Tuesday, 14 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Common Sense

Common Sense

کامن سینس

انسانی زندگی کے مختلف زایوں میں پیدا ہونے والی ابتدائی سطح کی تفہیم یا دیگر الفاظ میں روز مرہ کی ضروریات اور تکمیل کے سلسلے میں استعمال ہونے والے شعور کو کامن سینسcommon-sense یا چَھٹی حِس کہا جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں جب ہم کوئی بھی کام چاہے آفیشل ہو یا نان آفیشل کرتے ہیں تو اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے مکمل توجہ، یکسوئی، ذہانت، دلچپسی اور سمجھداری کا مظاہرہ کرنا کامن سینس کہلاتا ہے۔ کامن سینس ایک عام انسانی شعوری صلاحیت ہے جسے عقلِ سلیم کہا جاتا ہے۔

قصہ کوتاہ، کسی کام کو ٹھوک بجا کر پایہ تکمیل تک پہچانا چھٹی حس کہلاتا ہے۔ کسی میں یہ کم ہوتی ہے، کسی میں زیادہ۔ خاموش طبع لوگوں میں یہ وافر پائی جاتی ہے جبکہ بڑبولے لوگوں میں یہ کامن سین نہ چاہتے ہوئے محض ذائقہ بدلی کے لیے کبھی کبھار چکر لگا لیتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ماہ بھادوں میں ہوا بند ہوتی ہے تو اچانک ایک آدھ ہوا کا جھونکا تشریف لا کر لوگوں کو ٹھنڈک کا احساس دے جاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی منہ سے ہاء کا لفظ نکل جاتا ہے۔

کامن سینس کے مالکان زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا بچپن، لڑکپن اور جوانی کا دور تواتر سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہو اور ایسے ہی لوگ حساس ہوتے ہیں۔ دیگر الفاظ میں اندروں بیں لوگوں کے پاس کامن سین کی کافی مقدار رہوتی ہے۔ جبکہ بیروں بیں لوگوں کے پاس اس کی شرح کم ہوتی ہے۔ کامن سین کی پرورش میں تعلیم کا تعلق بہت کم ہوتا ہے۔ جس معاشرہ کے لوگ کامن سین کے مالک ہوں گے وہ لازمی طور پر عقلیت پسند معاشرہ ہوگا۔ پیارے پاکستان کے معاشرہ کو دو قومی نظریہ ھڑپ کر گیا ہے کیونکہ یہ اس کے جال سے باہر ہی نہیں نکلتا یا نکلنے نہیں دیا جاتا۔ اس سے اچھے تو فیض احمد فیض ہیں جو صرف محبت کے ہوکے نہیں بھرتے رہے بلکہ دوسری طرف بھی توجہ دیتے تھے جیسا کہ انہوں نے کہا تھا:

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

چونکہ دو انسان کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے یہاں تک کہ ایک انسان کی انگلیوں کے نشان کسی دوسرے انسان سے نہیں ملتے، اس لیے کامن سین رکھنے والا بھی مکمل نہیں ہوتا کہ اسے حرفِ آخر تسلیم کر لیا جائے۔ اکثر ایسا ہو جاتا ہے کہ تمام تر مغز کھپائی کے باوجود، تمام علم و تجربہ بروئے عمل لانے کے باوجود کسی کام میں کچھ پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں جو کسی دوسرے کے ساتھ مشورہ کرکے منظر عام آ جاتے ہیں۔

اس کو سمجھنے کے لیے ایک فرض کر لیتے ہیں کہ خدانخواستہ میں جاوید چوہدری جی کے کالموں کی پروف ریڈنگ کرتا ہوں اور اس کی باقاعدہ تنخواہ لیتا ہوں۔ ایک روز جاوید چوہدری جی نے ایک میٹنگ بعنوان ضابطہ اخلاق برائے صحافی، کے مائنٹس تیار کیے اور مجھے انہیں فٹا فٹ لیٹر پیڈ پر درست کرکے کمپوز کرنے کا کہا۔ میں نے اپنی سمجھ بوجھ، کامن سینس، تجربہ اور عقل و دانش استعمال کرتے ہوئے کچھ الفاظ خود داخل کر دیئے اور مخففات کے مکمل الفاظ بھی لکھ دیئے۔ ایجنڈا آف میٹنگ کو میں نے آخر سے اٹھا کر پہلے نمبر پر رکھ لیا کیونکہ یہ ایک تمہید ہوتی ہے کہ ان نکات پر میٹنگ میں گل بات کی جائے گی۔ تو جب میں نے جاوید چوہدری جی کو یہ سب کرکے دیا تو انہوں نے مطالعہ کرنے کے بعد کہا کہ جو انہوں نے لکھا ہے صرف وہی لکھوں نہ کہ اپنی طرف سے چولیں ماروں۔ چند لمحات کے لیے تو میں نے سوچا کہ۔۔

میں کیہڑے پاسے جانواں

میں منجی کتھے ڈانواں

اگرچہ میں اپنا دفاع کر سکتا تھا کہ میں نے ان کے سینکڑوں کالموں کو پروف ریڈ کیا ہوا تھا، اس لیے مجھ میں کامن سینس تھوڑی بہت تو پیدا ہو ہی گئی ہوگی۔ لیکن میں نے دفاع نہیں کیا اور خاموشی اختیار کر لی کہ کیا پتہ جاوید چوہدری جی مجھے گھر بھیج کر کوئی اور بندہ بھرتی کر لیں۔

خاموشی اختیار کرنے کی ایک وجہ جرمنی کے معروف ماہر نفسیات ایرک فرام کی وہ بات بھی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر فرد لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اُترتا تو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اُسے پاگل قرار دیا جائے۔ لیکن اپنے آپ کو صحیح الحواس اور نارمل ثابت کرنے کے لیے فرد کو اپنی انفرادیت اور بے ساختگی قربان کرنی پڑتی ہے۔ بظاہر تو وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی مرضی سے کرتا ہے لیکن حقیقتاً اُس کی مرضی دوسروں کی مرضی پر منحصر ہوتی ہے۔

حاصل کلام یہ کہ اٹھہتر سالوں تک پاکستان تیسری دنیا کے ممالک سے دوسری دنیا کے ممالک میں جگہ اس لیے نہیں بنا پایا کہ یہاں کے لوگوں کو کامن سینس کے حصول کا ماحول مہیا نہیں کیا جا رہا۔ سارا زور عقیدت مندی اور دشمنی کے جذبات پیدا کرنے پر لگایا گیا ہے۔ جہاں یہ دونوں ہوں گے وہاں پر منطق پسندی کا ظہور ممکن نہیں ہوگا اور جہاں منطق پسندی نہیں ہوگی وہاں پر کامن سینس بھول کر بھی ڈیرے نہیں ڈالے گی۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو جذبات، اندھی عقیدت، شخصیت پرستی، عقیدہ پرستی کے شکنجے سے باہر نکالا جائے اور یہ سب تب ممکن ہوگا جب فلسفہ و نفسیات کی تعلیم کو نصاب میں جگہ دی جائے گی۔ لیکن فی الحال ایسا ہونے کے آثار نظر نہیں آتے کیونکہ اس سے ان کی خود ساختہ "نظریاتی اساس" کا تورا بورا بنے گا جو کہ اشرافیہ کو ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا۔

Check Also

Kya Sach Hai Kya Jhoot

By Mojahid Mirza