کے مطابق کئی برس تک پیپلزپارٹی اور اے این پی کی منجی ٹھوکنے والے "جمہوریت پسند" بتارہے ہیں کہ فیض حمید پیپلزپارٹی کو استعمال کرنا چاہتے تھے مگر بلاول بھٹو آمادہ نہ ہوئے۔
شہد کی اس "انگلی" نے کام دیکھایا جیالے سوشل میڈیا پر ان الفاظ کو لئے ہائوس " ُفل" دھمالوں میں مصروف ہیں۔
افسوس کہ جنرل (ر) فیض حمید کے فیض کی بدولت صحافی اور اینکر و اینکرانیاں بننے والے والیاں ہوں یا دوسرے فیض یافتگان سبھی ان دنوں کھڑکی توڑ انکشافات میں مصروف ہیں۔ ادھر سابق وزیراعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ "فیض حمید کی گرفتاری مجھ پر دبائو بڑھانے کے لئے ہے یہ لوگ "اُسے" وعدہ معاف گواہ بناکر میرے مقدمات ملٹری کورٹس میں لے جانا چاہتے ہیں"۔
تحریک انصاف بطور جماعت ان دنوں ملٹری کورٹس کی مخالفت میں پیش پیش ہے حالانکہ خود اس کے دور میں ملٹری کورٹس نے مجموعی طور پر 24سویلین افراد کو سزائیں دی تھیں۔ عمران خان کے رفیق خاص اور اس وقت کے وفاقی وزیر مراد سعید کا انٹرویو ریکارڈ پر ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلنا چاہیے۔
خیر ان باتوں کو چھوڑیئے سوال یہ ہے کہ کیا فیض یافتگان میں شامل دو سابق چیف جسٹس صاحبان آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار بھی احتساب کے شکنجے میں آئیں گے؟
ساعت بھر کے لئے رکئے یہاں کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ طویل المدتی پالیسیوں اور عصری شعور کی بجائے ڈنگ ٹپائو پالیسیوں اور "تجربوں" سے چلائی جانے والی ریاست میں کسی انہونی پر بھی حیرانی نہیں ہوتی کیونکہ اکثر ہم جسے انہونی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ "تجربہ" ہوتا ہے جو آگے چل کر ریاست کے گلے پڑجاتا ہے اس سے جان چھڑانے کے لئے ریاست ایک نیا تجربہ کرتی ہے۔
اچھا یہ دوغلہ پن صرف ریاست کو ہی مرغوب نہیں ہمارے بہت سارے سیاستدان اہل دانش صحافی اور دیگر لوگ بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ چند دن قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان آئی پی پیز سے ہوئے معاہدوں، ان کی تجدید اور کیپسٹی چارجز پر دھواں دھار پریس کانفرنس پھڑکارہے تھے۔ سامنے بیٹھے ہوئے صحافیوں میں سے کسی نے انہیں یاد دلانے کی کوشش نہیں کی کہ جناب آپ خود تین بار مختلف ادوار میں توانائی کی وزارت کے وزیر رہے ہیں ان معاہدوں، تجدیدوں اور کیپسٹی چارجز کی ادائیگی کے معاملے پر بطور وزیر آپ نے "چُوں" تک نہیں کی اب ہیرو پنتی کا مظاہرہ کس لئے کررہے ہیں۔
اس بات کو بھی جانے دیجئے۔ میں تو اس پر حیران ہوں کہ 2014ء سے 2022ء تک کے درمیانی برسوں میں جن سیاپا فروش اینکروں کو اپنے پروگراموں میں مہمان کے طور پر بلانے کے لئے مہمانوں کے اسمائے گرامی "کہیں" سے فراہم کئے جاتے تھے اور حکم یہ تھا کہ پی پی پی اور اے این پی کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہو وہ بھی ہمیں اور لوگوں کو بتارہے ہیں کہ ان کا سینہ رازوں سے بھرا ہوا ہے۔
چند ایک کے سینوں میں دفن راز ساون بھادوں کے موسم کی وجہ سے "اُبل اُبل" رہے ہیں آئی ایس پی آر کی مینجمنٹ پر برسوں عمران خان کو سنگل مہمان کے طور پر پروگراموں میں بیٹھا کر بھاشن قوم کو سنوانے والے ہوں یا تکرار کے ساتھ سیاستدان چور ہیں۔ فوج نہ ہوتی تو یہ سیاستدان ملک کو بیچ کر کھاجاتے جیسی قیمتی فہم ذہنوں میں اتارنے والے بھی اب جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری کے بعد "بابائے انکشافات" بنے چینلوں کی سکرینوں پر نمودار ہوکر اپنا اپنا بھاشن ٹھوک رہے ہیں۔
خیر یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نے ان آنکھوں سے 2007ء کی وکلاء تحریک کے دوران ان لوگوں کو بھی آزاد عدلیہ کا صحافتی مجاہد بنتے سنورتے دیکھا جن کے یوٹیلٹی بلز بھی جنرل سید پرویز مشرف کاظمی مرحوم کے ایما پر ایک سرکاری محکمہ ادا کرتا تھا۔
انہیں بھی چھوڑیئے آپ ففتھ جنریشن وار کے مجاہدوں و مجاہدات کو ہی دیکھ لیجئے گرگٹ کی طرح رنگ بدل چکے۔ وہ لوگ جنہیں حکماً اخبارات اور چینلوں میں نوکریاں دلوائی گئیں وہ بھی خود کو آزادی اظہار کے خاندانی مجاہدین کے طور پر پیش کرتے رتی برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔
اور تو اور فاطمہ ٹاور کے کمروں سے اٹھاکر اینکرز بنائے جانے والے اور والیاں بھی خود کو بری امام ثانی کے طور پر پیش کررہے ہیں۔
کیا کیجئے یہ ملک ہی ایسا ہے ایک خاتون وزیر ہوا کرتی تھیں ایک بار انہوں نے ایوان صدر میں ایک غیر رسمی اجلاس کے بعد صدر آصف علی زرداری کو صوفے سے اٹھتا دیکھ کر آگے بڑھ کر ان کے سلیپر سیدھے کرنے کی کوشش کی تو آصف علی زرداری نے ان کے ہاتھ پکڑ کر کہا "ہم سندھی بہنوں اور بیٹیوں سے چپل اٹھواتے یا صاف نہیں کرواتے"۔
یہی خاتون بعد کے برسوں میں آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے کے لئے جو زبان استعمال کرتی رہیں ویسی زبان "کسبیاں" بھی پرانے تعلق داروں کے بارے میں استعمال نہیں کرتیں۔
پیارے قارئین! آپ آج کے کالم کی بُنت پر حیران ہورہے ہوں گے۔ یہ آپ کا حق ہے لیکن جب آپ کے چار اور جعلسازی کا ہٙڑ آیا ہوا ہو تو کچھ نہ کچھ تو عرض کرنا ضروری ہوتا ہے۔
میرے لئے بہت آسان ہے کہ میں ایک کالم لکھوں اور ان برسوں کا ذکر کروں جب یہ قلم مزدور روزنامہ "دی فرنٹیئر پوسٹ" لاہور کا ایڈٹیر تھا اور ان برسوں میں جنرل (ر) فیض حمید کی وجہ سے فرنٹیئر پوسٹ لاہور کیلئے پیدا کی گئی مشکلات کی تفصل لکھ کر داد سمیٹوں لیکن اس کی ضرورت نہیں کیونکہ جو ہمیں درست لگا وہ ہم نے کیا مشکلات پہ رونا کیسا۔
افغان ایشو یا سکیورٹی اسٹیٹ کے حوالے سے میں نصف صدی سے ایک ہی رائے رکھتا ہوں اور اس کے اظہار میں کبھی دبائو قبول نہیں کیا۔ ادارے اور محکمے اپنا کام کرتے ہیں۔ دوسرے شعبوں اور صحافت سے منسلک لوگ اپنا کام کرتے ہیں۔
اپنی فہم کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مخالفت دونوں جرم نہیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ جو آج درست ہو کل کئے جانے والے تجزیئے میں وہ نادرست محسوس ہو لیکن مفادات کی "حرس" میں اسٹیبلشمنٹ کی چوبداری اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا حق خدمت وصول کرنا اور پھر انگلی کٹواکر شہیدوں میں نام لکھوانے والے بوزنوں سے گھن آتی ہے۔
کل یا پرسوں ایک صاحب فرما رہے تھے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بھارتی فیڈریشن کا حصہ بنائے جانے کے پیچھے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید تھے۔ پتہ نہیں وہ یہ کیوں بھول گئے کہ اس معاملے میں امریکہ نے وزیراعظم عمران خان اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اعتماد میں لیا تھا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ امریکہ کے دورہ پر تھے وہی مشہور دورہ جب انہیں پینٹاگون میں 21 توپوں کی سلامی دی گئی اور عمران خان بھی دورہ امریکہ پر تھے۔
یہ وہ تاریخی دورہ ہے جس میں اپنے حامیوں کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان واپس جاکر جیلوں میں پڑے اپنے سیاسی مخالفوں کے سیلوں سے اے سی وغیرہ نکلوادیں گے۔
دونوں کے دورے ایک ہی وقت میں تھے دونوں کی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوئی اس دورے کے کچھ عرصہ بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا تھا۔
عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو ان دنوں بابائے انکشافات کا "ہٙڑ" آیا ہوا ہے یہ بھی ایک تجربہ ہے اور تجربوں سے ذرا بچ کے بھیا۔