تہذیبی غلامی
پاکستان کے صدر محترم نے، پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب فرمایا مگر انہیں یہ گوارا نہ ہوا کہ پاکستان کی قومی زبان میں گفتگو کرتے۔ معلوم نہیں ریاست پاکستان کا سربراہ اپنی پارلیمان سے خطاب کر رہا تھا یا وہاں موجود غیر ملکی سفیروں کے حضور سپاس نامہ پیش کیا جا رہا ہے۔ خطاب سنتا رہا اور سوچتا رہا، حفظ مراتب کے تقاضوں کو پامال کیے بغیر، کوئی تو ہوتا جو، بعد میں ہی سہی، قومی زبان کا مقدمہ پیش کرتا۔ لیکن یہاں تو خطاب کے بعد سب ایسے لاتعلق سے لوٹ گئی جیسے اردو زبان کے متروک ہو جانے پر تمام فاضل اراکین کا اتفاق ہو۔
ایک لمحے کو خیال آیا کہ سینیٹر مشتاق کیوں نہیں بولے۔ پھر یاد آیا وہ تو سینیٹ سے جا چکے۔ دل کے کسی گوشے آواز آئی: اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر۔ اجنبی زبان میں ایک بے روح خطاب ختم ہوا اور دیوار دل پر یہ سوچ آن بیٹھی کہ عمارتیں اگر اینٹ، گارے، پتھر، سیمنٹ، برقی قمقموں اور غیر ضروری آرائش کا نام ہوتا ہے تو پارلیمان پورے آہنگ سے موجود ہوتا ہے لیکن اگر یہ افراد ہوتے ہیں جو اسے معتبر بناتے ہیں تو ایک معتبر فرد اس ایوان سے رخصت ہو چکا۔ وہ ایک فرد واحد نہیں تھا، وہ اس ایوان کے اخلاقی وجود کا استعارہ تھا۔
ہم کالم نگاروں کا قلم اگر کسی دسترخوان پر اوندھے منہ نہ پڑا ہو تو پھر اس کے مقدر میں تنقید لکھنا ہی آتا ہے۔ سینیٹر مشتاق جیسوں کا معاملہ الگ ہے۔ ان پرتنقید کے مواقع کم ہوتے ہیں اور تعریف کے زیادہ۔ میں شاعر ہوتا تو اس پارلیمنٹیرین کا سہرا لکھتا۔ انہوں نے وہ قرض بھی اتارے جو واجب ہی نہیں تھے۔ سناٹا جب درودیوار کو گونگا بنا دیتا تھا تو یہ سینیٹر مشتاق ہی تھے جو اسے قوت گویائی دیتے تھے۔ ضروری نہیں کہ ان کی ہر بات سے اتفاق کیا جائے۔ لیکن اختلاف کا دائرہ محدود تر تھا اور اتفاق کا دائرہ وسیع تر۔ پارلیمان کے کچھ فرض کفایہ تھے جو سینیٹر مشتاق ادا کرتے تھے۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب تو یہ پارلیمان شاید قضائیں بھی ادا نہ کر پائے۔
ڈکٹر محمد الغزالی صاحب کا انتقال ہوا اور میں نے جسٹس صاحب کے بارے میں کالم لکھا تو ایک صاحب نے سوال کیا: آپ ایسے لوگوں پر ان کی زندگی میں کیوں نہیں لکھتے؟ یہی سوال مجھ سے کسی نے اس وقت بھی پوچھا تھا جب میں استاذ گرامی محترم ملک معراج خالد پر لکھا تھا؟ یہ سوال محض ایک سوال نہیں یہ ہمارے معاشرتی رویے کا نوحہ ہے۔ کیا ہم اچھے لوگوں کے بارے میں گواہی دینے کے لیے اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ وہ مٹی اوڑھ لیں تو ہم بات کریں۔ اس رویے کو ختم ہونا چاہیے۔ جو اچھا ہے، جس نے کچھ کر دکھایا، جس نے اپنا فرض خوب ادا کیا ہو، اس کی تحسین وہیں، موقع پر ہو جانی چاہیے۔ ان لوگوں کو دینے کے لیے ہمارے پاس خراج تحسین کے دو لفظوں کے علاوہ اور ہے ہی کیا۔ اس میں کیسی تاخیر؟
چند برس پہلے میں نے لکھا تھا مجھ سے کوئی پوچھے وائس چانسلر کیسا ہونا چاہیے، میں کہوں گا ملک معراج خالد جیسا ہو نا چاہیے۔ آج میں سوچ رہا ہوں مجھ سے کوئی پوچھے پارلیمنٹیرین کیسا ہونا چاہیے، میں کہوں گا سینیٹر مشتاق جیسا ہو نا چاہیے۔ یہ ایک طویل فہرست ہو سکتی ہے۔ میری بھی اور آپ کی بھی۔ ایسے لوگ ہر شعبے میں موجود ہیں اور یہی لوگ ہمارے مقامی ہیرو ہیں۔ باقیوں کا تو عالم یہ ہے کہ ملک کی سربراہی مل جاتی ہے مگر قومی زبان لبوں پر نہیں لا پاتے۔ ہماری قیادت ایسی ہونی چاہیے جسے اپنی مٹی ا ور اپنی مٹی کے حوالوں سے کوئی شرمندگی نہ ہو۔
ابھی گھر لوٹا ہوں۔ ایران کے صدر تشریف لا رہے ہیں۔ شہر ان کے خیر مقدمی بینرز سے بھرا پڑا ہے۔ ہر بینر پر دو زبانوں میں خیر مقدمی کلمات لکھے ہیں۔ ایک تو فارسی ہے کہ مہمان صدر محترم کے ملک کی زبان ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے دوسری زبان کون سی ہے؟ اگر آپ کا خیال ہے کہ میزبانوں نے فارسی کے ساتھ اپنی قومی زبان اردو لکھی ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ نوآبادیاتی غلاموں نے فارسی کے ساتھ انگریزی لکھ رکھی ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم گونگے ہیں اور کیا ہماری کوئی زبان نہیں کہ ہم نے انگریزی لکھ ڈالی؟
انگریزی بھی ایک زبان ہے۔ اس کے لکھنے بولنے میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ زبان ابلاغ کے لیے ہوتی ہے، اس کی بنیاد پر نہ تو احساس کمتری کی لعنت کا شکار ہوا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر طبقاتی تقسیم پیدا ہونی چاہیے۔ مہمان کی نسبت سے اگر فارسی لکھی جا سکتی ہے تو میزبان کی نسبت سے اردو کیوں نہیں؟ یہ کون لوگ ہیں جن کی ہڈیوں کے گودے میں نو آبادیاتی غلامی رچ بس گئی ہے۔ یہ نو آبادیاتی افسر شاہی صرف ایک زبان کی بنیاد پر یہاں وائسرائے بن چکی ہے اور اس کی حماقت کا یہ عالم ہے کہ وہ تنوروں پر روٹی کی قیمت کا نوٹی فیکیشن بھی انگریزی زبان میں لکھتی ہے۔
نو آبادیاتی قوتیں بہت سے ممالک میں مسلط رہیں۔ لیکن جب وہ واپس گئیں تو ان ممالک نے اپنا کلچر بحال کرلیا۔ ترک سلطنت ختم ہوئی تو عرب کلچر بحال ہوگیا۔ فرانس نکلا تو الجزائر واپس اپنے رنگ میں آ گیا۔ عرب واپس گئے تو سپین اپنے رنگ میں رنگا گیا۔ عرب میں اب ترکی نہیں ہے نہ بولی جاتی ہے نہ اس پر کوئی فخر کیا جاتا ہے۔ الجزائر فرانس کے کلچر سے آزاد ہے اور اپنی ثقافت کے ساتھ چل رہا ہے۔ سپین عرب ثقافت سے بے نیاز ہے۔
یہ صرف ہم ہیں جو انگریز کی تہذیبی غلامی سے نکلنے کو تیار ہی نہیں۔ وجہ؟ وجہ وہ نو آبادیاتی افسر شاہی اور نو آبادیاتی وڈیرہ شاہی ہے جو انگریز چھوڑ گیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ہمیں یہاں ایک ایسی نسل درکار ہے جو ویسے تو مقامی ہو لیکن اس کے سوچنے سمجھنے کے انداز انگریز جیسے ہوں۔ یعنی کالے انگریز۔ غلام ابن غلام نسل۔ آج ہر شعبے میں یہی نسل با لادست ہے۔ چنانچہ قائد اعظم نے جس زبان کو قومی زبان قراردیا اس زبان میں بات کرنا یہ کالی نسل اپنی توہین سمجھتی ہے۔
یہ کوئی معمولی المیہ نہیں ہے، یہ بہت بڑا حادثہ ہے۔ ایک سانحہ ہے۔ ہم نے اپنے قومی تفاخر کی تمام علامات کو بے توقیر کیاہے۔ اردو قومی زبان ہے، اسے بولتے انہیں شرم آتی ہے۔ ہاکی قومی کھیل ہے یہاں جان بوجھ کر کرکٹ کی سرپرستی کی گئی اور ہاکی کو نظر انداز کیا گیا۔
منافقت کی انتہا یہ ہے کہ زبان کی بنیاد پر طبقات تشکیل دے دیے گئے۔ نیم خواندہ معاشرہ ہے، اپنی قومی زبان بھی بہت ساروں کو نہیں آتی لیکن قانون انگریزی میں ہے۔ عدالت کا کارروائی براہ راست دکھائی جاتی ہے اور وہاں سب انگریزیاں مار رہے ہوتے ہیں۔ یہ سوائے احساس کمتری کے اور کیا ہے؟ کیا اپنی زبان میں بات کر لی جائے تو انصاف ناراض ہو کر کوہ قاف پر چلا جائے گاکہ اب میں نے نیچے نہیں اترنا؟ معلوم نہیں یہ تہذیبی غلامی کب ختم ہوگی؟