وحید الدین خان کا احسان
مولانا وحید الدین خان کو ہماری نسل نے تب جانا جب ان کا زمانہ ابھی نہیں آیا تھا۔ یہ تذکرہ ذرا نازک ہے، اس لیے پہلے بے جی کی حکایت سن لیجیے۔ بے جی میرے اباجی کی پہلی اہلیہ تھیں لیکن ہماری سوتیلی ماں نہیں تھیں، بے جی تھیں، گھر کی بڑی جن کی گود میں گھر کے سارے بچے پلتے ہیں اور کاروبار زندگی چلتا ہے۔
یہ راز کبھی نہ کھل سکا کہ وہ صبح کی کس گھڑی میں اٹھتی ہیں، حتیٰ کہ رمضان شریف میں بھی یہ راز کبھی نہ کھل سکا۔ بچہ لوگ ناشتے کے لیے اٹھتے تو وہ جائے نماز پر بیٹھی وظیفہ کر رہی ہوتیں، اسکول کے لیے روانہ ہوتے تو وہ ہوتیں تو اسی جگہ لیکن یہ ان کی تلاوت کاوقت ہوتا۔ وہ دن بھر میں کتنا قرآن پاک پڑھ لیتی تھیں، یہ راز بھی کبھی نہ کھل سکا، شاید ہفتے بھر میں وہ ختم قرآن کر لیا کرتی ہوں گی۔
ویسے تو وہ جہاں بھی ہوتیں اور جو بھی کر رہی ہوتیں، گھر کے ہر کام اور ہرمعاملے پر ان کی چھاپ دکھائی دیتی لیکن جس بات کا ذکر مجھے کرنا ہے، وہ بڑی عجیب ہے۔ اسکول سے واپسی کے بعد دوپہر کے کھانے اور کھیل کود کے دوران کچھ نہ کچھ ایسا ہو جایا کرتا تھا کہ کوئی نہ کوئی بچہ بسورتا ہوا ان کی گود میں آ گرتا اور وہ اس کا حنہ چوم کر کوئی کہانی شروع کر دیا کرتیں، جیسے: اس وقت کڑی دھوپ تھی جب وہ سنسان گلی سے ٹہلتا ہوا برآمد اور…،
وہ ہمیشہ اسی قسم کے کسی سامنے کے واقعے سے اپنی بات کا آغازکیا کرتیں اور سننے والا ان کی بات میں کھو کر رہ جاتا۔ بس، سپردگی کی کسی ایسی ہی کیفیت میں ان کا مخاطب کوئی چھوٹی سی نصیحت پلے سے باندھ کر ان کی گود سے نکلتا اور کھیلنے کودنے میں مصروف ہو جاتا۔ اللہ بے جی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، ان کی یاد اور ان کی اچانک شروع ہو جانے والی کہانیوں کی یاد ہمیشہ اس وقت تازہ ہو جاتی جب ناٹے سے قد والے گوہر صاحب ہمارے دفتر میں آتے۔ تھے تو وہ خاموش طبع اور بہت ہی مٹے ہوئے لیکن جیسے ہی ان سے نگاہیں چار ہوتیں، آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ کچھ اس اپنائیت سے سلام کرتے کہ لگتا جیسے جنم جنم کارشتہ ہے۔ وہ جیسے دھیمے دھیمے قدم اٹھاتے ہوئے آتے، اسی خاموشی سے واپس بھی چلے جاتے لیکن رخصتی سے قبل وہ ذرا سا لپک کر الرسالہ، نام کا ایک پرچہ میزپر رکھنا نہ بھولتے۔
ہلکے رنگوں کے سرورق اور پینتیس چالیس صفحات کا یہ پرچہ کوئی الگ ہی چیز تھی۔ ایک ایک، پونے پونے یا آدھے آدھے صفحے کی تحریریں ہوتیں، بالکل بے جی کی کہانیوں جیسی جوکچھ ایسی بے ساختگی سے شروع ہوتیں جیسے ہم سانس لیتے ہیں، یا بہت سی میٹھی اور ذرا سی نمکین شکنجین کا ایک فرحت بخش گھونٹ جو مشام جان کو تازہ کردیتا ہے اور انسا ن سوچتا ہے کہ ہم اپنے رب کی کس کس نعمت کا شکر ادا کر پائیں گے؟ یہ پرچہ بھی اللہ کی ایک ایسی ہی نعمت تھا۔
ہماری نسل کئی اعتبار سے خوش قسمت رہی ہے۔ اس خوش قسمتی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں نے ایسے بزرگوں کی گود میں آنکھ کھولی جنھوں نے اقبال ؒجیسے دیو قامت فلسفی، ابوالکلام جیسے مشکل پسند مصنف اور ابو الاعلیٰ جیسے سنجیدہ اور مشنری بزرگوں کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔ اسی سبب سے ہمارے عہد پر ان بزرگوں کاسایہ رہا۔ اس با برکت سائے کی کئی خوبیاں اور ایک مشکل تھی۔ یہ مشکل کیا معنی رکھتی تھی، اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں، استاد جنھیں مشکل میں ڈالنے کے لیے اس قسم کے ایک شعر کا مطلب پوچھا کرتے تھے کہ
مگس کو باغ میں نہ جانے دیجیؤ
ناحق خون پروانے کا ہو گا
وہ نسل جس نے ایسے پیچیدہ اشعار کی وجہ سے استاد کی چھڑی سے اپنے ہاتھ لال کروا رکھے ہوں گے، انھیں یہ رسالہ کیوں نعمت نہ لگتا۔ اس رسالے کی ہر تحریر ایک ہی مصنف یعنی وحیدالدین خان کی لکھی ہوتی۔ تحریریں کیا ہوتیں، کہانیاں ہوتیں۔ ہم یہ کہانیاں پڑھتے اور سوچتے کہ بار الہٰ! اس شخص کی قوت مشاہدہ کتنی تیز ہے جس کوچے سے بھی گزر جاتا ہے، کہانیاں سمیٹ کر زنبیل میں ڈال لیتا ہے اور کچھ ایسے اسلوب میں بیان کرتا ہے، جی چاہتا ہے کہ بات ختم ہی نہ ہو، ہزار داستان بن جائے۔
ہزار داستان کہنے کو ایک کہانی ہے لیکن ہر کہانی میں ایک کہانی اور کہانی کے بعد بھی ایک کہانی ہے، گویا یہ کہانیوں کی ایسی زنجیر ہے جس کی گرفت میں آیا ہوا قیدی کبھی چھوٹ نہیں پاتا۔ سچ جانیے تو وحید الدین خان بھی ہمارے عہد کے شہر زاد تھے جنھوں نے آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے ہمارے بلند قامت بزرگوں کی موجودگی میں لکھنے کی الگ راہ نکالی اور دیکھتے ہی دیکھتے، اپنے عہد پر چھا گئے۔ مولانا وحید الدین خان نے دعوت و انزار جیسے موضوع میں چاشنی بھر کر اسے ایک نئی شکل اور ایک نیا اسلوب دے دیا جس کی جتنی تفہیم معمولی پڑھے لکھے لوگوں یا ابتدائی جماعتوں کے بچوں کے لیے آسان تھی، اتنی ہی بھاری بھرکم اور جناتی لٹریچر پڑھنے والوں کے لیے بھی خوش گوار تھی۔ ان تحریروں کے مصنف نے اپنی ان کہانیوں سے اخلاق کا درس دیا، دین کی حکمت بتائی اور مذہبی منافرت کے گھٹن والے ماحول میں کشادگی سے سانس لینے کی آسانی فراہم کی۔
ان ہی تحریروں سے معلوم ہوا کہ اس بزرگ کا شمار کبھی مولانا مودودی کے ساتھیوں اور جماعت اسلامی کے راہ نماؤں میں ہوا کرتا تھا۔ یہ واقعہ کب ہوا ہوگا، اس کی تو ہمیں خبر نہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ ہماری نسل کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہو گزرا ہو۔ مزے مزے کی ان کہانیوں میں کبھی کبھار یہ تذکرہ بھی آجایا کرتا جب کبھی ایسا ہوتا، تحریر کا وہ ٹکڑا الگ سے پہچانا جاتا، کسی شیریں کھیرے کی تلخ پھانک کی طرح جو اچانک منھ کا ذائقہ برباد کردیتی ہے۔ لکھنے والے پر جانے اُس تعلق میں ایسی کیا بیتی ہوگی جس کے تذکرے پر وہ اکثر مجبور ہو جاتے۔ خیر، اِس تذکرے میں بھی ایک سبق تھا کہ انسان خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے، وہ کمزوری جو اُس کی سرشت میں رکھ دی گئی ہے، اِس سے نجات کے لیے بڑا ریاض چاہیے۔
کمزوری کے تذکرے کا بھی اپنا ایک پس منظر ہے جسے سمجھے بغیر اس عہد کے مسلمانوں کی نفسیات کو سمجھنا مشکل ہے۔ خان صاحب کی ان ہی کہانیوں سے ایک سبق اور ملا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ جو ہم ہر وقت بطل حریت بن کر ساری دنیاکو ایک ہی وقت میں دشمن بنا کر اپنے اور غیر سب کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں، یہ کچھ ایسا ضروری بھی نہیں۔ وہ کچھ مثالیں پیش کیا کرتے اور بتاتے کہ ہمارے لوگوں نے اپنے اس طرز عمل کی وجہ سے ساتھ کے گھرمیں بسنے والے کسی ہندو، کسی عیسائی وغیرہ سے دعا سلام کے رشتے ہی توڑ ڈالے ہیں۔
اگر دین کا مزاج یہی ہوتا اور حضور ﷺ کا طریقہ بھی ایسا ہی ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ صرف تیرہ برس کی قلیل مدت میں پورے عرب میں انقلاب آجاتا؟ یہ پندِ نصیحت کرتے کرتے وہ ایک بار شہر یار بن جاتے اور ہمارے آپ کے جانے پہنچانے گلی کوچوں سے چن کر کوئی ایسی کہانی پیش کردیتے جسے سن کر لگتا کہ ارے، ایسا تو ہم نے بھی دیکھ رکھا ہے لیکن یہ جو ہم نے دیکھ رکھا ہوتا تھا، اس کی اہمیت تبھی سمجھ میں آتی جب وہ خان صاحب کے اشہب قلم سے نکل کر ہمارے سامنے آتی۔ یہ ان کی ایسی ہی دل نشیں حکایات کی دین ہے کہ تین چار دہائیوں تک جنگ و جدل کی تباہ کاریوں کے ہاتھوں خوار و زبوں ہو کر ہم آج اپنی دکھی دنیا میں محبت کے رنگ بھرنے اور کچھ نئے میثاق کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کاش یہ نصیحت ہماری سمجھ میں کچھ پہلے آجاتی۔
حضرت داتا صاحب، شیخ سعدی شیرازی اور مرشدوں کے مرشد مولانا روم، یہ سب ہمارے ایسے بزرگ ہیں جن کے ملفوظات اور ان کی حکایات آج بھی ہمارے رگ و پے میں خون کی طرح دوڑتی ہیں اور ہم سوچتے ہیں، ایسی کمال کی باتیں تاریخ کی امانت ہیں، ہمارا عہد ان سے خالی ہے لیکن خان صاحب کو پڑھ کر محرومی کا یہ احساس دور ہوجا تاہے۔