کچھ ادھر ادھر کی باتیں
افغانستان میں طالبان کے زور پکڑنے کے بعد پاکستانی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ یہ سوال اہم بھی بہت ہے اور اس سلسلے میں خیالات کے گھوڑے بھی بہت دوڑائے جا رہے ہیں لیکن ایک گھوڑا ایسا ہے جس کا تیر نشانے پر بیٹھتا دکھائی دیتا ہے اور یہ تیر ہے، جنرل مرزا اسلم بیگ کا۔
وہ کرنل اشفاق حسین جیسے سکہ بند مصنف کو انٹرویو دینے پر آمادہ ہوئے اور یہ گفتگو کتاب کی شکل میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی تو یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا اس کتاب کے وقت اشاعت میں بھی کوئی حکمت پوشیدہ ہے؟
جنرل صاحب نے قومی سیاسی موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے، اس پس منظر میں کتاب کے وقت اشاعت پر بھی بات ہوئی اور خیال ظاہر کیا گیا کہ اس کا تعلق اُس پرانی بحث سے ہو سکتا ہے جس کا تعلق ملک کے سیاسی نظام سے ہے یعنی کیا ملک میں موجودہ پارلیمانی نظام کو ہی برقرار رہنا چاہیے یا کوئی ایسا تجربہ کرنا چاہیے جس کے لیے ہمارے محترم و معظم ڈاکٹرعطا الرحمن صاحب نے ایک عرصے سے مہم چلا رکھی ہے یعنی صدارتی نظام۔ ان سطورِ میں جب اس جانب اشارہ کیا گیا تو ہمارے کرنل صاحب پان کی گلوری کلے میں رکھ کر مسکرائے اور کہا کہ ممکن ہے کہ ایسا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو لیکن اس کتاب میں یہی بات نہیں لکھی گئی اور بھی بہت کچھ ہے۔
کتاب کی اشاعت کے بعد قومی اور عالمی منظر نامے پر بہت سے واقعات ہو گزرے ہیں، ان میں ایک واقعہ طالبان واپسی کا بھی ہے۔ اسی کے ساتھ جڑی ہوئی ایک بات جنرل صاحب نے یہ فرمائی ہے کہ اس ملک یعنی پاکستان کی سیاست کو قرار نہیں آسکتا جب تک یہاں سیاست کے مرکزی دھارے میں مذہبی جماعتوں کی با معنی کار فرمائی نہ ہو۔ یہ کرشمہ کیسے ہوگا؟
بیگ صاحب فرماتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے ذریعے ہو گا اور ضمن میں ہمارے ہاں ان دنوں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ یہ بہت کچھ کیا ہو رہا ہے، اسے کسی ایک کالم میں سمیٹنا آسان نہیں لیکن ان ہی دنوں ایک حسن اتفاق ایسا ہوا ہے کہ جس کے نتیجے میں ہماری قومی زندگی کے ایک شعبے میں قرار آنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں اور وہ شعبہ بھی کچھ ایسا ویسا نہیں، اس کا تعلق معیشت سے ہے۔
گزشتہ دنوں کابینہ کے اجلاس میں ایک فیصلہ ہوا کہ حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کو تبدیل کر کے ایک نئے چیئرمین کے تقرر کا فیصلہ کیا ہے۔ اس خبر کی گونج اور اس سے پیدا ہونے والی حیرت ابھی جاری تھی کہ سماجی رابطے کے جدید ذرایع اور پل پل کی خبروں سے آگاہ رکھنے والے وزیر اطلاعات نے نئے چیئرمین کے نام کا بھی اعلان کر دیا۔
گزشتہ دنوں اس ملک میں ایک اور بورڈ یعنی کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے تقرر کے سلسلے میں کرکٹ پسندوں اور کھیل سے دلچسپی رکھنے والوں کے اعصاب کا اچھا خاصا امتحان ہوا تھا، اس تجربے کے بعد توقع کی جاسکتی تھی کہ انتظار کی زحمت نے جانے کتنے امیدواروں اور اس شعبے سے وابستہ لوگوں کے اعصاب چٹخائے لیکن خیریت گزری کہ ملک کے حساس ترین محکموں سے ایک محکمے کے سربراہ کے تقرر میں نہ صرف یہ کہ بے یقینی کے سائے نہیں لہرائے بلکہ ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا گیا جو اس منصب کے لیے موزوں ترین ہے۔
ڈاکٹرمحمد اشفاق احمد کا نام ذرایع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کے سامنے چند ماہ قبل اس وقت آیا جب انھوں نے کراچی چیمبر میں ملک کے چند بڑے تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات اور اس کی خبر آئی گئی ہو گئی لیکن لگتا ہے کہ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا جس کی نشان دہی اقبالؒ کر گئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھادل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بات اثر کر گئی اور ایف بی آر چیئرمین کی تعیناتی عمل میں آ گئی۔
ڈاکٹر محمد اشفاق احمد کا کیریئر بنیادی طور پر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے سے وابستہ رہا ہے اور اپنے طویل کیریئر کے دوران میں انھوں نے ملک بھر میں ذمے داریاں انجام دی ہیں۔ انھیں اپنے بنیادی محکمے کے علاوہ بہت سے دیگر محکموں میں بھی کام کرنے کے مواقعے ملے ہیں۔
کہتے ہیں کہ جیل اور ریل کا تعلق بڑا پائیدار ہوتا ہے لیکن ان دو تجربات کے ساتھ اگر ایک چھت کے نیچے کام کرنے کا تجربہ بھی شامل کر لیا جائے تو بڑی دلچسپ تکون وجود میں آتی ہے۔ ان سطور کے لکھنے والے کو ڈاکٹر اشفاق کو جاننے کا موقع اسی زمانے میں ملا۔ ایوان صدر کی تیسری منزل پر ایک کمرہ ہوتا تھا، اشفاق اسی میں بیٹھا کرتے۔
ایوان صدر میں ان کے تقرر کے زمانے میں بہت سے مشکل واقعات رونما ہوئے، ان میں ایک واقعہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے تقرر یا معزولی کا بھی تھا۔ یہ ایک تکلیف دہ واقعہ تھا جس نے بڑی بدمزگی پیدا کی، یہاں تک کہ تھانے کچہری تک کی نوبت بھی آگئی۔ یہی سبب تھا جس کی وجہ سے کئی نامی گرامی افسروں کے صبر کا امتحان بھی ہوا۔
اشفاق ان چند افسروں میں سے ایک تھے، مشکل سے مشکل مرحلے پر جنھوں نے اپنے اوسان بحال رکھے۔ تقرریوں اور معزولیوں کے معاملات کی معیشت کے پیچیدہ معاملات سے کچھ ایسی مماثلت تو نہیں ہوتی لیکن حکمت عملی، صبر، اوسان بحال رکھنا اور دھیمی رفتار سے ہی سہی مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہنے میں ہی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
ایک پرانے رفیق کار کی حیثیت سے مجھے ذرا بھی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر اشفاق کی نیک نیتی، حکمت عملی اور صبر کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے کی عادت انھیں ضرور کامیابی کی منزل تک پہنچائے گی۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے وہ ترقی پسندانہ خیالات رکھتے ہیں اورعوامی مسائل اور کارسرکار کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جو ایف بی آر کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کے تقر رکو موزوں بناتا ہے اور امید پیدا کرتا ہے کہ وہ ضرور کچھ نہ کچھ اچھا کر گزریں گے۔