Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Usay Kehna November Aa Gaya Hai

Usay Kehna November Aa Gaya Hai

اسے کہنا نومبر آ گیا ہے

مولانا سے عمران خان تک، سب کے جلال و جمال کا خلاصہ کیا بس اتنا سا ہے کہ: اسے کہنا نومبر آ گیا ہے؟ جاڑے کی رت میں پہلے لوگ دسمبر کے سہرے کہاکرتے ہیں، اب سیاست کے میر و گدا نومبر پر غزل سرا ہیں۔

ابھی لکھنے بیٹھا کہ عمران خان کو اتنی جلدی کیا ہے، ہ چند ماہ بعد الیکشن کا انتظار کیوں کر لیتے، ان کی غیر معمولی مقبولیت انہیں دوبارہ ایوان اقتدار میں لے آئے گی۔ پھر خیال آیا کہ یہ وہی جلدی تو نہیں ہے جو پی ڈی ایم کو عدم اعتماد لاتے وقت تھی، صاف نظر آ رہا تھا کہ عمران کی دم توڑتی مقبولیت کی وجہ سے اگلا الیکشن پی ڈی ایم کا ہو گا۔ لیکن پی ڈی ایم انتظار نہ کر سکی۔ کیوں نہ کر سکی؟ کیوں کہ جاڑے سے پہلے نومبر آ رہا تھا۔

پی ڈی ایم اور عمران خان کی کل سیاست کا خلاصہ یہ ہے کہ: اسے کہنا نومبر آ گیا ہے۔ جب سیاست اپنے اخلاقی وجود سے اس قدر بے نیاز ہو جائے اور فکری و عملی بانکپن سے یوں محروم ہو جائے کہ ایک نومبر اسے غیر فقاریہ بنا دے تو پھر سیاست سے بہتر ہے کہ نومبر پر لکھا جائے۔

مارگلہ میں نومبر کا مہینہ حسن کا انتساب ہوتا ہے۔ اکتوبر یہاں کا سخت ترین مہینہ ہے۔ جیسے لطیفے میں سردار جی کیلے کا چھلکا دیکھ کر مسکراتے ہیں کہ لو جی ایک بار پھر پھسل کر گرنا پڑ گیا ہے اسی طرح میں ستمبر سے ہی تیاری پکڑلیتا ہوں کہ لو جی اکتوبر آ رہا ہے ایک بار پھر بیمار ہونا پڑ گیا ہے۔ پہاڑ سے اترتے ہوئے ماتھے پر پسینہ ہوتاہے، سامنے سے ٹھنڈی ہوائیں ٹکراتی ہیں، خزاں رسیدہ جنگل کے پتوں پھولوں کے ذرات الرجی پیدا کرتے ہیں اور نزلہ، زکام، کھانسی، چیسٹ انفیکشن، سانس کی تکلیف جاڑے کا سندیسہ لے کر وجود سے چمٹ جاتی ہیں۔ یہ موسم نہ عدم اعتماد سے جاتا ہے نہ لانگ مارچ سے۔ سردار جی کی طرح پھسلتے ہیں، گرتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس جا پہنچتے ہیں کہ لیجیے صاحب نومبر آ گیا ہے۔ لطف کی بات مگر یہ ہے کہ آگے سے مسیحا بھی کپکپا رہا ہوتا ہے۔ دوا دینے کی بجائے کواڑ تھام کر آتش دان کی طرف دیکھتا ہے اور وحید مراد جیسے لہجے میں گنگناتا ہے: بھیگا بھیگا سا یہ نومبر ہے۔

جس مہینے کی رعنائی پر پاکستانی سیاست کے اکابرین کے ہاں اجماع امت، کی سی کیفیت ہے، جانے یہ مہینہ ہمارے ادبی اکابرین کی بے نیازی کا شکار کیوں رہا۔ جس نے لکھا، دسمبر پر لکھا، نومبر کو کسی نے اس قابل نہی کہ دو شعر ہی لکھ دیتا۔ چنانچہ نومبر اب لگتا ہے کہ اس سوتیلے پن کی ہجر رتوں کے سارے حساب کرنے پر آ گیاہے اور اب گلی کوچے جھوم جھوم کر نومبر کے سہرے کہہ رہے ہیں۔ کیا ہی مناسب ہو اگر اردو شاعری میں دسمبر کے خلاف عدم اعتماد لاتے ہوئے اس منصب پر نومبر کو لا بٹھایا جائے۔ مثال کے طورپر:

اسے کہنا خزائیں آ گئی ہیں اب تو لوٹ آئے

اسے کہنا نومبر کی ہوائیں یاد کرتی ہیں

۔۔

نومبر کی سردی ہے اس کے ہی جیسی

ذرا سا جو چھو لے بدن کانپتا ہے

۔۔

نومبر کی شب آخرنہ پوچھو کس طرح گزری

یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا

۔۔

کس کا غم کھائے جا رہا ہے تمہیں

آنکھ کیوں ہے یہ نم نومبر میں

یاد آتا ہے وہ بچھڑنا جب

خوب روئے تھے ہم نومبرمیں

بس یہی اک تمنا ہے اندر

کاش مل جائیں وہ نومبر میں

۔۔

اب اداس پھرتے ہو نومبروں، کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

دسمبر ویسے ہی بڑا میسنا سا مہینہ ہے۔ نومولود عشاق دہائی دیتے رہتے ہیں کہ اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے لیکن نہ کوئی، اسے، جا کر یہ بریکنگ نیوز دیتا ہے نہ وہ ان خبریوں کو کوئی جواب لکھ بھیجتا ہے۔ اردو کے شاعروں کی طرح عزت نفس سے محروم یک طرفہ محبت کی دہائی جاری رہتی ہے: اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے۔ عجیب افیونچی قسم کی محبت ہے اسے کہنا، اسے کہنا،۔ بھائی تم خود جا کر اسے کیوں نہیں کہہ آتے۔ اور اگر سندیسہ ہی بھیجنا ہے تو دو چار بار اسے، دسمبر کی بجائے نومبر کی آمد کی خبر بھجوا دی جائے تو شاید وہ آگے سے کوئی جواب بھی لکھ بھیجے۔ جاڑے میں تو انگلی کی پوریں بھی ٹھٹھر جاتی ہیں۔

معلوم نہیں کہاں پڑھا تھا کہ جب جاڑا آتا ہے تو کسی کی یاد کا دسمبر دل کی سڑکوں پر نکل آتا ہے۔ لیکن یہ پرانے اور بھلے وقتوں کی باتیں ہیں۔ اب لوگ نومبر میں ہی سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ نکل کیا آتے ہیں نکل کر سڑکوں پر بیٹھ ہی جاتے ہیں۔

علوی یہ معجزہ ہے نومبر، کی دھوپ کا

سارے مکان شہر کے دھوئے ہوئے سے ہیں

احتیاطا عرض کر دوں کہ یہ شعر عارف علوی صاحب کا نہیں ہے۔ یہ بھارت کے محمد علوی صاحب کا شعر ہے۔ موسم جاڑے کا ہے لیکن ماحول میں وہ حدت ہے کہ ندیم گلانی یاد آتے ہیں:

سسکنے سلگنے تڑپنے کا موسم

نومبر، نومبر نومبر نومبر

یاد رہے کہ شاعر نے تو یہ تہمت دسمبر کے نام دھری تھی، حالات حاضرہ نے البتہ شاعر کی تصحیح کر دی ہے۔ بلال احمد کی نظم میں جب حالات حاضرہ کا حسن شامل ہو جائے تواس کا عنوان کچھ یوں ہو جاتا ہے: جب نومبر میں دھند آتی ہے،۔ بلال لکھتے ہیں:

راہ چلتے ہوئے مسافر پر

یوں نومبر میں دھند آتی ہے

باغ بھی، راہ بھی مسافر بھی

راز کے اک مقام میں چپ ہیں

دھند ان سب سے بات کرتی ہے

اور یہ احترام میں چپ ہیں

دسمبر کی دھند جیسی بھی ہو کچھ نہ کچھ دکھائی دے ہی جاتا ہے۔ دھند مگر جب نومبر میں آتی ہے تو نہ کچھ دکھائی دیتا ہے نہ کچھ سجھائی دیتا ہے۔ حد نگاہ صفر ہو جاتی ہے۔ جاڑا دل کی سڑک پر بیٹھ جاتا ہے۔ مسافر رستہ بھول جاتے ہیں۔ مسافروں اور مسافتوں سب کو راز کے اک مقام پر جا کرچپ سی لگ جاتی ہے۔

لیکن یہ نومبر اور دسمبر کے معاملات سے ہمیں کیا لینا دینا۔ ہم تو جاڑے کے ہر رنگ کے شیدائی ہیں۔ جس طرح ڈگری ڈگری ہوتی ہے، اسی طرح جاڑا جاڑا ہوتا ہے، نومبر کا ہو یا دسمبر کا۔

Check Also

Babo

By Sanober Nazir