موسم روٹھ رہے ہیں
موسم بدل رہے ہیں۔ موسموں کا وہ سارا نظام الاوقات تبدیل ہو رہا ہے جو صدیوں سے قائم تھا۔ سیاست پر لمبی اور لاحاصل بحثوں سے وقت ملے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ماحولیات سے جڑا چیلنج خوف ناک ہوتا جا رہا ہے۔
مارچ کا آدھا مہینہ گزر چکا اور جنگلوں میں پھول نہیں کھلے۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ چیتر کی رت شروع ہو جائے اور جنگل پھولوں سے بھر نہ جائے۔ فروری کے آخری دنوں میں جنگل پھولوں سے بھر جاتا تھا۔ جھیل کو جاتے رستے پر پھولوں کا قالین سج جاتا تھا۔ درہ جنگلاں میں ندی کے کناروں پر لگے کچنار کے درخت پھولوں سے بھر جاتے تھے۔ مارچ کے آتے آتے گوکینہ کے چرواہے اتنا کچنار بھیج چکے ہوتے تھے کہ گھر میں ہر طرف کچنار ہی نظر آتا تھا۔ اب آدھا مارچ ختم ہونے کو ہے، نہ کوئی پھول ہے نہ کہیں کوئی کچنار ہے۔ یہ بدلتے موسموں کی نوید ہے اور یہ خوف ناک علامت ہے۔
ہمارے ہاں رائج کیلنڈر سورج سے منسلک ہے اور موسموں میں تبدیلی کا انحصار بھی سورج سے ہے۔ اس کے باجود صدیوں سے موجود موسموں کے نظام الاوقات بدل رہے ہیں تو یہ کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اب دسمبر میں سردی نہیں ہوتی، اوائل بہار میں برفیں پڑ جاتی ہیں، چیتر آ جاتا ہے اور بہار نہیں آ تی۔ نظام فطرت اپنے صدیوں پرانے شیڈول سے انحراف کر رہا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ تہہ خاک بہت بڑا اضطراب ہے۔ یہ غیر معمولی تبدیلی ہے۔ اس کے نتائج بھی تباہ کن ہوسکتے ہیں۔
معاملہ صرف یہ نہیں کہ موسموں کی کروٹ بدل رہی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اس کروٹ کے ساتھ بہت کچھ بدلنے جا رہا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت اس کی معیشت میں آج بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ بارشوں کی ترتیب تھوڑی سی درہم برہم ہو جائے تو پاکستان کو زراعت کی مد میں اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ کوئی صنعتی ملک تو اس تبدیلی سے بے نیاز ہو سکتا ہے لیکن ایک زرعی ملک کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
برف باری میں اس دفعہ تاخیر ہوئی مگر اللہ کا شکر ہے کہ بالآ خر برفیں پڑ گئیں۔ یہ بر ف باری محض سیاحوں کے ذوق نظارہ کا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے ملک کی زرعی معیشت براہ راست جڑی ہے۔ دسمبر اور جنوری میں برف باری ہو جائے تو برف کے سلسلے بڑھ جاتے ہیں۔ پہلی برف پڑی ہو اور اوپر سے تازہ برف گرتی رہے تو برف کی تہہ سخت ہو جاتی ہے اور یہ زیادہ عرصہ تحلیل نہیں ہوتی۔ یہ دھیرے دھیرے پگھلتی ہے اور نیچے کے علاقوں میں پانی بن کر آتی ہے۔
اسی سے زراعت کا نظام چلتا ہے۔ لیکن اگر برف باری سردیوں کے آخر میں ہوئی ہو تو اس برف کی تہہ ابھی طاقت نہیں پکڑتی کہ بدلتے موسم کے تھپیڑ ے اس سے جا ٹکراتے ہیں۔ یہ برف جلد پگھل جاتی ہے۔ یعنی برف باری کے تاخیر سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زرعی زمینوں کو پانی کی فراہمی کا ایک ذریعہ کمزور ہوگیا۔ آلودگی اور بڑھتی ہوئی حدت سے موسموں کی تبدیلی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہ بھی ممکن ہے کہ جاڑا آئے اور برف باری کے بغیر گزر جائے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ ایسا ہوا تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔
اہم بات یہ ہے کہ اپنی ساری کوتاہیوں کے باوجود اس ماحولیاتی تباہی میں ہمارا ہاتھ بہت کم ہے۔ یہ ان ممالک کی کرم فرمائی ہے جہاں صنعتی ترقی عروج پر ہے۔ گلوبل وارمنگ کے ذمہ دار یہی ممالک ہیں۔ زمین کو اس کی قدرتی کیفیت میں برقرار رکھنے کے لیے ان ترقی یافتہ ممالک کو مہلک گیسوں کے اخراج میں 97 فی صد کمی کرنا ہوگی اور ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں۔ اس ترقی کا وبال ہم جیسے ممالک پر پڑ رہا ہے جو ہماری زراعت کو ادھیڑ کر رکھ دے گا۔ اور ہماری معیشت کی تو بنیاد ہی زراعت ہے۔ تھوڑا موسم روٹھا تو خشک سالی اور تھوڑا مائل ہواتو سیلاب۔ بے وقت روٹھا تو بھی تباہی اور بروقت مائل نہ ہوا تو بھی تباہی۔ مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ مہلک گیسوں کے اخراج میں جو ممالک سرفہرست ہیں ان میں چین اور بھارت بھی شامل ہیں اور دونوں ہمارے پڑوس میں ہیں۔ یعنی صنعتی ترقی سے جو گیسز کا اخراج موسموں کو متاثر کر رہا ہے ہم اس کے براہ راست نشانے پر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اب پاکستان کیا کر سکتا ہے؟ پاکستان دو کام کر سکتا ہے۔ پہلا یہ کہ اپنے جیسے متاثرہ ممالک کو ساتھ ملائے اور ترقی یافتہ دنیا سے یہ کہا جائے کہ آپ کی ترقی کی قیمت ہم جیسوں کو دینا پڑ رہی ہے اس لیے ہمارے نقصانات کا ازالہ کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہ کوئی خیالی بات نہیں ہے۔ دنیا میں اس پر کام ہو رہا ہے اور بین الاقوامی فورمز اس مطالبے کو تسلیم بھی کر رہے ہیں۔ یہ بالکل ایک منطقی بات ہے کہ جن ممالک کی وجہ سے ماحولیات تباہ ہو رہی ہیں اور مقسموں کی گردش بدل رہی ہے انہیں اپنے مالی منافع میں سے ایک خطیر رقم ماحولیات کے تحفظ کے لیے رکھنی چاہیے۔ عجب ستم ظریقی ہے دنیا کا ماحول تباہ کرکے یہ ممالک منظور نظر این جی اوز پر معمولی سی رقم خرچ کرکے الٹا انہی ممالک کو وعظ کرتے پائے جاتے ہیں کہ ماحولیات پر توجہ دیں۔ یعنی کوچہ قاتل میں جو قتل ہ رہا ہے، خوں بہا بھی اسی سے مانگا جا رہا ہے۔
کرنے کا دوسرا کام یہ ہے کہ ماحولیات پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور وزارت ماحولیات کو خانہ پری کی وزارت کی بجائے سنجیدہ وزارت سمجھا جائے اور سیاسی ایڈ جسٹمنٹ کی بجائے افتاد طبع اور مہارت کی بنیاد پر اس میں فیصلہ ساز بٹھائے جائیں۔ ہمیں جنگلات بڑھانے کی شدید ضرورت ہے۔ یہ کام تب ہی ہو سکتا ہے جب یہ چیز ہمارے قومی بیانیے کا حصہ ہو۔
بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کو صرف سیاست سے رغبت ہے۔ تجزیہ کاروں کی مہارت بھی He said اور She said تک محدود ہو چکی ہے۔ فلاں نے یہ کہہ دیا اور فلاں نے وہ کہ دیا۔ ٹاک شوز کی جملہ دانشوری کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ یہ کہہ رہاہے تو جناب آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ ملک کے حقیقی مسائل کہیں زیر بحث نہیں۔ تماشا سا لگاہے اور تماش بین اپنے اپنے اداکاروں کو داد دے رہے ہیں۔ جو صاحبان دانش جون کی گرمی میں، لالہ موسی کی سیاست پر تبصرہ بھی پینٹ کوٹ اور ٹائی کے بغیر نہ کر سکتے ہوں اور ڈاکیے کی طرح گرمی ہو یا سردی ان کی ایک ہی وردی ہو، موسموں کی کروٹ سے بے نیاز اس مخلوق کی جانے بلا کہ موسموں کی تبدیلی میں کیسے طوفان چھپے ہیں۔
باہر بارش ہو رہی ہے۔ ابھی پہار سے لوٹا ہوں۔ یہ وادی ان دنوں پھولوں سے بھر جاتی تھی مگر اب یہ عالم ہے کہ پھول تو کیا ابھی درختوں پر نئی کونپلیں بھی نہیں نکلیں۔ میں ایک دفعہ پھر عرض کروں کہ موسموں کی اس تبدیلی کا تعلق محض ذوق نظارہ سے نہیں، یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔