واہ مولانا، آہ مولانا
زرداری صاحب کی سیاست کو سمجھنے کے لیے اگر پی ایچ ڈی کی ڈگری چاہیے تو کیا مولانا صاحب کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنا پڑے گا؟ جی نہیں، ایسے تکلف کی کوئی ضرورت نہیں، اس کے لیے مولانا محترم کے انٹریوز کا مجموعہ " مشافہاتـ " کافی رہے گا۔ کہیں سے خریدلیجیے اور مولانا کی سیاست کے رہنما اصول سمجھ لیجیے۔ میں نے چند سال پہلے ان تین جلدوں کا مطالعہ کیا تھا اور مولانا کی سیاست کے جو رہنما اصول میری سمجھ میں آئے تھے ان کا خلاصہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
پہلا یہ کہ جس الیکشن میں مولانا کی جماعت ہار جائے یا دور دور تک جے یو آئی کے لیے شراکت اقتدار کا کوئی امکان نہ ہو تو ان انتخابات میں شدید قسم کی دھاندلی ہوئی ہوتی ہے اور مولانا کا مینڈیٹ چرایا جا چکا ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ مولانا اگر اپوزیشن میں ہوں تو اس گستاخی کے نتیجے میں حکمران نہ صرف ملک دشمن قرار پاتا ہے بلکہ اس کی اسلام دشمنی بھی بے نقاب ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں مولانا کے نازک کندھوں پر بیک وقت نہ صرف جمہوریت کے تحفظ بلکہ پاکستان اور اسلام کے مفادات کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری بھی آن موجود ہوتی ہے۔
تیسرا یہ کہ جمہوریت کی افادیت کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ میدان سیاست میں مولانا کے لیے امکانات کا دروازہ بند ہے یا کھلا ہے اور کھلا ہے تو کتنا کھلا ہے۔ اگر امکانات کا دریا بہہ رہا ہے تو جمہوریت اچھی چیز ہے اور اگر یہ خشک ہونے لگے تو جمہوریت ایک نامعتبر اور غیر اسلامی نظام ہے۔ نیز یہ کہ جمہوریت اور اسلام کے لیے مولانا کی جدوجہد کا تعلق بھی اسی پیمانے سے مشروط ہے۔
چوتھا یہ کہ مولانا ناراض ہو کر یوٹرن لینے لگیں تو انڈی کیٹر کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اچانک ہی وہ بیٹنگ چھوڑ کر بولنگ شروع کر دیں یا بولنگ کرتے کرتے چھکا لگا دیں یا وہ سب کچھ چھوڑ کر اچانک ہی ایک طرف بیٹھ جائیں کہ میں تو آیا ہی ہاکی کھیلنے تھا۔ یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی بھی وقت پچ پر احتجاج شروع کر دیں کہ 73 کے آئین کے تناظر میں مجھے اس میچ میں مزہ نہیں آ رہا، فی الفور نیا میچ کرایا جائے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مولانا، محترمہ بے نظیر کے حلیف تھے اور نواز شریف الیکشن جیت گئے تو مولانا نے فرمایا کہ بڑے پیمانے پر خوفناک دھاندلی ہوگئی اور نواز شریف وغیرہ نے مولانا وغیرہ کا مینڈیٹ چرا لیا۔ (مشافہات جلد اول، صفحہ 245)۔
اب چونکہ نواز شریف مولانا کے حریف تھے تو اس کا منطقی نتیجہ تھا کہ وہ ملک دشمن قرار پائے۔ مولانا نے فرمایا: ہمیں انتہائی با خبر ذرائع سے اطلاعات ملی ہیں کہ حکومت ایٹمی پالیسی پر سودے بازی کی طرف جا رہی ہے۔ آج ہمیں ایسی اطلاعات اپنے خاص ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کسی سمجھوتے کی طرف یہ لوگ جا رہے ہیں۔ ، (مشافہات جلد اول، صفحہ۔ 46 245)
کارگل سے افواج کی واپسی کا معاملہ سامنے آیا تو مولانا نے اپنا تیسرا اصول لاگو کرتے ہوئے کہا کہ: پارلیمنٹ، عوام اور کابینہ کو اعتماد میں لیے بغیر معاہدہ واشنگٹن کرنا اور فوج کو واپس بلانا پاکستانی قوم اور مسلم امہ کی توہین ہے۔ ، جنگ سے اجتناب کو ان دنوں نواز شریف نے جنگ لڑنے سے زیادہ جرات مندانہ اقدام قرار دیا تو مولانا نے فرمایا: یہ گناہ کبیرہ ہے۔
اب آئیے مولانا کے چوتھے اور آفاقی اصول کی طرف۔ جناب مولانا بے نظیر بھٹو کے ساتھ تھے۔ لیکن جب بے نظیر کی حکومت ختم ہوئی اور آئی جے آئی جیتی اور نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو مولانا نے نواز شریف سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ چونکہ عورت کی سربراہی مناسب نہیں اس لیے آئین میں ترمیم کی جائے کہ آئندہ کوئی عورت وزیر اعظم نہیں بن سکتی۔ (مشافہات، جلد اول، صفحہ 256)۔
لیکن دوسری طرف نواز شریف کے شریعت بل کو رد کرتے ہوئے فرمایا: ہمارا موقف ہے کہ بے نظیر حکومت میں پاس کردہ سینیٹ کا شریعت بل آج دوبارہ پاس کروا کر نافذ کیا جائے۔ ، (جلد اول، صفحہ 252)۔
مشافہات، جلد اول کے صفحہ 253 پر فرمایا: ماضی میں بھی ہم نے بے نظیر بھٹو کی مخالفت کی تھی، اور اگلے صفحے پر فرمایا ماضی میں ہم نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔
آج مولانا پی ڈی ایم کی ہنڈیا چوراہے میں پھوڑ چکے تو حیرت کیسی۔ آئی جے آئی کے بارے میں بھی ان کا موقف ایسا ہی متضاد رہا۔ چنانچہ مشافہات کے صفحہ 203 پر فرمایا: لوگوں نے آئی جے آئی کو ووٹ اس لیے دیا کہ لوگ اسلام کا قانون چاہتے تھے ورنہ کبھی آئی جے آئی کو ووٹ دے کر بھاری اکثریت سے کامیاب نہ کراتے، اور صفحہ 216 پر فرمایا کہ آئی جے آئی جیتی ہی دھاندلی سے تھی۔
1996 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں فرمایا: ہم نے میاں نواز شریف سے کہا کہ ہم مسلم لیگ سے بات کرنے کے لیے تو تیار ہیں لیکن وزیر اعظم کے لیے آپ کو اپنا متبادل لانا ہوگا۔ آپ نے بہت سی غلطیاں کی ہیں، ہم مزید تجربات نہیں کرنا چاہتے۔ ، (مشافہات۔ جلد اول، صفحہ 359)۔ بعد میں اسی نواز شریف سے معاملہ کر لیا۔
سیاست میں بدلتی حکمت عملی کوئی نئی چیز نہیں۔ لیکن جب اس کا عنوان دین ہو تو پھر اس پر سوال اٹھتے ہیں۔ عمران خان سے مخالفت کا ان کا بیانیہ دیکھ لیجیے، یہ سیاسی کم اور مذہبی زیادہ تھا۔ قوم کو بتایا گیا کہ وہ تو اصل میں یہودی ایجنٹ ہے۔ اسے تو مغرب نے مسلط کیا ہے۔ وہ تو یہودیوں کا آلہ کار ہے۔ وہ تو پاکستان کی دینی تہذیب کی جڑیں کھودنے کے لیے آیا ہے۔ اس کی مخالفت تو شرعی اصولوں کے عین مطابق ہے بلکہ اس کا تقاضا ہے۔ اور جب الیکشن کے بعد اصولی اختلافـ ہوا تو فورا اسی جماعت سے رابطے بڑھا لیے۔
یعنی بنیادی اصول مفاد ہے۔ مفاد نواز شریف پورا کریں تو بے نظیر کی حکمرانی حرام اور پیپلز پارٹی ملک و دین کی دشمن۔ مفاد پیپلز پارٹی پورا کرے تو نواز شریف اعتماد کے قابل نہیں اور متبادل کا مطالبہ۔ مفاد کا تقاضا ہو توعمران کے خلاف عدم اعتماد کو فتح مبین کہا جاتا ہے اور مفاد پر ضرب پڑے تو اسی فتح مبین کو سازش قرار دے دیا جاتا ہے۔
سوال اب یہ ہے کہ عمران کے خلاف عدم اعتماد اگر کسی اور کے اشارے اور حکم پر ہوا تو مولانا کے اس تازہ کلمہ حق کی شان نزول کیا ہے؟ یہ جذبہ حریت کی داخلی واردات ہے یا کوئی نیا اشارہ، کوئی نیا حکم؟ نیز یہ کہ عدم اعتماد تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے حکم پر آئی ہوگی لیکن عدم اعتماد کے بعد گورنری اور وزارتیں لینے میں کیا مجبوری آن پڑی تھی؟
میں مولاناکا مداح تھااور ہوں۔ وہ خیر کی قوت ہیں۔ ان کا قد کاٹھ ایسا ہے کہ انہیں صدر مملکت کا منصب جچتا ہے۔ لیکن ان کی سیاسی مقبولیت محدودہے اور وہ صرف ایک مکتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ چیز اس منصب کے حصول کی راہ میں حائل ہے۔ واہ مولانا، آہ مولانا۔