یہ لومڑیاں، یہ جنگل: کب تک؟
یہ میں آپ کو دور، شمال کے پہاڑوں کی، کوئی پرانے وقتوں کی کہانی نہیں سنا رہا، یہ آج کے اسلام آباد کا حیرت کدہ ہے۔ جاڑے کی شام جنگل کے حزن میں اضافہ کر دیتی ہے۔ یخ بستہ موسم میں، جب درختوں سے پتے جھڑ چکے ہوتے ہیں، ڈوبتے سورج کی سرخی پوری وادی کے سولہ سنگھار کر دیتی ہے۔ پھر جب پورے چاند کی رات جاڑے کے جنگل پر اترتی ہے تو درِ دل غبارِ صحرا والا معاملہ ہو جاتا ہے۔
ان راتوں کے دوسرے پہر، اگر آدمی گھر سے نکلے اور اسے امید ہو، جنگل کے فلاں راستے کے فلاں موڑ پر، چہل قدمی کرتی لومڑیاں مل جائیں گی، اور پھر وہ مل بھی جائیں۔ سفر عشق کی یہ وہ مسافتیں ہیں، جہاں نہ مایوسی آڑے آتی ہے نہ راحت طلبی حائل ہوتی ہے۔ مارگلہ میرے ہر موسم کا ساتھی ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگل شفا ہوتی ہے۔ مارگلہ کا یہ جنگل میرے لیے سچ مچ میں ایک شفا ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ایک ان کہی اداسی وجود کو جکڑ لیتی ہے اور کئی کئی دن اس کیفیت سے نجات نہیں ملتی۔ یہ تب ہی ہوتاہے جب مارگلہ میں آوارگی میں قدرے طویل وقفہ آ جائے۔
یہ دن ایسے ہی وقفوں کے دن تھے اور وجود اسی اداسی کی گرفت میں تھا۔ رات جناب سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب اور سابق ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ جناب اشتیاق اندرابی کے ساتھ پاک ایران تنازعے پر طویل گفتگو رہی تھی۔ محفل تمام ہوئی اور یخ بستہ رات میں گاڑی تک پہنچا تو خانہ دل پر جنگل نے دستک دی۔ یہ وقت جنگل کو جانے کا نہیں تھا لیکن پھر خیال آیاکہ یہی تو جنگل جانے کا وقت ہے۔ یادوں نے ہجوم کیا اور ماضی کی جانب دریچے سے کھل گئے۔ میں ادھر ہی کھچا چلا گیا۔
یاد آیا کہ جنگل میں جاتے سرخ اینٹوں سے بنے ایک رستے پر، ایک چھوٹی سی جھیل ہوتی تھی، جس کے اطراف میں دھند اترتی تھی اورشام کی دھند میں لومڑیاں بھاگتی پھرتی تھیں۔ یہ آوارگی کی شروعات تھی اور لومڑی اور گیدڑ میں فرق ہی معلوم تھا۔ کتنے ہی جاڑے اور برساتیں ایسے ہی بیت گئیں۔ روایت ہے کہ جنگل ایک بھد ہے، دو چار ملاقاتوں کی تو بات ہی کیا، یہ دو چار سالوں میں بھی نہیں کھلتا۔ آج میری اس جنگل سے دوستی کو بیس سال ہونے آئے ہیں اور اب میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس جنگل نے اپنے چاہنے والے پر تھوڑا تھوڑا کھلنا شروع کر دیا ہے۔
اب تو معلوم ہے، کس راستے کی کس پگڈنڈی کے کس موڑ پر کن اوقات میں کتنی لومڑیاں مل سکتی ہیں۔ یہ جنگل کی عطا ہے کہ اس نے ایک آدمی سے ایک آدمی کی طرح ملنا شروع کر دیا ہے۔ ایک شام بچوں کے کزن آئے ہوئے تھے۔ میں انہیں کہیں لے کر جا رہا تھا۔ چھوٹی بیٹی نے انہیں بتایا کہ کہ ہمارے، جنگل میں لومڑیاں بھی ہوتی ہیں۔ سننے والوں نے حیرت سے پوچھا کہاں ہوتی ہیں ہمیں بھی دکھائو۔ میں نے گاڑی اسی پگڈنڈی کی طرف موڑ دی۔ شام ڈھل چکی تھی، سنسان سے، خاموش راستے پر، چلتے چلتے میں کہا: یہ سامنے درختوں کے جھنڈ کے اس پار لومڑیاں ہوں گی۔ جھنڈ کے پاس پہنچ کر گاڑی روکی تو سامنے دو لومڑیاں کھڑی تھیں۔ انہوں نے ایک لمحے کو ہماری طرف دیکھا، پھر بھاگ گئیں۔ لیکن یہ ایک لمحہ کافی تھا۔ بیٹی کا ہمارے، جنگل کا دعوی ـ ثابت، ہو چکا تھا۔
درہ جنگلاں میں بھی لومڑیوں کا ایک مسکن ہے۔ یہ نشیب میں ندی کنارے بیٹھی ہوتی ہیں اور مرغ سیمیں کے شکار کے لیے ہمہ وقت تیار پائی جاتی ہیں۔ تاہم یہ مسکن دور ہے، یہاں یہ ہر وقت دستیاب بھی نہیں ہوتیں اور رات کو یہاں جانا بھی خطرے سے خالی نہیں کہ شام کے بعدادھر تیندووں کی آمدورفت بھی دیکھی گئی ہے۔
جس پگڈنڈی کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ البتہ نزدیک ہے اور نسبتا محفوظ بھی۔ محفوظ ہونے کے اسی اطمینان کے تحت ایک روز میں ایک لومڑی کا فوٹو شوٹ کرنے اس کے پیچھے جنگل میں اتر گیا۔ مجھے کچھ کچھ محسوس ہوا کہ یہ لومڑی کی طرح نہیں چل رہا اس کی چال کچھ مختلف ہے اور یہ کتے سے مشابہت رکھتی ہے۔ لیکن یہ خیال ایک لمحے کو آیا اور پھر ذہن سے نکل گیا۔ میں اس کے پیچھے تھوڑی دور تک جنگل میں آ چکا تھا کہ اس نے نسبتا اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر چاروں طرف نظر ڈالی۔ میں نے نزدیک سے اس کی دو تین تصاویر بنا لیں۔ تب معلوم ہوا کہ یہ لومڑی نہیں ہے یہ بھیڑیا ہے۔ میں نے مڑ کر گاڑی کی طرف دیکھا، بھیڑیا نزدیک تھا اور گاڑی دور تھی۔ یہ بھیڑیے کی میانہ روی ہی تھی کہ اس نے میری طرف دیکھا مگر ملاقات کی بجائے جنگل میں غائب ہو جانے کو ترجیح دی کیونکہ جنگل میں بھیڑیا اگر ملاقات پر مائل ہو جائے تو یہ ملاقات اسی کی شرائط پر ہوتی ہے۔
میں سینیٹر مشتاق صاحب اور جناب اشتیاق اندرابی کو رخصت کرکے نکلا تو گاڑی اسی راستے پر موڑ دی۔ پچھلے دو تین جاڑوں سے یہ میرا معمول ہے کہ میں چاند کی رات ہو یا دھند اتری ہو تو میں اسی راستے سے جاتا ہوں۔ اس عرصے میں مجھے معلوم ہو چکاہے کہ کس موڑ پر، کس جھنڈ میں، کس وقت، کتنی لومڑیاں نظر آ سکتی ہیں۔ گیدڑوں کا آپ کچھ نہیں کہ سکتے یہ کسی بھی وقت کہیں بھی تشریف لا سکتے ہیں لیکن جنگل کی لومڑیاں بڑی کمپوزڈ ہیں۔
جس موڑ پر، میرے خیال میں، لومڑیوں کو موجود ہونا چاہیے تھا، میں نے وہاں سے پہلے ہی گاڑی کی ہیڈ لائٹس آف کر دیں۔ سڑک کے کنارے کھمبے نصب تھے اور ان پر برقی قمقمے لگے تھے۔ دھند اور روشنی ان ایک ساتھ جنگل پر اتر رہی تھیں۔ بھیڑیے والے تجربے کے بعد میں رات کے وقت یہاں گاڑی سے باہر نہیں نکلتا۔ گاڑی ہی میں بیٹھا رہا مگر لومڑیاں نظر نہیں آ رہی تھیں۔
دس پندرہ منٹ اسی طرح گزر گئے۔ کوئی لومڑی باہر نہ نکلی۔ کافی دیر بعد جب گاڑی اور میں ماحول کا حصہ بن گئے تو سامنے والے جھنڈ سے ایک لومڑی نے سر نکالا، ماحول کا جائزہ لیا، اور جب اسے تسلی ہوگئی کہ باہر کوئی خطرہ نہیں، ایک بے ضرر سا آوارہ گرد ہے تو وہ خراماں خراماں باہر نکل آئیں۔ سرد رات، ہلکی ہلکی دھند، جنگل، اور جنگل میں میرے سامنے لاپرواہی سے چلتی بے خوف لومڑیاں۔ ایسے منظر میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔
لومڑیوں کی یہ بے خوفی مجھے بہت لطف دے رہی تھی۔ میں ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھتا رہا۔ ماحول کا سحر ایسا تھا کہ میں موبائل تک نہ اٹھا سکا۔ یہ خوف تھا کہ میں ہلا جلا تو کہیں وہ بھاگ نہ جائیں۔ دل میں کہیں یہ خواہش تھی کہ یہ منظر یہیں تھم جائے۔ رات یہیں رک جائے۔ اتنے میں پولیس پٹرول کی ایک گاڑی آئی اور سارا طلسم ٹوٹ گیا۔
باقی کا راستہ یہی سوچتے کٹ گیا کہ اطراف میں شہر پھیل رہا ہے۔ جنگل کٹ رہا ہے اور کنکریٹ اگتا جا رہا ہے۔ میرے جیسے عشاق مزید کتنے جاڑے راستوں پریہ لومڑیاں دیکھ سکیں گے؟ انسان کی وحشت کے آگے جنگل کا یہ طلسم ختم ہونے کو ہے۔ کوئی دکھ سا دکھ ہے۔