Tuesday, 14 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fazal Tanha Gharshin
  4. Dr. Mubarak Ali

Dr. Mubarak Ali

ڈاکٹر مبارک علی

ڈاکٹر مبارک علی 21 اپریل 1941 کو ٹونک راجستھان کے محلہ امیر گنج میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان مغلوں کے دور میں پشین سے ہندستان آیا تھا اور وہ ترین قبیلے کی شاخ طور ترین سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا دادا اور دادا کا بھائی دونوں جے پور میں پولیس میں ملازم تھے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی میں جب سیاسی انتشار کی وجہ سے مغلوں کا زوال یقینی ہوگیا تو پٹھان فوجیوں کی مانگ بڑھ گئی۔ عموماََ پٹھان وہاں روزگار کی تلاش میں ایک بڑی تعداد میں میسر ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سنبھل، ٹونک، حیدر آباد سندھ اور لاہور میں رہ چکے ہیں۔

ان کے والد نے طب کی معمولی تعلیم حاصل کی تھی اور کم تعلیم کی وجہ سے وہ توشہ خانہ میں ملازم تھے۔ وہ کم تعلیم کے باوجود خوش خط اردو لکھ سکتے تھے اور مطالعے کا بے حد شوقین بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم دارالعلوم خلیلیہ سے حاصل کی۔ 1952 کو حیدر آباد آتے ہی خالد میموریل سکول میں پانچویں جماعت میں داخلہ لیا۔ استاد یعقوب صاحب سے انگریزی اور فیاض احمد خان صاحب سے حساب سیکھا۔ اسی سکول میں ان کو تقریری مقابلوں میں شرکت اور سکول رسالہ "خالد" میں مضامین اور کہانیاں لکھنے کا موقع بھی ملا۔ بعد میں اورینٹل کالج ہیرا آباد سندھ سے 1956 میں ادیب کا امتحان اور 1957 میں انگریزی کا پرچہ دے کر میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

میٹرک کے بعد اسلامیہ ماڈرن پرائمری اسکول میں چالیس روپے تنخواہ پر استاد تعینات ہوئے، مگر بعد میں اسکولوں میں امریکا کی طرف سے بچوں کو دیا جانے والا خشک دودھ میں ہیڈ ماسٹر مخدوم صاحب کی بدعنوانی ظاہر کرنے پر برطرف کیا گیا۔ بعد میں جماعت اسلامی کی تنظیم "مجلس تحفظ اخلاق عامہ" کا آفس سیکرٹری تعینات ہوئے، مگر یہ ملازمت بھی دیر تک نہ رہی۔ اصول پسند لوگوں کے ساتھ عموماََ ایسا ہوتا رہتا ہے۔

ان ناکام تجربوں کے بعد انھوں نے سٹی کالج میں داخلہ لیا۔ اس کالج کے توسط سے ان کو مختلف فورمز پر سیاسی، معاشی، سماجی اور ادبی مباحثوں میں شرکت کا بھرپور موقع ملا اور 1961 میں سندھ انٹر کالجیٹ باڈی کا وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب چار سال اسی کالج میں رہے۔ اس کالج میں ڈاکٹر صاحب نے ہسٹری تفضل داؤد سے پڑھی، جو تاریخ کے مضمون میں اپنے زمانے کے اعتبار سے مستند شخصیت مانے جاتے تھے۔

سٹی کالج میں چار سال گزارنے کے بعد انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے ایم اے جنرل ہسٹری میں کیا۔ ڈاکٹر احمد بشیر صاحب ان کے پسندیدہ استاد تھے۔ 1963 میں ایم اے جنرل ہسٹری کا امتحان پہلی پوزیشن میں پاس کرنے کے بعد وہ پہلے جامعہ عربیہ کالج اور پھر اسی یونیورسٹی میں لکچرر تعینات ہوئے۔ 1970 میں کوئین میری کالج لندن میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے گیا۔ لندن میں اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے پارٹ ٹائم مختلف اسٹوروں اور اسٹالوں میں کام بھی کیا۔ وہاں انھوں نے ڈیڑھ سال گزارے اور فیس ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے وہ 1972 میں جرمنی چلے گئے۔ روھر یونیورسٹی میں ڈاکٹر بوسے کی زیر نگرانی "مغل دربار اور اس کی رسومات" پر تحقیقی مقالہ لکھنا شروع کیا۔ جرمنی میں اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اسسٹنٹ شپ اور وظیفہ بھی ملا، جس سے ان کی مالی پریشانی ختم ہوگئی۔ تین سال بعد 1974 میں والدین سے ملنے پاکستان آئے، شادی کی اور دوبارہ اپنی بیوی ذکیہ کے ساتھ جرمنی چلے گئے۔

ان کے مطابق جرمنی کی سیاست میں اساتذہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ جرمنی کے اکثر وزیر، چانسلرز اور صدور پروفیسر ہوا کرتے ہیں۔ انھوں نے جرمنی میں پونے پانچ سال گزارے۔ ان کی بیٹی عطیہ بھی جرمنی میں پیدا ہوئی۔ جرمنی سے واپسی پر دوبارہ سندھ یونیورسٹی جوائن کرلی، مگر وائس چانسلر شیخ آیاز اور شعبہ تاریخ کی چیئر پرسن حمیدہ کھوڑو سے بات نہ بن سکنے پر معطل کیے گئے۔ 1977 تک سخت مالی پریشانیوں کا شکار رہے۔ بعد میں وزیر تعلیم سندھ پیر آفتاب شاہ جیلانی کی سفارش پر دوبارہ سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر تعینات ہوئے اور معطلی کے زمانے کے بقایہ جات بھی عدالت کے ذریعے وصول کرلیے۔ وہ جلد ہی ترقی کرتے کرتے شعبہ تاریخ کے چیرمین بن گئے۔

انھوں نے تاریخ پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ تاریخ اور عورت، برطانوی راج، تاریخ کی باتیں، تاریخ کی آگہی، مغل دربار، جہانگیر کا ہندوستان، اکبر کا ہندوستان، تاریخ کے نئے زاویے، مسلمان معاشرے کا المیہ، در در ٹھوکر کھائے، المیہ تاریخ، تاریخ اور آج کی دنیا، جاگیر داری، تاریخ کی روشنی، تاریخ اور فلسفہ تاریخ وغیرہ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ انھوں نے آگہی کے نام سے ایک پبلشنگ ادارہ بھی قائم کیا ہے۔

1991 میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے چار سال تک ڈائریکٹر رہے۔ 1986 میں فیض ایوارڈ، 2000 میں سندھی ادبی سنگت کی جانب سے پیر حسام الدین تاریخ ایوارڈ اور 2002 میں کمیونل ہارمونی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ آج کل ڈی ڈبلیو کے لیے کالمز بھی لکھتے ہیں۔ خدا ڈاکٹر صاحب کو طویل زندگی عطا فرمائیں۔ آمین!

Check Also

Laggar Baggar Gawaiye Ki Auqat

By Nusrat Javed