کیا بیرسٹر گوہر میاں داد پلس ہیں؟
بیرسٹر گوہر خان کی تحریک انصاف کے چیر مین کے منصب پر تعیناتی نے ایک بار پھر اس سوال کی معنویت میں اضافہ کر دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی اصل میں ایک ادارہ ہیں یا قائد محترم کی جاگیر؟ یہ سوال اس وقت بھی پیدا ہوا تھا جب بلاول صاحب کو وراثت میں قیادت آئی تھی اور شاہد خاقان عباسی صاحب کی اپنی جماعت سے تازہ ناراضی کی شان نزول بھی یہی بیان کی جاتی ہے۔
کچھ وہ ہیں جو قیادت کا منصب گھر سے باہر نہیں جانے دیتے ا ور کچھ وہ ہیں جو کسی قابل ذکر شخصیت کو اس خوف سے سامنے نہیں لاتے کہ کل کومسئلہ نہ بن جائے۔ وزارت اعلی کے لیے عثمان بزدار کا انتخاب ہو یا چیئرمینی کے لیے گوہر خان کا، سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں منصب کے لیے اہلیت کا کوئی پیمانہ بھی کہیں ہے یا مزاج یار ہی سب کچھ ہے۔ سیاسی جماعت کو ہاتھ کی گھڑی بنا کر رکھنے کی یہ خواہش آمریت کے سوا کچھ نہیں۔ جیسے ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی، ایسے ہی آمریت آمریت ہوتی ہے، خاندانی ہو یا کلٹ والی ہو یا اصل والی ہو۔
یہ اصل میں ایک خوف ہے کہ سیاسی جماعت کو ادارہ بنایا تو کہیں یہ ہاتھ سے نکل نہ جائے، اس لیے ایسے کمزور، فرمان بردار اور تابع مہمل قسم کے لوگوں کو آگے لایا جاتا ہے جو اختلاف کی جسارت ہی نہ کر سکیں اور ان کی کوئی سیاسی حیثیت ہی نہ ہو کہ پارٹی کے اصل مالک کی گرفت کے لیے مسئلہ بن سکیں۔
اس رویے سے شخصی آمریت تو مضبوط ہو سکتی ہے، جمہوریت نہیں۔ جمہوری نظام اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتا جب تک سیاسی جماعتیں مضبوط نہ ہوں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں ایک ادارہ نہیں بن سکیں۔ ان میں داخلی سطح پر جمہوریت کا فقدان ہے۔ ایک مستحکم سیاسی کلچر فروغ نہیں پا سکا۔ یہ شخصیت پرستی کے آزار تلے دبی پڑی ہیں۔ ان میں جمہوری اقدار کی بجائے خاندانی تسلط قائم ہے۔ کسی بھی جماعت کو دیکھ لیجیے، ایک آدھ استثناء کے ساتھ شخصیت پرستی کا اک طلسم ہے جس پر سیاسی جماعت کی گرہ لگائی جاتی ہے۔ قیادت یہاں اہلیت سے مشروط نہیں، میراث میں آتی ہے۔ وصیت پر سیاسی جماعت کی قیادت کے فیصلے ہوتے ہیں، داخلی ڈھانچہ اور تنظیم سازی کا یہ عالم ہے کہ سہہ پہر ایک سیاسی جماعت دوسری جماعت میں شامل ہوتی ہے اور دن ڈھلنے تک مہمان کو پارٹی کا صدر بنا دیا جاتا ہے۔ قائد محترم کے بعد ان ہی کے اہل خانہ قوم کی رہنمائی کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ سیاسی عصبیت کوئی معمولی چیز نہیں، نہ ہی یہ اتنی آسانی سے حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس عصبیت کو غلامی کا طوق بنا دیا جائے اور سیاسی جماعت ایک باقاعدہ جمہوری ادارے کی بجائے ذاتی یا خاندانی جاگیر کی شکل اختیار کر لے۔
سیاسی جماعتیں جب ایک ادارے کی شکل میں بروئے کار آتی ہیں تو وہ ایک دستور دیتی ہیں، ایک پروگرام لے کر چلتی ہیں، ایک انتخابی منشور ہوتا ہے، صحت مند مکالمہ ہوتا ہے، با مقصد بحث ہوتی ہے لیکن جب سیاسی جماعتیں خاندانی جاگیر یا ایک کلٹ کی صورت بروئے کار آتی ہیں تو انہیں کسی با مقصد پروگرام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اندھی محبت اور اندھی نفرت ہی ان کے لیے کافی ہوتی ہے۔ نیم خواندہ معاشرے میں یہ سب سے آسان کام ہے کہ کلٹ کھڑا کر دیا جائے اور پھر لیڈر کو کسی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے اصول ہی یہ بنا لیا جائے کہ میرے گروہ کا قائد ہی معیار حق ہے اور اس کے سوا سب باطل اور طاغوت ہے۔ کلٹ، نفرت اور عقیدت کی بنیاد پر جو جمہوریت کھڑی ہوتی ہے وہ بجائے خود ایک آزار ہوتی ہے اور اس سے کوئی خیر نہیں نکل سکتا۔
سماجی شعور اور انتخابی قوانین مل کر اس منزل کو حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مگر اس ضمن میں با معنی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ نمائشی اقدام البتہ بہت ہیں، مگر رسمی اور بے روح۔
الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 208 میں سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کی بات کی گئی ہے۔ اس دفعہ میں تین اہم چیزیں لکھی ہیں:
تمام سیاسی جماعتوں کے عہدیداران کا تعین انتخابات کے ذریعے ہوگا۔
ہر سیاسی جماعت کے تمام اراکین کو، اس جماعت کے آئین کے مطابق، سیاسی جماعت کے عہدوں کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
ہر جماعت کے تمام اراکین، صوبائی اور وفاقی سطح پر، مل کر جنرل کونسل کے اراکین کا انتخاب کریں گے۔
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کے تحت ہر سیاسی جماعت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے داخلی انتخابی عمل کی تفصیل سات روز کے اندر اندر الیکشن کمیشن کو جمع کرائے۔
یہ جاننے کے لیے اب کسی لمبی چوڑی مشق کی ضرورت نہیں کہ اس قانون پر کس حد تک عمل ہورہا ہے۔ سیاسی جماعتیں عملا خاندانی جاگیر بن چکی ہیں اور قانونی رسم پوری کرنے کے لیے ایک کارروائی ڈال لی جاتی ہے اور اس کارروائی کی تفصیل دفعہ 209 کے تحت الیکشن کمیشن کو جمع کرا دی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن سب کچھ جانتے بوجھتے اس رپورٹ کا یقین کرکے خود کو دھوکہ دے لیتا ہے کہ قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے، سیاسی جماعتوں میں داخلی سطح پر جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے اور جماعتوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔
الیکشن ایکٹ کی سکیم بتاتی ہے کہ قانون کی نظر میں سیاسی جماعت ایک باوقار اور باقاعدہ ادارہ ہے اور اس کے اراکین اس کا بنیادی جزو ہیں۔ زمینی حقائق اگر چہ اس سے مختلف ہیں اور قانون کو بھی اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عمل کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کے مطابق جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوگا تو سیاسی جماعت دو کام ضرور کرے گی۔ اس کا نام اپنے رجسٹر براے اراکین میں لکھے گی اور اس شخص کو اپنا پارٹی کارڈ جاری کرے گی۔ چنانچہ اسی دفعہ میں اراکین کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایک وقت میں صرف ایک سیاسی جماعت کے رکن بن سکتے ہیں۔ ذیلی دفعہ 5 میں تمام ممبران کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ انہیں جماعت کے ریکارڈ تک رسائی دی جائے۔
پاکستان میں سیاست اکثریت کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن کتنے لوگ ہیں جنہیں ان کی سیاسی جماعت نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کے مطابق اختیارات دیے ہوئے ہیں؟ اختیارات کو تو چھوڑیے، کتنوں کے پاس ان کی سیاسی جماعت کے جاری کردہ کارڈز موجود ہیں؟
سیاسی جماعتیں آج تک ادارہ نہیں بن سکیں۔ یہ جاگیریں ہیں۔ ان جاگیروں کے مزارعین کو ازرہ مروت کارکنان کہاجاتا ہے۔ کارکن کبھی پارلیمان تک نہیں پہنچ سکتا۔ وہاں الیکٹیبلز پہنچ سکتے ہیں یا حادثاتی طور پر چند خدام ادب، جن کی حیثیت سیاسی جماعت میں بارہویں کھلاڑی کی بھی نہیں ہوتی۔ عثمان بزدار صاحب لائے گئے تو ارشاد ہوا یہ وسیم اکرم پلس ہیں، معلوم نہیں اب گوہر خاں صاحب کے بارے میں کیا حکم ہے، کہی یہ جاوید میانداد پلس تو نہیں؟