پاکستان میں بھارتی دہشت گردی، انٹر نیشنل لا کیا کہتا ہے؟
پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان حکومت نے بھارت پر جو الزام عائد کیا تھا، اب برطانوی اخبار گارڈین نے بھی اس کی تائید کر دی ہے۔ گارڈین کی رپورٹ کے مطابق بھارت پاکستان کے اندراپنی دہشت گرد پراکسی کی مدد سے بیس لوگوں کو قتل کرچکا ہے۔
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے اس رپورٹ کی بین السطور تصدیق کر دی جب انہوں نے انڈین ٹی وی نیوز نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان میں گھس کر مارنے کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس خبر اور اس اعتراف سے بہت سارے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن پر آنے والے دنوں میں تفصیل سے بات ہوگی۔ تاہم اس سلسلے کا پہلا سوال یہ ہے کہ اس دہشت گردی کے بارے میں انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے؟
اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک کا تعلق ریاست سے ہے اور دوسرے کا تعلق فرد سے ہے۔ ہر دو زاویوں سے بھارت مجرم ہے اور اس نے انٹر نیشنل لاء کو پامال کیا ہے۔ اور نہ صرف انٹر نیشنل لاء کو پامال کیا ہے بلکہ کسٹمری انٹر نیشنل لاء کو بھی روند دیا ہے۔ کسٹمری انٹر نیشنل لاء کا معاملہ یہ ہے کہ یہ وہ ضابطے ہیں جو کسی ملک کی جانب سے توثیق کے محتاج نہیں ہیں۔ ان پر عمل کرنا ہر ملک کے لیے لازم ہے۔ یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ بھارت بین الاقوامی قانون کے کٹہرے میں ایک مجرم کے طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
ریاستوں کے بارے میں بین الاقامی قانون واضح ہے۔ ہر ریاست کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اور تمام ریاستیں ان کا احترام کرنے کی پابند ہیں۔ اسی احترام باہمی سے بین الاقوامی قانون کی صورت گری ہوتی ہے اور عالمی امن یقینی بنتا ہے۔ اگر یہ نہ رہے تو سب کچھ ختم ہو جائے۔
اقوام متحدہ کا چارٹر ایک اہم ترین دستاویز ہے۔ اس کے باب 1 میں جو مقاصد اور اصول وضع کیے گئے ہیں ان میں سر فہرست بین الاقوامی امن اور سلامتی کو یقینی بنانا ہے (آرٹیکل 1)۔ بھارت اس وقت بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ نہ صرف پاکستان میں وہ قتل و غارت میں ملوث ہے بلکہ کینیڈا میں بھی بھی وہ ٹارگٹ کلنگ کر چکا ہے اور امریکہ میں بھی اس کا ایسا ہی ایک منصوبہ فاش ہو چکا ہے۔ عالمی قوتیں بھلے اس فاشزم سے صرف نظر کر لیں لیکن اس سے خطرے کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی ذیلی دفعہ 4 کے مطابق ہر ریاست پابند ہے کہ وہ کسی دوسری ریاست کے خلاف یہ اقدام نہیں کرے گی: اول: اس کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرے گی۔ دوم: اس کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی نہیں دے گی۔ سوم: اس کی علاقائی خود مختاری کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھائے گی۔ چہارم: کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جو اقوام متحدہ کے مقاصد سے متصادم ہو۔
بھارت ان چاروں شرائط کو پامال کر چکا ہے۔ اس نے پاکستان کی علاقائی خود مختاری کو پامال کیا، اس نے دہشت گردی کی، طاقت استعمال کی، اس کا وزیر دفاع مزید ایسے اقدامات کا عندیہ دے رہا ہے، یہ امن اور سلامتی کے لیے ایک مسلسل چیلنج ہے۔
یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ انٹر نیشنل لاء کا ایک بنیادی اصول State soveriegnity کا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی ذیلی دفعہ 1 میں قرار دیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی بنیاد ہی ساورن ایکویلیٹی، کے اصول پر رکھی گئی ہے۔ State soveriegnity کے اس اصول کا سادہ ترین الفظ میں یہ مطلب ہے کہ ایک ریاست کی حدود کا احترام کیا جائے گا۔ ا ن حدود کے اندر کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے، اس کا انحصار اس ریاست پر ہے۔ باہر سے کوئی قوت اس ریاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اس کی حدود میں بلا اجازت کوئی نہیں گھسے گا۔ وہاں کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جس کی وہ ریاست اجازت نہ دے۔ بھارت نے پاکستان کی حدود میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ سے اس اصول کو بھی پامال کیا ہے اور یہ پاکستان کی State soveriegnity کے خلاف ہے۔
ریاست کے بعد اب فرد کی طرف آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے ابتدایے یعنی تمہید میں اس اصول کو تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کا تعلق صرف ریاستوں سے نہیں فرد سے بھی ہے۔ چنانچہ وہاں بنیادی انسانی حقوق پر یقین رکھنے کی تصدیق کی گئی ہے، انسان کی عزت اور اس کی قدر کی بات کی گئی ہے اور اسے اقوام متحدہ کے قیام کی وجوہات کے باب میں درج کیا گیا ہے۔ بھارت نے نہ صرف ریاست کے خلاف جرم کیا ہے بلکہ اس نے اقوام متحدہ کے ان اصولوں کو بھی پامال کیا ہے جن کا تعلق انسان کی جان کی حرمت سے ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے، یونیورسل ڈیکلیئریشن آف ہیومن رائٹس کے آرٹیکل 3 کے مطابق ہر ایک کو زندگی، آزادی اور جان کی سلامتی کا حق حاصل ہے۔
شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے ICCPR کے آرٹیکل 6 کے مطابق ہر انسان کو زندہ رہنے کا پیدائشی حق ہے اس حق کا تحفظ کیا جائے گا۔ کسی کو بھی استبدادی طور پرا س کی زندگی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
اسی بات کو حقوق انسانی کے یوروپین کنونش ECHR کے آرٹیکل 2 میں بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہر ایک کو زندہ رہنے کا حق ہے، اس حق کا تحفظ کیا جائے گا اور کسی کو اس کی زندگی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ اس کے آرٹیکل 5 میں قرار دیا گیا ہے کہ ہر شخص کو آزادی اور جان کی سلامتی کا حق حاصل ہوگا۔
بھارت مسلمہ بین الاقوامی قوانین پامال کرتے ہوئے دیگر ممالک میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ ایسی وارداتوں کے لیے اگر اس نے دہشت گرد گروپ رکھے ہیں یا مرسنریز بنا رکھی ہیں تو یہ مرسنریز کنونشن کے آرٹیکل 2,3 اور 5 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 1514، قرارداد نمبر2465، قرارداد نمبر2548، قرارداد نمبر2708، قرارداد نمبر3103، قرارداد نمبر14/13، قرارداد نمبر74/40 کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر239، قرارداد نمبر405، قرارداد نمبر419، قرارداد نمبر496اور قرارداد نمبر507 کی بھی پامالی ہے۔
انٹر نیشنل لاء کو تو بھارت کبھی خاطر میں نہیں لایا تھا تا ہم اب اس کا رویہ ایک عفریت میں بدلتا جا رہا ہے۔ اگر اسے نظر انداز کر دیا گیا تو آنے والے دنوں میں یہ ہمارے لیے ایک ناسور بن جائے گا۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا، ہم نے گومگو کی کیفیت میں رہنا ہے یا معاملے کو بین الاقوامی فورمز پر لے جانا ہے۔