امید اور مایوسی
بھائی ارشاد محمود کو اللہ سلامت رکھے۔ اپنی بساط کے مطابق وہ پاکستان اور کشمیرکا مقدمہ ہر سطح پر لڑتے ہیں اور لوگوں کو اس مقصد کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں۔ ارشاد محمود تھے تو ادب کے طالب علم لیکن اگر کوئی اپنی کسی مختلف دلچسپی کے ساتھ ہی ساتھ فرزند کشمیر بھی ہو تو اس کی ذمے داری دوہری ہو جاتی ہے۔
یہی کچھ ارشاد محمود کے ساتھ بھی ہوا۔ نوے کی دہائی میں جب مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی تیز ہوئی تو ارشاد یونیورسٹی سے تازہ تازہ فارغ ہوئے تھے لہٰذاکسی بھی پرجوش نوجوان کی طرح انھوں نے اس عظیم مقصد کے ساتھ خود کو وابستہ کر لیا۔ آخر کو یہی ٹھہرا فن ہمارا۔ اب وہ ایک نیک نام تھنک ٹینک سینٹر فار پیس ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارم کے سربراہ ہیں اور خالی خولی باتوں کے بجائے عملی کام کرتے ہیں۔ چند برس قبل مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں دبئی انی شی ایٹو کا ڈول ڈالا گیا تو اس میں نیک کام میں ہمارے اس پر عزم نوجوان کا کردار بڑا اہم تھا۔ یہ ایک ایسی پہل قدمی تھی جس کی بازگشت دور دور تک سنی گئی۔
ان ہی ارشاد محمود نے اس ہفتے سید شجاعت بخاری کی یاد میں ایک محفل سجائی۔ سید شجاعت بخاری سری نگر کے ممتاز انگریزی اخبار رائزنگ کشمیر، اور اسی ادارے کے تحت شایع ہونے والے کئی اخبارات، ہفت روزوں اور ماہ ناموں کے بانی اور ایڈیٹر تھے جنھیں تین برس قبل انتہائی پراسرار حالات میں شہید کر دیا گیا۔ شہید شجاعت بخاری کا جرم کیاتھا؟ ویسے تو مقبوضہ کشمیر میں کسی کو شہید کیا جائے، ضروری نہیں کہ اس کا کوئی جرم بھی ہو لیکن سید شجاعت بخاری کا جرم بہت واضح تھا، وہ مسئلہ کے حل کے سلسلے میں بین الاقوامی کوششوں کا حصہ تھے جن میں دبئی انی شی ایٹو بھی شامل تھا۔
شجاعت بخاری کا دوسرا جرم یہ تھا کہ وہ نہ صرف کشمیر کے دونوں حصوں کے صحافیوں بلکہ پاکستان اور بھارت کے صحافیوں کے درمیان بھی ایک ایسا پل تھے جس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کے مواقع ملتے تھے۔
ارشاد محمود کے ادارے سینٹر فار پیس، ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارم اور الطاف حسین وانی کے ادارے کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف افیئرز کے زیر اہتمام ان کی تیسری برسی منائی گئی جس میں حریت کانفرنس کے راہنما سید یوسف نسیم، یٰسین ملک کے نمایندے رفیق ڈار، ممتاز سفارت کار عارف کمال، سینئر صحافی اور کالم نگارنواز رضا، مرتضیٰ درانی، بیرسٹر ندا کامل، ڈاکٹر شاہین اختراور ڈاکٹر وقاس علی سمیت ممتاز شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ ارشاد محمود نے مقبوضہ کشمیر کے شہید صحافی کی یاد اسلام آباد میں منا کر جدوجہد آزادی کے متوالوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کا عام آدمی ہی نہیں، یہاں کے صحافی اور دانش ور بھی ان کے ساتھ ہیں اور کسی سیاسی وابستگی سے بلند ہو کر ان کے ساتھ ہیں۔ اس ہفتے اسلام آباد سے ملنے والا یہ پیغام بہت حوصلہ افزا اور خوش گوار ہے۔
اس خوش گوار پیغام کے ساتھ پہلے اسلام آباد اور اس کے بعد کوئٹہ سے جو پیغامات ملے ہیں، ان میں مایوسی کے بھی بہت سے پہلو ہیں۔ یہ واقعہ کوئٹہ ایئرپورٹ کا ہے۔ ان دنوں سردی تھی تو سہی لیکن اتنی نہیں کہ وادی بولان سے سفر کرنے والے اپنے لبادوں میں سمٹ سکڑ کر بیٹھ جائیں۔ شاید یہی سبب رہا ہو گا کہ ایئرپورٹ نیم مختصر لاؤنج میں چہل پہل دکھائی دیتی تھی۔
بچے اور نوجوان یہاں وہاں چہکتے پھرتے تھے۔ ان میں ایک جمشید دستی بھی تھے۔ ہوا یوں کہ انھیں دیکھ کر دو ایک نوجوانوں نے ان کے ساتھ مصافحہ کیا اور سیلفی بنائی۔ اس کے بعد ان کے دل میں جانے کیا آئی کہ گھوم پھر کر لوگوں سے ملنا شروع کر دیا۔ بس، یہیں ان سے غلطی ہوگئی۔ ایک نوجوان جس کی طرف مصافحہ کے لیے انھوں نے ہاتھ بڑھایا تھا، اس نے جوابی طور پر ان کی طرف ہاتھ بڑھانے سے انکار کردیا اور کہا کہ جس شخص کو پارلیمنٹ کے مقدس ایوان میں بی ہیو(Behave) کرنا نہیں آتا، اس سے ہاتھ ملانا مجھے زیب نہیں دیتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں اگر کچھ لوگ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ہلڑ بازی پسند کرتے ہیں تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسے بے ہودگی قرار دے کر اسے مسترد کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور حزب اختلاف کے اراکین نے قومی اسمبلی میں جو رویہ اختیار کیا، وہ محض مایوس کن ہی نہیں بلکہ ایک جرم ہے۔
بظاھر تو اس طرز عمل کا مقصد یہ تھا کہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف یا کسی دوسرے کو بات نہ کرنے دی جائے۔ اس طرز عمل سے یہ عین ممکن ہے کہ متعلقہ جماعتوں کے ہم خیالوں کی طرف سے کچھ پزیرائی ہو جائے لیکن عملی طور پر اس کے بالکل برعکس ہوا ہے۔ عوام اس طرز عمل کو غیر سنجیدگی اور غیر ذمے داری سمجھتے ہیں اور اس کے ذمے داروں کو کار مملکت کے لیے نا اہل خیال کرتے ہیں۔
کوئٹہ میں عوام نے جمشید دستی کا ہاتھ اس لیے جھٹک دیا تھا کہ چند روز قبل انھوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر ممنون حسین کے خطاب کے دوران سیٹیاں بجائی تھیں۔ منگل کے ہنگامے میں قومی اسمبلی میں کوئی ایک جمشید دستی دکھائی نہیں دیا بلکہ حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے اراکین کی ایک بڑی تعداد جمشید دستی بنی ہوئی تھی جب کہ بلوچستان اسمبلی کے باہر تو تمام حدود ہی پھلانگ لی گئیں۔ پارلیمنٹ کے ایوان میں ایک دوسرے پر بڑھ بڑھ کر حملے کرنے اور گالیاں بکنے والے اراکین اگر ہمت رکھتے ہیں تو بازار میں نکل کر دیکھ لیں، انھیں خوب اندازہ ہو جائے گا کہ عوام ان کی ہلڑ بازی سے کس طرح نفرت کرتے ہیں۔
لکھ کر رکھ لیا جائے کہ قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلیوں کے واقعات نے نہ صرف حکومت کو کمزور کیا ہے بلکہ جمہوری پارلیمانی نظام کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اگر کوئی خوش فہم یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح پارلیمانی نظام کو دفن کرنے کا موقع میسر آئے گا تو خاطر جمع رکھیں، ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔