زندگانی، جیل کہانی
دن تو وہ جمعے کا تھا اور اِس فرض کی ادائی بھی ہو چکی تھی۔ یہ وقت دھوپ اور اس کی آب و تاب کا ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے گویا سورج اپنے مدار سے ہٹ کر نیزے کی انی پرآ پہنچا ہو مگر اُس دن کی کیفیت مختلف تھی۔ دھوپ نے تھوڑی ضد دکھانے کی کوشش کی پھر شکست مان کر بادلوں کے پیچھے جا چھپی۔ بس، یہی کسر باقی تھی۔
اس کے بعد پانیوں سے بھرے مشکیزوں کی طرح بحیرہ عرب کی طرف سے آنے والے بادل چھلک پڑے۔ اب پیدل کون چلتا، مشتاق احمدیزدانی صاحب نے فیقے کو اشارہ کیا، اس نے گھوڑے کو ٹخٹخایا اور بھگا کر ٹانگا عین مسجد کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔
مولانا نے قدم مسجد سے باہر نکالے تو فیقے نے بڑھ کر چھاتا تان دیا۔ مولانادھیرے دھیرے باوقار قدم اٹھاتے ہوئے تانگے تک پہنچے اور پائیدان پر پاؤں رکھنے کے بعد ذرا سے جھٹکے کے ساتھ انھوں نے دوسرا قدم اٹھایااور سوار ہونے کے بعد اگلی نشست پر بیٹھ گئے۔ معزز مہمان اطمینان سے بیٹھ چکے تواُن کے میزبانوں حکیم غلام حسین اور مشتاق احمد یزدانی صاحبان نے پچھلی نشستیں سنبھال لیں۔
کوچوان نے ایک پاؤں لوہے کے پائیدان اور دوسرا تانگے کے بم پر رکھ کر گھوڑے کو اشارہ دیا اور تانگہ شاہانہ انداز میں حرکت میں آ گیا۔ گھوڑے کی دلکی چال اور موسم کی شادابی سے مسافروں کے مزاج خوش گوار تھے اور تازہ بنی ہوئی سڑک پر گھوڑے کے سموں سے پڑنے والی ٹاپوں کی موسیقی سفر کو مزید خوش گوار بنا رہی تھی۔ اتنے شاندار ماحول میں یہ مسافر بھی کتنی دیر خاموش رہتے، ایک سوال ہوا:
کیسی رہی آج کی تقریر؟ ،۔
یار، یہ بزرگ بھی شعلہ بیاں خطیبوں کی طرح خود پسند نکلے،۔
حکیم غلام حسین نے سوچا اور خاموش رہے۔ یزدانی صاحب نے کہا:
ہمیشہ کی طرح زور دار، لطف آ گیا مولانا!،۔
یہ توصیفی کلمہ مولانا کو خوش آیا یا نہیں، اس کا اندازہ نہ ہو سکا کیوں کہ مولانا نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اسی لمحے کہا کہ میری پریشانی ذرا مختلف تھی۔ سوچتا ہوں، آپ لوگوں نے جانے کس تدبیر سے انتظامیہ کو قائل کر اسے یہاں میری تقریر پر آمادہ کیا ہوگا۔ ایسے میں مقرر کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے تاکہ انسان وہ بات ایسی حکمت کے ساتھ کہہ دے جسے سننے کو کچھ لوگ آمادہ نہیں ہوتے اور کچھ سن کر پریشان ہوجاتے ہیں۔
یہ کہہ کر مولانا لحظہ رکے، مولانا کے یہ جملے سن کر حکیم صاحب نے دل ہی دل میں سوچا کہ ناحق انھوں نے بدگمانی سے کام لیا۔ مختلف لوگوں کے درمیان بات چیت کے دوران میں گاہے کچھ لمحات ایسے بھی آ جاتے ہیں جب کوئی بات بن کہے بھی کہی جاتی ہے۔
حکیم صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ عین اس لمحے جب ندامت کے ساتھ بدگمانی کی یہ کیفیت آپ سے آپ ختم ہوئی، کسی غیر ارادی کیفیت میں مولانا گلزار احمد مظاہری نے پلٹ کر حکیم صاحب کی طرف دیکھا، اس لمحے ان کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ اور حکیم صاحب کے لیے شفقت کی ایسی نگاہ تھی جس کی روایت اہل تصوف میں تو عام ہے، لاگ لپیٹ سے پاک قانون دانوں جیسا مزاج رکھنے والے اہل شریعت میں ہو یا نہ ہو، یہ موضوع سردست غیر متعلق ہے۔ سوا ل یہ ہے کہ ایک ایسا بزرگ جس کی تمام تر شہرت و مقبولیت کا دارو مدار امور شریعہ کی تعلیم یا پھر سیاست کی وادیِ پر خار سے تھا، پشت سے پشت ملا کر بیٹھی ہوئی ایک تانگے کی سواری کے دل کی بات اس تک کیسے پہنچ گئی؟
اس سوال نے بہت دنوں تک دل کی دنیا میں دھول اٹھائے رکھی یہاں تک کہ بیچ میں طائف کی وادی آگئی۔ اس وادی کو سعودی عرب کا مری سمجھ لیجیے لیکن اس شہر پر ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب سرورِ کون و مکاں، ہادیِ زمان و مکاں ﷺ یہاں پہنچے تو کچھ اوباش حد سے گزر گئے اور انھوں نے آقائے دوجہاں ﷺ صرف سب و ستم کی بارش ہی نہیں کردی تھی بلکہ پتھر کنکر برسا کر اُن کا تن بدن بھی زخمی کر دیا۔ یوں اس سرزمین پر جس کی خنکی کے باعث کسی کا پسینہ نہیں بہتا تھا، وہاں اُس پاک وطاہر خون کے قطرے گرے اور اس سرزمین پر جذب ہوکر اس خاک کو آسمان بناتے چلے گئے۔
اب جسے اس خاک پاک کو چومنے اور آنکھوں سے لگانے کا موقع ملا ہو، اس کی قسمت کے کیا کہنے۔ اِس شخص کو جسے دنیا ڈاکٹرحسین احمد پراچہ کے نام سے جانتی ہے، اس اسرار کے انکشاف کے لیے چنا ہوگا، تبھی تو انھوں نے زندگانی، جیل کہانی، کے نام سے ایک ایسی کتاب مرتب کر ڈالی جس میں مولانا گلزار احمد مظاہری کی شخصیت اور سیرت وکردار کو یوں سمو دیا گیا جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔
مولانا گلزار احمد مظاہری کی شہرت ایک ایسے عالم دین کی ہے جن کے انداز خطابت میں احرار کے جذبوں کی خوشبو محسوس ہوتی ہے لیکن حیرت ہوتی ہے جس شخص کو مولانا عطااللہ شاہ بخاری کے قافلے کا نقیب ہونا چاہیے، وہ ابوالاعلیٰ مودودی کی زلف گرہ گیر کا اسیر دکھائی دیتا ہے۔
اس بزرگ کے بارے میں یہی حیرت کیا کم تھی کہ حکیم غلام حسین نے ان کی شخصیت کی ایک اور خوبی کا انکشاف کر دیاکہ یا انھیں کشف ہوتا ہے یا پھر وہ بزرگان سلف کی کچھ ایسی روایات کے بھی امین ہیں جو انھیں کچھ ایسی باتوں سے بھی آگاہ کر دیتی ہے، عام لوگوں کو جن کی بھنک بھی نہیں پڑتی۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ اپنی اس کتاب میں اگر ایک واقعہ بیان نہ کر تے شاید ہماری تاریخ کے ایک دلچسپ باب پر اسرار کا پردہ ہی پڑا رہتا۔
وہ لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کو اپنی زندگی کا محور بنا لینے والے مولانا گلزار احمد مظاہری فقط زاہد خشک ہی نہ تھے اور نہ فقط میدانِ سیاست کے شہ سوار بلکہ وہ ازمنہ وسطیٰ میں اہل طریقت کے ایک گل سر سبد حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری کے مرید تھے اور وہ رات کے ان مشکل پہروں میں اٹھ کر جب دنیا نیند کی وادیوں میں کھوکر رنگ برنگ خواب دیکھا کرتی ہے، مسجد میں جاکر ورد کیا کرتے تھے۔ اُن کی اس عبادت نیم شبی کا حال کبھی نہ کھلتا اگر ایک شب حادثاتی طور پر جاگ کر ان کے بیٹے فریداحمد پراچہ ان کا پیچھا کرتے ہوئے مسجد پہنچ کر ان کے ایسے معمولات کا حال اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیتے جسے انھوں نے دنیا سے چھپا رکھا تھا۔
ہم آپ تو مولانا مودودی اور ان کی جماعت اسلامی کے اکل کھرے مذہبی ہونے اور اہل طریقت سے اس کی لاتعلقی کی داستانیں ہی اب تک سنتے اور ان پر یقین کرتے آئے ہیں لیکن یہ کتاب فقط مولانا گلزار احمد مظاہری ہی کی شخصیت کے دلچسپ گوشوں سے پردہ نہیں اٹھاتی بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ کسی زمانے میں جماعت اسلامی کے وابستگان میں کیسی وسعت اور رنگا رنگی تھی۔ اس کتاب کا یہ پہلو اردو کے طلسماتی ادیب مرحوم انتظار حسین کے مولانا مودودی کے بارے میں ایک دلچسپ تبصرے کی یاد تازہ کرتا ہے۔
ممتاز دانش ور اور صحافی عبدالکریم عابد مرحوم نے اسی کی دہائی کے وسط میں مولانا مودودی کے سیاسی افکار کو مرتب کرکے کتابی شکل میں شایع کیا تو انتظار حسین صاحب نے مشرق، مرحوم میں لکھا کہ اچھا، ایسے تھے مولانا مودودی؟ ، پھر انھوں نے اپنے اس جملے کی تشریح یہ کی کہ کسی مفکر کے افکار کو اس کی سیاسی جماعت یا سیاسی کردار سے الگ کر کے دیکھا جائے تو ایک نئی دنیا سامنے آتی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کی یہ کتاب بھی قومی تاریخ اور قومی شخصیات کے کچھ ایسے ہی نئے اور منفرد پہلو ہمارے سامنے لاتی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ سیاسی جماعتوں اور اگر وہ اصلاحی تحریک کا درجہ بھی رکھتی ہوں تو ان میں نظم و ضبط کی پابندی کا جذبہ کیسا ہوتا ہے اور وہ کم وسائل کے باوجود انتخاب میں کیسے حصہ لیتی رہی ہیں اور دھاندلی کے روکنے کے لیے وہ کیسے کیسے قانونی راستے اختیار کیاکرتی تھیں۔
یہ ایسی باتیں ہیں جن کا موجودہ زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ دلچسپ داستان کہیں اپنی زبانی بیان کی ہے اور کہیں یہ کہانی مولانا مظاہری کی ڈائری کے ذریعے ان کے اپنے قلم سے بیان ہوئی ہے۔
اس کتاب کی دھوم ابھی مچی ہوئی تھی کہ مولانا کے دوسرے فرزند دل بند ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے اپنی خودنوشتعمر رواں، شایع کر دی۔ ہر دو کتب اپنے اپنے موضوع اور عہد کے اعتبار سے مختلف کہانی بیان کرتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں کتابیں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل لگتی ہیں، اس بار آپ نے باپ کی کہانی پڑھ لی، بیٹے کی داستان آیندہ کبھی۔