صدر محترم کا آخری اچھا فیصلہ؟
صدر محترم کی آئینی مدت ختم ہو چکی ہے، آئین میں اگر چہ یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ آئندہ صدر کے انتخاب تک منصب صدارت پر فائز رہ سکتے ہیں لیکن یہ کوئی مجبوری نہیں تھی، یہ ان کا اپنا انتخاب تھا کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ انہوں نے منصب پر رہنے کا فیصلہ کیا تو اس میں کوئی غیر آئینی بات نہیں لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ مدت ختم ہونے پر وہ ایوان صدر سے رخصت ہو جاتے اور بالآخر کوئی ایک اچھی روایت اپنے پیچھے چھوڑ جاتے؟
صدر کا عہدہ ریاست کا سب سے بڑا منصب ہے۔ وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے مگر صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ عارف علوی صاحب اس وقت ریاست کے سربراہ ہیں اور سب سے بڑے منصب پر فائز ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑا یہ منصب اس وقت ریاستی بندو بست میں غیر متعلق ہو چکا ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ صدر محترم الیکشن کمیشن کو خط لکھتے ہیں کہ ان سے ملاقات کی جائے تا کہ الیکشن کی تاریخ دی جا سکے تو انہیں جواب ملتا ہے کہ جناب صدر، اس ملاقات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر چہ میرے جیسوں کی رائے میں چیف الیکشن کمیشن کو ملاقات کے لیے جانا چاہیے تھا کیونکہ بات عارف علوی صاحب کی نہیں، پاکستان کے سربراہ کی تھی۔ لیکن منصب کے احترام کا تقاضا یک طرفہ طریقے سے کب پورا ہوتا ہے، یہ ذمہ داری تو اطراف کو مل کر نبھانا ہوتی ہے۔ جب ایک فریق اس کے تقاضوں سے بے نیاز ہو جائے تو پھر صرف دوسرے سے کیا گلہ؟ یہ ملاقات بالآخر ہوئی اور الیکشن کا اعلان بھی ہوگیا مگر کب؟ جب سپریم کورٹ نے حکم دیا۔ یہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل تھی، ورنہ شاید عام حالات میں یہ ممکن نہ ہوتا۔
صدر محترم کے منصب کو اس حال پر پہنچانے و الے صدر محترم خود ہیں۔ آئین کے مطابق وہ پارلیمان کا حصہ بھی ہیں مگر انہوں نے کیا کیا؟ ایک ایسے وقت میں جب پارلیمان میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد آ چکی تھی انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کی خواہش کی تکمیل میں اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ آئین اس معاملے میں بہت واضح ہے۔ آرٹیکل58 کی ذیلی دفعہ ایک کے مطابق جب عدم اعتماد آ چکی ہو تو اسمبلی تحلیل نہیں کی جا سکتی۔ عارف علوی صاحب نے اس وقت اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا جب وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد آ چکی تھی اور آئین کے مطابق اب ان کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا کوئی اختیار نہ تھا۔ بطور صدر پاکستان انہوں نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا تھا مگر انہوں نے اسے پامال کیا۔ چنانچہ سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی اور اسمبلی تحلیل کرنے کا غیر قانونی حکم ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا۔ اس سب کا ذمہ دار کون تھا؟ جناب عارف علوی خود اس کے ذمہ دار تھے۔
اس کے بعد پارلیمان میں صدر محترم کے بارے میں جو باتیں ہوئیں وہ تکلیف دہ تھیں، حکومت کے سربراہ پر تنقید ہونا ایک بات ہے لیکن ریاست کے سربراہ کی عزت کی جانی چاہیے۔ لیکن ریاست کا سربراہ اگر آئین کو پامال کرتے ہوئے پارلیمان کو غیر قانونی طریقے سے گھر بھیجنے کا فیصلہ کر دے تو اس فیصلے کے آزار سے بچ جانے کے بعد اس پارلیمان سے یہ یک طرفہ مطالبہ کیسے کیا جا سکتا تھا کہ وہ اب بھی صدر محترم کو وہی عزت دے جو ریاست کے سربراہ کو دی جاتی ہے۔ تلخی کو اس حد تک پہنچانے کا ذمہ دار کون تھا؟ جناب عارف علوی خود۔
قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک ریفرنس صدر محترم نے بھیج دیا۔ یہ ناکام ہوا اور وہی فائز عیسیٰ صاحب پاکستان کے چیف جسٹس بن گئے۔ اب صدر محترم ہی کو ان سے حلف لینا تھا۔ امکان تھا کہ صدر محترم یا تو منصب سے استعفی دے دیں گے اور نو منتخب چیف جسٹس سے حلف نہیں لیں گے، یا وہ کوئی عذر اختیار کر لیں گے، بیماری کا یا ملک سے باہر جانے کا اور یوں چیئر مین سینیٹ ان کی جگہ جناب چیف جسٹس سے حلف لے لیں گے، یا پھر وہ اپنے سابقہ فیصلے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معذرت کر لیں گے۔ حیرت اس وقت ہوئی جب صدر محترم نے کمال استقامت، سے خود ہی ا س شخص سے حلف لے لیا جس کے خلاف انہوں نے اپنے ہی دست مبارک سے ریفرنس بھیجا تھا۔
آئین میں صدر محترم کے پاس صدارتی آٓرڈی ننس جاری کرنے کے اختیارات ہیں لیکن اس اختیار کے ساتھ کچھ شرائط بھی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہو رہا ہو اور بلانے میں بھی وقت لگے جب کہ حالات ایسے ہوں کہ اجلاس کے انعقاد کا انتظار بھی نہ کیا جا سکتا ہو تو اس صورت میں آرڈی ننس لایا جا سکتا ہے۔ صدر محترم نے کیا کیا؟ قومی اجلاس کا اجلاس چل رہا ہوتا اور اسے ختم کرنے کا حکم آ جاتا۔ جمعرات کو اجلاس ختم ہوتا اور جمعے کو صدارتی آرڈی ننس جاری ہو جاتے۔ ایک ایک دن میں درجنوں۔ بالکل ایسے ہی جیسے پی ڈی ایم ایک ایک دن میں درجنوں قوانین پارلیمان سے پاس کراتی رہی۔ صدر محترم کے آرڈی ننسوں کا معیار یہ تھا کہ اگر کابینہ کے کسی وزیر کو کشمیر کی انتخابی مہم میں جانے ا ور ضابطہ اخلاق پامال کرنے پر الیکشن کمیشن طلب کرتا تو صدر محترم آرڈی ننس کے ذریعے قانون ہی بدل دیتے کہ کہیں کابینہ کے کسی بانکے کی دہلیز پر الیکشن کمیشن کا قانون دستک نہ دے آئے۔
صدر کوئی بھی ہو، ایک سیاسی عمل میں ظاہر ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا ہی ہوگا یا کسی سے ہمدردی رکھتا ہی ہوگا۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن جب وہ ایک بار صدر کے منصب پر فائز ہو جائے تو پھر اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کسی ایک سیاسی جماعت کا صدر نہیں ہے بلکہ وہ ریاست پاکستان کا صدر ہے۔ ایسے میں اس کا دل بھلے اپنی سیاسی جماعت کے لیے کتنا ہی بے قرار نہ ہو اسے اپنے عہدے کے وقار کا خیال رکھنا چاہیے اور سب کا صدر بن کر دکھانا چاہیے۔ نہ بن سکے تو کم از کم اس کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
عارف علوی صاحب نے یہ ساری نزاکتیں نظر انداز کیں۔ چنانچہ ان کا طرز عمل ہر جگہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پارلیمان سے لے کر عدالت تک، ان کے رویے پر ہر جگہ یہی سوال اٹھتا رہا کہ یہ پاکستان کے صدر ہیں یا ایک سیاسی جماعت کے؟ یہ ایک بوجھ ہے جو صدر صاحب نے غیر ضروری طور پر اٹھائے رکھا اور اس کا نہ ان کو کوئی فائدہ ہو سکا نہ ان کی جماعت کو۔ یہاں تک کہ سیاسی تنائو میں جہاں وہ بطور صدر محترم بروئے کار آ سکتے تھے اور کسی مفاہمتی عمل کا آغاز کر سکتے تھے، اپنے اس رویے کی وجہ سے وہ یہ بھی نہ کر سکے۔ کیوں کہ ان کا عمومی تعارف بھی اب سیاسی حریف کا تھا۔
سوال یہی ہے کہ اب مزید اس عہدے پر فائز رہ کر وہ کیا حاصل کر لیں گے۔ ایک اچھا فیصلہ وہ اب بھی کر سکتے ہیں: استعفے کا۔