ایک اور نجی چینل بند ہوا
چند دن قبل ایک نجی چینل "ٹیلن نیوز" کی نشریات کا سلسلہ تمام ہوا۔ چینل کی بندش بارے خبریں پچھلے برس نومبر سے مارکیٹ میں دوڑ بھاگ رہی تھیں۔ نومبر سے رواں ماہ مارچ کے تقریباً وسط تک نشریات کیسے جاری رہیں اس حوالے سے بہت ساری کہانیاں ہیں، راوی کے بقول ایک دن لنچ میں پکائی جانے والی بھنڈیوں کا بل مبلغ 55 ہزار روپے ہو تو چینل کیا نیویارک ٹائمز کو بھی بالآخر بند ہی کرنا پڑے گا۔
ایک قلم مزدور کی حیثیت سے مجھے بہت سارے عزیزوں و عزیزات کے بیٹھے بیٹھائے بیروزگار ہونے پر افسوس ہے۔ "ٹیلن نیوز" کی نشریات بند کئے جانے سے بیروزگار ہونے والے محنت کشوں میں سے ہر ایک کے پاس "زندہ کہانی" ہے۔ ایک کہانی گل نوخیز اختر نے لکھی۔
گل نوخیز اختر بنیادی طور پر کالم نگار ہیں ان کے طنزومزاح میں گندھے کالم ہم ایسے طالب علموں کے لئے بھی غنیمت ہوتے ہیں۔ گل نوخیز کے بقول وہ اس چینل سے اس وقت سے منسلک تھے جب یہ یوٹیوب چینل تھا پھر اسے سیٹلائٹ چینل بنانے کا فیصلہ ہوا۔ دو سال تک کارکنوں کو اس کے لئے تربیت دی گئی۔ پھر نشریات آن ہوئیں۔ اپنی تحریر میں انہوں نے مارکیٹ میں سیروتفریح کرتی ان ساری خبروں کی تردید کی۔
فقیر راحموں کے بقول گل نوخیز اختر کی تحریر اصل میں چینل مالکان کا بیان صفائی ہے کیونکہ وہ ان کے عزیز ہیں۔ ہمارے برادر عزیز سید عون شیرازی نے اس تحریر پر چند لفظی تبصرہ کرتے ہوئے کہا "گل نوخیز اختر مزاح لکھتے ہیں"۔ اس پر دو آراء نہیں کہ وہ مزاح نگار ہیں لیکن "ٹیلن نیوز" کی بندش پر ان کی تحریر کو صرف اس لئے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینک دیا جانا چاہیے کہ وہ مزاح نگار ہیں یا چینل مالکان کے عزیز۔
یہ چینل "ٹیلن سپورٹس" کے نام سے کھیلوں کا سامان تیار کرنے والی کمپنی کے مالکان کا ہے۔ ان مالکان میں سے ایک تحریک انصاف کے رہنما ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں ضلع سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کے ضمنی انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔ یہ وہی مشہور زمانہ انتخابات تھے جس کے پولنگ والے دن کی شام درجن بھر پولنگ سٹیشنوں کا عملہ دھند میں"گم" ہوگیا تھا۔
کسی بھی ادارے، وہ نشریاتی ادارہ ہی کیوں نہ ہوں، کے مالک خاندان کے سیاسی نظریات یا خاندان کے چند یا ایک شخص کے کسی سیاسی جماعت سے تعلق پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ انسانی سماج میں اس طح کی مثالیں بہت ہیں۔ بہت سارے علاقائی اور "قومی" کہلانے والے میڈیا ہائوس کے مالکان کے خاندانوں کا سیاسی جماعتوں سے خاص تعلق موجود ہے۔
مالکان تو رہے مالکان خود قلم مزدوروں کی سیاسی پسند و ناپسند کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بعض تو مفادات اور حقِ خدمت پر میڈیا منیجری بھی فرماتے ہیں۔
"ٹیلن نیوز" کے بند ہونے کی کہانیوں میں ایک کہانی کی دیگ کا صرف ایک "چاول" بالائی سطور میں پیش کرچکا کہ ایک دوپہر کے کھانے میں پکنے والی بھنڈیوں کا بل 55 ہزار روپے تھا۔ مالکان نے دفتر میں کام کرنے والوں کے لئے دو وقت کے معیاری کھانے اور چائے کافی کی مفت فراہمی روز اول سے یقینی بنارکھی تھی۔ دوسری کہانی ٹی وی چینلوں سے مہنگے اینکروں کو "ٹیلن نیوز" کے عملے میں شامل کرنے کے حوالے سے ہے یہ کسی حد تک درست ہے یہ ایک سوال ہے لیکن اس سوال کا جواب بند ہونے والے چینل کے جس بھی ساتھی سے دریافت کیا اس کے جواب نے مزید حیران کردیا۔
کہتے ہیں کہ پہلے اخراجات میں کمی اور ڈائون سائزنگ پر اکتفا کیا گیا اس پر بھی بات نہ بن پائی تو مسلسل خسارہ دیکھ کر مالکان نے چینل بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک کہانی یہ ہے کہ سیٹلائٹ نشریات شروع کرنے کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ پی ٹی آئی 2024ء کے انتخابات کے نتیجے میں حکومت سازی کی پوزیشن میں آجائے گی۔ ایسا ہوتا ہے تو پارٹی کی حکومت اپنی جماعت کے کاروباری افراد کے نیوز چینل کی سرپرستی کرے گی اس سے بزنس کا حصول بہتر ہوگا۔
یہ سوچ اگر تھی بھی تو اس میں برائی نہیں سرمایہ کاری کرنے والے شخص اور خاندان کو اپنے کاروباری مستقبل اور مفادات کے تحفظ کے لئے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کا کامل حق ہے۔ چینل کی بندش کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ چونکہ امید کے مطابق پی ٹی آئی حکومت سازی نہیں کرسکی اس لئے سوچا گیا کہ لگ بھگ 4 کروڑ روپے ماہانہ مزید کیوں پھونکے جائیں۔
کہتے ہیں ابتداً یہ اخراجات 10 کروڑ تھے پھر 8 کروڑ پر آئے۔ تنخواہوں میں کمی اور ڈائون سائزنگ سے انہیں 4 کروڑ کی ماہانہ کی سطح پر لایا گیا۔ ایسا ہی ہے تو پھر چینل کی بندش کے پیچھے سازشیں تلاش کرنے کی بجائے یہ سمجھ لیا جانا چاہیے کہ مسلسل خسارے اور بعض مدوں میں کرپشن کے ساتھ تیسرا نکتہ بھیڑچال کے مصداق پروگرام ہیں۔
میں ذاتی طور پر اس چوتھے نکتے کہ چینل میں کام کرنے والے زیادہ دو افراد تحریک انصاف کے حامی تھے اس لئے یک رخی پیدا ہوئی یہی نقصان کا باعث بنی، سے متفق نہیں۔
ایک طویل عرصے سے قلم مزدوری کرتے ہوئے ہم نے انگنت میڈیا ہائوسز قائم اور بند ہوتے دیکھے۔ اداروں کی بندش کی اہم ترین وجہ مالی بدانتظامی اور فیصلہ سازی پر مامور لوگوں کی اس شعبہ میں نااہلی ہی رہی۔ میڈیا ہائوسز (پرنٹ و الیکٹرانک) کی بندش کی ایک طویل تاریخ ہے۔ نجی چینل تو رواں صدی کی پہلی دہائی کے دوسرے نصف میں آئے اس سے قبل ایک آدھ چینل غالباً ایس ٹی این کے نام سے تھا لیکن اس سے سیاسی پروگرام نشر نہیں ہوتے تھے۔
چینلوں کے آنے سے قبل کبھی کبھی اخبارات و جرائد کی اشاعت کا اعلان دھوم دھڑکے سے ہوتا تھا۔ اخبار شائع ہوتے اور عروج کے ساتھ زوال ٹوٹ پڑتا۔ متاثرہ مالکان کو بہت بعد میں پتہ چلتا کہ فلاں اخباری مالک نے پوری ٹیم اس کے ادارے میں بھیج کر شب خون مارنے کا پیشگی سامان کیا تھا۔
کراچی اور لاہور میں بہت سارے مرحوم دوست نئے اداروں میں ان کا مکو ٹھپنے کے لئے بھیجے جاتے تھے۔ کبھی کوئی اس طرح کی وارداتوں کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو یہ تاریخ روزنامہ "انجام" کراچی سے شروع ہوگی۔ درمیان میں بہت سارے پڑائو اور کہانیاں آئیں گی۔
کبھی کبھی لوگ اپنے کاروبار کے تحفظ اور میڈیا ہائوس کا مالک بننے کے لئے بھی اخبار نکالتے ہیں مثلاً راولپنڈی کے ایک معروف پراپرٹی ڈیلر نے بعض اخبارات کے مالکان کی بلیک مینگ سے تنگ آکر پہلے اپنا ماہنامہ شروع کیا پھر روزنامہ نکالا۔ دوپہر کا اخبار بھی نکال لیا تھا لشکرکے نام سے پتہ نہیں اب بھی شائع ہوتا ہے کہ نہیں۔
غلام شبیر لاشاری نے بھی لاہور سے روزنامہ "آواز خلقت" کی اشاعت کا اہتمام کیا تھا۔ رواں صدی کی پہلی دہائی کے پانچویں سال میں، ان کا خیال تھا کہ اپنے پراپرٹی کے بزنس کے جو اشتہارات دوسرے اخباروں کو دیتے ہیں ایک تو وہ خود شائع کیا کریں گے گھر کا پیسہ گھر میں رہے گا دوسرا شوبز کی دنیا میں تعارف ہوگا مشہوری کی خواہش مند اداکارائیں ان کے لئے ہمہ وقت حاضر ہوں گی۔
اس سوچ اور شوق کی وجہ سے ادارہ مشکل سے ایک سال چل پایا درجنوں لوگ کئی کئی ماہ کی تنخواہوں سے محروم رہ کر ایک دن دفتر کو لگا تالا دیکھ کر آنسو بہاتے گھروں کو لوٹ گئے۔ اس طرح کی درجن بھر مثالیں اور بھی ہیں۔
میڈیا ہائوسز میں"لنگر کی کھائو لین میں سوجائو" کی سوچ 1990ء کی دہائی میں آئی یہی وہ دہائی تھی جب پیسے لے کر نامہ نگار، نمائندہ خصوصی اور بیورو چیف بنانے کا کاروبار شروع ہوا۔ بات شروع ہوئی تھی "ٹیلن نیوز" چینل کی بندش سے، چینل کی بندش سے بہت سارے محنت کش بیروزگار ہوئے۔ میڈیا ہائوسز پہلے ہی مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ اس بحران کی مختلف وجوہات ہیں۔ دوسری طرف اخبارات کی اشاعت والے شہروں اور چینلز کے مرکزی دفاتر والے شہروں سے دور چھوٹے بڑے شہروں میں نمائندگان کا "ہڑ" آیا ہوا ہے۔
بعض میڈیا ہائوسز کے تو قصبوں تک میں ایک سے زائد نمائندے ہیں۔ ویج بورڈ ایوارڈ کے مطابق تنخواہ کوئی نہیں دیتا بعض بڑے اداروں نے کمپنیاں بنارکھی ہیں یہ کمپنیاں محنت کش ہائر کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک طرح سے واردات ہی ہے۔
تبدیلی کیسے آئے گی کارکن صحافیوں کے مفادات کا تحفظ کیسے ہوگا یہ وہ سوال ہیں جو ہر اس جگہ سنائی دیتے ہیں جہاں دو یا چند قلم مزدور مل بیٹھیں۔ ان دو سوالوں کا جواب کیا ہے یہ بذات خود ایک سوال ہے۔