چرواہا اور ڈاکٹر طاہر مسعود کی حمدیں
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جنگل میں ایک چرواہا اپنے انداز میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب تھاکہ اس کی طبیعت رواں ہو گئی۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کا معاملہ ذرا مختلف تھا، وہ سیر کو نکلے اور شمالی علاقہ جات کے جادو نے انھیں اپنے سحر میں لے لیا۔
یہ اسی جادو کی طاقت ہو گی کہ وہ علی الصبح اپنے ٹھکانے سے نکلتے اور منہ سر لپیٹے ایک آبشار کے سامنے جا بیٹھتے۔ دنیا کی حسین ترین وادی کے بے عیب مناظر، سر بفلک پہاڑ کی چوٹی سے گرنے والا منہ زور پانی اور روح کو طراوت بخش دینے والی اس کی پھوار، بس وہ سرشار ہوئے اور رواں ہو گئے۔ اللہ سے محبت کرنے والے چرواہے اور مناظر فطرت کی گرفت میں آنے والے دانش ور کے احساس میں ایک چھوٹا سا فرق تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ بھی اگرچہ کچھ اتنا آسان نہیں تھا، ان کا پالا فرعون جیسے ظالم اور باجبروت حکمران سے پڑا تھا جو محض اپنی ایک کمزوری کے باوصف پورے عہد کے بچوں کی جان لے گیا اور اپنی قوم پر ایسا ایسا ظلم ڈھایا جو ہزاروں برس گزر جانے کے باوجود انسانیت کی یادداشت میں آج بھی تازہ ہے لیکن ان کے چرواہے کی حکایت سن کر لگتا ہے کہ اگرچہ وہ زمانہ فرعون جیسے بدقماش لوگوں سے بھرا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود اُس زمانے کے لوگ سادہ اور بے ریا تھے۔
یہ اُن لوگوں کی سادگی اور نیک دلی ہی تھی جس کااظہار حضرت موسیٰ ؑکے چرواہے کی ایک حمد سے ہوتا ہے۔ وہ اپنی اس حمد میں خدائی کا دعویٰ رکھنے والے اپنے عہد کے ظالم ترین بادشاہ کی طرف سے پیٹھ پھیر اپنے حقیقی خالق و مالک اور پالن ہار کو مخاطب کر کے اس سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اس محبت میں بھی وہ اتنی بے ساختگی، خلوص اور سادگی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ اس پر پیار آ جاتا ہے، جیسے:
اے اللہ، اگر تو ہو میرے پاس
تو میں کروں سنگھار ترا
کنگھی کروں ترے بالوں میں
کروں میں خدمت تری
اوروہ سب کروں پیش تری بارگاہ میں
جو مری دست گاہ میں ہے۔
اس کی حمد میں بے ساختہ جگہ پانے والے یہ جذبات ظاہر کرتے ہیں کہ نہایت سادگی اور روانی سے اپنی محبت کے اظہار کے بعد آہستہ آہستہ اس کے جذبے میں شدت، وارفتگی اور فنا فی المحبوب ہو جانے کی کیفیت پیدا ہوتی جاتی ہے اور آخر میں وہ اس مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں وہ اپنا سب کچھ ذات باری تعالیٰ پر قربان کر دینا چاہتا ہے، چناں چہ وہ کہتا ہے:
کروں میں اپنی تمام تر بکریاں
تری ذات پر قربان
ہمارے سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے وہ قبائلی، نیم قبائلی علاقے جہاں بسنے والوں کی کل متاع ہی بکریوں کے ریوڑ ہیں، یہ لوگ کس طرح اپنی اس دولت کو جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لیے جان پر کھیل جاتے ہیں، یہ سمجھ لیا جائے تو چرواہے کے جذبات کی شدت اور اس کے جذبۂ قربانی کی معراج کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر مسعود کی حمدوں میں بھی اسی سادگی، بے ساختگی اور سپردگی کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔ قرن ہا قرن کے فاصلے پر سانس لینے والے ان دو شاعروں یا محبت کرنے والے دلوں کے جذبات میں اگر کوئی فرق ہے تو اس کا تعلق اُن کے زمانے اور حالات سے ہے۔
یوں ڈاکٹر طاہر مسعود کا زمانہ ترقی کی معراج پر ہے، خاص طور پر ذرایع مواصلات کے تعلق سے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود اس عہد میں سانس لینے کے باوجود کسی اور دنیا کے آدمی ہیں جس میں محبت اور مطالعے کے سوا کسی اور چیز کا دخل اگر ان کی زندگی میں ہے تو وہ ہے، غور و فکر۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں کچھ ایسی کیفیات بھی دکھائی دیتی ہیں جو عام طور پر شاعری میں جگہ نہیں بنا پاتیں۔
ہمارے عہد میں مختلف عنوانات سے جس قسم کی منافرتوں کو فروغ ملا ہے، ان کی وجہ سے معاشرے کا تانا بانا ہی بگڑ گیا ہے اور اب لوگوں کے لیے مشکل ہو گیا ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے دل کی بات کہہ سکیں۔ اس کا دوسرا پہلو اطلاعات کے ذرایع کے فروغ کے اثرات سے ہے جس کے نتیجے میں اختلاف کا اظہار کرنے والے بہت سے ہت چھٹ اور منہ چھٹ عناصر کے نشانے پر آ گئے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اختلاف رائے غداری یا کفر کے درجے پر جا پہنچا ہے۔ ہمارے عہد کا شاید یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اولاً لوگوں کی وابستگی یا کمٹمنٹ پر سوال کھڑے کر دیے جاتے ہیں اور ثانیاً ان کی جانیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ لہٰذا چرواہے کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے حمد کے شاعر کے لیے ناگزیر تھا کہ اس عہد کے دکھ بھی اس کے اظہار میں جگہ پاتے، ڈاکٹر صاحب کے ہاں ایسا ہی ہوا ہے، ان کی ایک حمد اسی دکھ کی ترجمان ہے:
ڈر نہیں
مجھے کفر کے فتوے سے
ڈرتا ہوں اللہ سے
تو کیوں ڈروں
فتوؤں سے۔
ہمارے عہد کاایک اور آشوب یہ ہے کہ اجتماعی احساس، اجتماعی ملکیت اور قومی مفادات کے ایک ہونے کا احساس کمزور ہو گیا ہے اور اس کی جگہ مال کی محبت اور مفادات نے لے لی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشرہ آپا دھاپی اور افراتفری کا شکار ہو گیا جس کی بہت سے عملی مثالیں ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں جیسے بعض لوگ ٹیکس، بجلی یا گیس کی چوری کو اس لیے جائز سمجھتے ہیں کہ ریاست کے وسائل پر چند طاقت ور طبقات قابض ہیں جس کی وجہ سے قومی دولت کی مساوی تقسیم ممکن نہیں رہی۔
کئی دہائیوں سے روا رکھے جانے والے ان مظالم کی وجہ سے معاشرے میں ایسی سوچ رکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد پیدا ہو چکی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ اگر ہمارا حق مارا جاتا ہے تو جواباً جو کچھ ہم سے بن پڑا، کر گزریں گے، ظاہر ہے کہ یہ انداز فکر درست نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک حمد اسی کیفیت کی عکاسی کرتی ہے جس میں اللہ داد چرواہے کی تین بھیڑیں چوری ہو جاتی ہیں تو وہ سوچتا ہے کہ اگر میری بھیڑیں چرا لی گئی ہیں تو میرے لیے بھی جائز ہے کہ کسی طرح بھی میں اپنا نقصان پورا کرلوں لیکن پھر وہ سوچتا ہے کہ وہ کوئی برا کام بھی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک اسے اللہ سے اس کی توفیق نہ ملے تو وہ اس توفیق کے انتظار میں صبر کرتا ہے۔
اس کا نقصان اگرچہ پورا نہیں ہوتا لیکن وہ توفیق کا منتظر رہتا ہے۔ یوں گویا اس حمد میں انصاف کی امید اور انتظار کے ساتھ احتجاج کی کیفیت بھی دکھائی دیتی ہے۔ اپنے ایسے منفرد مضامین کی وجہ سے یہ حمدیں محض روایتی حمدیں نہیں رہیں بلکہ اپنے عہد اور اس کے آشوب کی آواز بن گئی ہیں۔
اسی قسم کے منفرد موضوعات پر ڈاکٹر صاحب کی ان حمدوں کی تعداد ڈیڑھ سو تک جا پہنچی ہے جسے ہماپبلشنگ ہاؤس نے "مہربان اللہ کے لیے نظمیں " کے عنوان حال ہی میں بڑے اہتمام سے شایع کیا ہے۔ پبلشر نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے، ان حمدوں کے مطالعے کے بعد قاری یقین کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ دعویٰ بالکل درست ہے۔ ادب عالیہ کی ایک تعریف یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے مزاج اور اس کی ضروریات کو فن کارانہ انداز میں موضوعِ بحث بنائے۔ اس کتاب نے یہی کام کیاہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حمد جیسی مقدس اور نازک صنف میں جو تجربہ کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک نئے رجحان کی بنیاد بن جائے گا۔