راجہ فاروق حیدر کے خواب
نیلی مسجد کو دیکھا تو جی چاہا، دائیں جانب اس جگہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاؤں جہاں کسی بزرگ کی جائے عبادت نشان زد ہے، وقت کم تھا اور ہم سفر جلدی میں، اس لیے بھاگم بھاگ آیا صوفیہ میں جا گھسے۔ ایک گائیڈ اپنے حصے کے زائرین میں گھرا اِس عمارت کے اُن رازوں سے پردہ اٹھا رہا تھاجو مسافروں پر عام طور پر نہیں کھلتے۔ لوگ حیرت سے منہ کھولے گائیڈ کا بولا ہوا ایک ایک لفظ کانوں میں اتار رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد محسوس ہوا کہ جیسے اس باتونی کی باتیں ختم ہو چکی ہیں۔ ابھی یہ سوچا ہی تھا کہ وہ پھر کی کی طرح گھوما اور فرش پر ایک آئینہ رکھ کر کہنے لگا، ذرا دیکھیے گا، کیسا نظارہ ظہور میں آتا ہے۔
گائیڈ کی کارروائیاں جاری تھیں کہ اسی دوران میری نگاہ ایک دراز قامت حسینہ پر جا ٹھہری جو آنکھیں جھکائے سامنے کی اُس دیوار کی طرف بڑھتی چلی آتی تھی جہاں حضرت مریم علہیا السلام کا عظیم میورل صدیوں سے دعوت نظارہ دے رہا ہے۔ اُس نے آنکھیں جھکا رکھی تھیں اور بطور احتیاط اُن پر ہاتھ کا چھجا بھی بنا رکھا تھا تاکہ جب وہ نظر اُٹھائے تو سب سے پہلے اُسے وہی دکھائی دے جو وہ دیکھنا چاہتی ہے یعنی حضرت مریم کا دیو قامت میورل۔ یہ عقیدت کی انتہائی منزل تھی جس میں نیّت اور دل کی پاکیزگی غالب آ جاتی ہے اورکسی کو دکھائی بھی نہیں دیتا کہ چار گرہ کپڑے کی وہ دھجی کیا قیامت ڈھا رہی ہے جس پر اسکرٹ کے نام کی تہمت دھری ہے۔ میں نے یہ منظر دل کی آنکھ سے دیکھا، عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی اُس مغربی دوشیزہ کی تصویر دل کے البم پر اتاری اور ربی بی مریم سے اجازت لے کر باہر نکل آیا کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ زائر کو خبر ہو یا نہ ہو، میرا شوق دیدار اس کی عبادت میں رخنہ ضرور ڈال دے گا۔
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا
پر کسے دا دل نہ ڈھاویں، رب دلاں وچ رہندا
پیار کرنے والا خواہ نیلی مسجدکے در و دیوار سے لپٹے، خواہ عظیم الجثہ آیا صوفیہ کی چوڑی دیواروں اور پتھریلی سیڑھیوں پر دل رکھ دے، دونوں کیفیات میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ کچھ ایسی ہی باتیں سوچتا ہوا سر جھکائے میں واپس پلٹ آیا لیکن کچھ آگے بڑھ کر راستہ دیکھنے کے لیے نگاہ اٹھائی تو دیکھتا ہی رہ گیا ؎
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
رنگوں کے اس جادو کو الفاظ کی گرفت میں لاتے ہوئے مرشد کی آنکھوں نے تو جانے کیا دیکھا ہو گا لیکن میری نگاہوں کے سامنے عین یہی منظر تھا۔ یہ گل لالہ (Tulip) کے پھولوں کے تختے تھے، ایک ہی رنگ میں تاحد نظر یا پھر بہت سے رنگوں کے امتزاج سے بُنے ہوئے۔ اچانک ایک نرم ہاتھ نے میرے کاندھے کو چھوا اور کہا، افندم! کانوں میں گویا شیرینی گھل گئی، میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ ایک عظیم الشان بڈھا تھا جس کے دانت برسوں قبل داغ مفارقت دے چکے ہوں گے۔ وہ پوپلے بڈھوں کی طرح جبڑوں سے جگالی کرتے اور مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ نگاہیں چار ہوئیں تو اس کی مسکراہٹ کچھ اور بڑھ گئی، اُس نے نگاہوں کو خیرہ کر دینے والے منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ہالی (Hali)، ہالی۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی، میں نے دل میں سوچا اور سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی مسکراہٹ اور جگالی کچھ اور بڑھ گئی پھر اس نے دونوں ہاتھوں سے کچھ بچھانے کی اداکاری کرتے ہوئے زور لگا کر کہا، ہالی، افندم ہالی! میری سمجھ میں پھر بھی کچھ نہ آیا تو لحظہ خاموش ہوا پھرکچھ سوچ کر کہا غالیچہ۔
اوہ تیرا بھلا ہو جائے، شاعر نے زبان یار من ترکی پھبتی کس کر ویسے ہی تن آسانوں کو بہانہ دے دیا ہے ورنہ تھوڑی سی محنت کریں، ذہن پر ذرا سا زور دیں تواچھی خاصی بات ہو سکتی ہے۔ مہربان بڈھا اور میں ذرا پیچھے ہٹ کر بینچ پر بیٹھ گئے اور بڑے مزے سے ایک دوسرے کو سمجھا سمجھا کر باتیں کرنے لگے۔ پتہ چلا کہ اس کوچے میں پھولوں کے یہ جو تختے ہیں، موسم کی مناسبت سے لگائے جاتے ہیں جیسے بہار کے اس موسم میں ٹیولپ۔ پھر ان پھولوں کو بھی اس ترتیب سے لگایا جاتا ہے کہ نقشہ ان قالینوں کا بن جاتا ہے جو گزشتہ کئی صدیوں سے ترکوں کی پہچان ہیں۔
استنبول کے سلطان احمت اسکوائر کا یہ نقشہ نگاہوں میں یوں ہی نہیں آ گیا، اس کے ذمے دار راجہ فاروق حیدر ہیں۔ راجہ فاروق حیدر سے ملاقات کا بہانہ ہمارے ارشاد محمود نے پیدا کیا جن کے ادارے سینٹر فار پیس، ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارم کے زیر اہتمام سی پیک اور آزاد کشمیر کے ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں صبور علی سید نے ان ہی دنوں ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری کے ادارے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں اس رپورٹ کی تقریب اجرا ہوئی۔ راجہ صاحب اسی تقریب کے مہمان خصوصی تھے جہاں انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ آزاد کشمیر میں سیاحت کو فروغ دے کر کشمیر اور پاکستان دونوں کی معیشت اور حیثیت میں اضافے کے خواہش مند ہیں۔ یہی خواب تھا جس کی تکمیل کے لیے انھوں نے مظفر آباد میں گلِ لالہ (ٹیولپ) کا باغ کاشت کر دیا ہے جس کے رنگوں کی کہکشاں آنکھوں کو ایسے طراوٹ بخشتی ہے جیسے شبنم کے موتی پھول کی پتیوں میں خوشبو بھر دیں۔
بس، اس میں کمی کوئی ہے تو یہ کہ اپنے دیس کے اس کوچے کے باغوں اور بہاروں نیز دریاوں اور کہساروں کے دیکھنے کے لیے جو لوگ آئیں، انھیں یہاں آنے کے لیے کوئی آسان راستہ مل جائے۔ ویسے جغرافیہ اور تاریخ تو یہ بتاتی ہے کشمیر کی طرف جو راستے جاتے ہیں، پاکستان سے گزر کر ہی جاتے ہیں لیکن خیبر پختون خوا اور پنجاب کی طرف سے جانے والے راستوں کا حال ایسا ہے جس کے بیان کے لیے میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے والا مصرع کہا گیا ہو گا۔ آزاد کشمیر کے اندر سڑکیں بڑی شاندار ہیں لیکن باہر سے آنے والے راستوں کا حال بہت برا ہے۔
اب سی پیک کے ذریعے امید کی کرن چمکی ہے تو خواہش ہے کہ یہ خواب جلد حقیقت بن جائے تا کہ ہم بھی آزاد کشمیر اور ملک کے دیگر حصوں میں سیاحوں کی چہل پہل اور اپنے ہم وطنوں کی خوش حالی دیکھ سکیں۔ راجہ فاروق حیدر کی اس دعا پر کون کافر ہو گا جو آمین نہیں کہے گا کیوں کہ اپنے ہاں محض گلِ لالہ کے رنگ اور بہاریں ہی نہیں ہیں، استنبول کے گلی کوچوں کی طرح تاریخ کے ان گنت راز اور ان رازوں کی حفاظت کرتی بے شمار تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں، اپنے زائرین کے انتظار میں جن کا حسن گہناتا جارہا ہے۔