6 ججز کا خط، آ عندلیب مل کر روئیں
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 جج صاحبان کا سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا 6 صفحات پر مشتمل خط میرے سامنے ہے، گزشتہ شب ایک قانون دان دوست نے یہ خط واٹس ایپ کے ذریعے بھجوایا تب اس خط کو سوشل میڈیا پر اپنے فیس بک اکائونٹ پر لگاتے ہوئے عرض کیا تھا "ہم نصف صدی سے کہہ لکھ رہے ہیں کہ یہ ملک جمہوری شموری بالکل نہیں سکیورٹی اسٹیٹ ہے اس موقف کی وجہ سے ہم نے جو عذاب بھگتے ان پر کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ کل جو ہم کہہ لکھ رہے تھے آج وہ (ان میں جج بھی شامل ہیں) بھی کہہ رہے ہیں جو کل تک سکیورٹی اسٹیٹ کے سہولت کار اور نظریہ ضرورت کے خالق تھے۔ یاد کیجئے کہ چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو اس ملک کی سپریم کورٹ نے نہ صرف 3 برس کیلئے حکومت تھمادی بلکہ اسے آئین میں ترمیم کا حق بھی عطا کردیا تھا"۔
فیس بک پر پوسٹ لگانے کے کچھ دیر بعد مجھے ایک دوست نے ججز کے خط کے مندرجات کا جواب دعویٰ بھجوایا جسے میں نے نوٹ کےساتھ اپنی پوسٹ میں شامل کردیا تاکہ دونوں آراء پڑھنے والوں کے سامنے رہیں۔
فیس بک کی اس پوسٹ میں میرے ایک عزیز نے طنزیہ کمنٹس کئے۔ تحریک انصاف اس عزیز کی تیسری محبوب جماعت ہے۔ ابتداً وہ پیپلزپارٹی کے حامی تھے پھر مسلم لیگ (ن) کوپیارے ہوئے اگلے مرحلہ میں جذبہ ایمانی کے ولولے نے جوش مارا تو تحریک انصاف کے حامی بن گئے اب وہ عمران خان کا الٰہی اوتار کی طرح دفاع کرتے ہیں دوسرے ڈھیر سارے انصافیوں کی طرح ان کا زعم یہ ہے کہ صرف انصافی روئے زمین پر واحد اینٹی اسٹیبلشمنٹ مخلوق ہیں یہ سوچ ویسی ہی ہے جیسی عمران خان کی حامی ایک شیعہ جماعت کے مولویوں اور ان کے متاثرین کی ہے کہ "جو ہمارے ساتھ نہیں وہ یزید کے ساتھ ہے"۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ نصف صدی میں اپنی فکرکے مطابق جدوجہد اور جینے کی کوششوں کے جو نتائج نکلے انہیں خوش دلی سے بھگتا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اپنی جدوجہد اور سوچ کو کسی طرح کی سرمایہ کاری نہیں سمجھا کسی سے اس کا منافع طلب کیا نہ حق خدمت۔
اسی لئے خودپسندی اور خبط عظمت کا شکار دوستوں عزیزوں کے طنز کا بھی برا نہیں مناتا وجہ یہی ہے کہ انہیں نئے عشق کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے کچھ بھی کہنے کا حق ہے ان کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں اُگے عمران خان اور اس کے حامی تو جمہوریت پرست آئین دوست اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں مخالفین جمہوریت اور آئین کے دشمن ہیں۔
ایک جوابی جملہ ذہن میں ہے لیکن لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے اس لئے کہ تعلق کیسے بھی ہوں اہم ہوتے ہیں۔
آیئے اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے والے اسلام آباد ہائیکورٹ 6 جج صاحبان میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس اعجاز اسحق، جسٹس ارباب طاہر اور جسٹس محترمہ ثمن رفعت شامل ہیں۔ (ان 6 میں سے 5 جج 2018ء کے بعد ہائیکورٹ کے جج بنوائے گئے) میرے خیال میں جج صاحبان نے اپنے خط میں جو شکایات لکھیں اور تحقیقات کا مطالبہ کیا وہ درست ہے البتہ کیا جج بنتے وقت یہ نہیں جانتے تھے کہ سکیورٹی سٹیٹ کے عدالتی نظام کا حصہ بن رہے ہیں؟
ساعت بھر کے لئے رک کر پچھلے ڈیڑھ دو برس میں ان 6 جج صاحبان کی عدالتوں میں سماعت کے لئے لگنے والے مقدمات، سماعتوں کے دوران ان کے ریمارکس، فیصلوں اور دیگر معاملات کو ملاکر دیکھنے سے اس سیاسی رجحان کی نشاندہی ہوتی ہے جس کا سوفیصد فائدہ ایک خاص سیاسی جماعت کو ہوا۔
ان 6 جج صاحبان نے اپنے خط میں سابق جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا بالکل درست مطالبہ ہے لیکن اس میں تاخیر کیوں کی؟ بعض مقدمات کا بھی خط میں ذکر ہے۔
ہم اس پر بحث نہیں اٹھارہے کہ ان میں سے اکثر جج اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس (اب جج سپریم کورٹ) جسٹس اطہر من اللہ کی سفارش پر جج بنائے گئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے سیاسی رجحانات اور دل کے قریب وکلاء کے نام بطور جج تجویز کئے کیونکہ ہمارے ہاں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرریاں ہمیشہ مخصوص چیمبروں اور "آستانوں" کی اجارہ داری کا حصہ رہی ہیں۔
ایک وقت تھا جب اعلیٰ عدلیہ میں مسلم لیگ (ن) کے حامی ججوں والی بات زبان زد عام تھی۔ پچھلے دو برسوں میں ہم خیال ججز والی بات زبان زد عام رہی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پر عمران خان اور ان کی جماعت ایک سے زائد بار عدم اعتماد کا اظہار کرچکے۔ سیاسی مقدمات کی سماعت کے دوران بعض ججز کے ریمارکس پر پچھلی دو حکومتیں تحفظات ظاہر کرتی رہیں۔
تلخ اور کڑوی بات یہ ہے کہ ہمارا نظام انصاف دستور و قانون کی بالادستی سے زیادہ پسندوناپسند اور "موسموں" کے زیراثر رہا اور ہے۔
مندرجہ بالا باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ 6 ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے جانے والے خط کو نظر انداز کردیا جائے یا اس پر کارروائی نہ ہو۔ بالکل کارروائی ہونی چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ ان میں سے بعض ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جو درخواستیں موجود ہیں ان میں الزامات کس نوعیت کے ہیں کتنی درخواستیں ثبوت و شواہد کے بغیر صرف دبائو ڈالنے کے لئے ہیں اور کتنی درخواستوں کے ساتھ ٹھوس ثبوت و شواہد موجود ہیں؟
ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہائیکورٹ کے ان 6 جج صاحبان کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط اصل میں اپنے چیف جسٹس (اسلام آباد ہائیکورٹ) کے خلاف غیراعلانیہ بغاوت ہے اور اس خط کے پیچھے محرکات کچھ اور ہیں۔
میری رائے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو نہ صرف اس خط کا نوٹس لینا چاہیے بلکہ سماعت اور تحقیقات میں دوسری رائے پر بھی تقحیقات کرالینی چاہئیں کیونکہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جج صاحبان کا خط سپریم جوڈیشل کونسل سے قبل ایک مخصوص سیاسی جماعت کے میڈیا سیل تک پہنچادیا گیا تھا۔
اسی طرح جناب جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں موجود درخواستوں میں ان پر انتہائی سنگین الزامات ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ان ججز نے ڈیڑھ سال قبل اپنے چیف جسٹس کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ ڈیڑھ سال بعد سپریم کوڈیشل کونسل کو خط لکھا اب یہ خط ایسے وقت میں لکھا گیا جب ان میں سے اکثر جج صاحبان کی عدالتوں میں بعض مخصوص سیاسی مقدمات اور سزائوں کے خلاف اپیلیں زیرسماعت ہیں۔
ان سماعتوں کے دوران بعض جج صاحبان نے ایسے ریمارکس دیئے جن پر خود قانونی حلقوں کی جانب سے بھی تحفظات کااظہار کیا گیا۔
بار دیگر عرض ہے دستور کی حاکمیت اعلیٰ سے انحراف کرکے سکیورٹی سٹیٹ کی سہولت کاری کرنے والے اب اگر انگلی کٹواکر شہیدوں میں نام لکھوانے کے خواہش مند ہیں تو معاملات کو احتیاط کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ہم یہاں یہ امر زیربحث نہیں لارہے کہ خود اس ملک کے نظام انصاف پر عام شہریوں کو کتنا اعتماد ہے۔ بعض مقدمات، سماعتوں اور فیصلوں کے حوالے سے کچھ اور سوالات بھی ہیں لیکن فی الوقت مناسب یہی ہے کہ اس امر کی تائید کی جائے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 جج صاحبان نے سپریم جوڈیشل کونسل کو جو خط لکھا ہے اس پر نہ صرف جوڈیشل کونسل میں کارروائی ہو بلکہ آزادانہ تحقیقات بھی کرائی جانی چاہئیے اس کے ساتھ ساتھ یہ رائے بھی پیش نظر رہے کہ خط پر جوڈیشل کونسل کی کارروائی اور تحقیقات مکمل ہونے تک ان معزز جج صاحبان کی عدالتوں میں سیاسی شخصیات سے متعلق مقدمات سماعتوں کے لئے نہ لگائے جائیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کسی تاخیر کے بغیر ان 6جج صاحبان کے خط کا نوٹس لیں گے۔
حرف آخر یہ ہے کہ 6 ججز کے مشترکہ خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ "ان شکایات سے ماضی میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بھی آگاہ کیا گیا تھا"۔
اب سوال یہ ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان شکایات اور الزامات کا نوٹس کیوں نہ لیا؟ کیونکہ اگر اس ضمن میں ہم کچھ عرض کریں گے تو گالی بریگیڈ کو دندل پڑ جائے گی۔