جناب چیف جسٹس کی خدمت میں
چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیٰسی صاحب کی ہدایت پر، سپریم کورٹ میں مرحوم استاذ گرامی جناب جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی کی یاد میں فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ کسی عالم جج کی یاد میں ریفرنس کا انعقاد یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور قابل تحسین ہے۔ تاہم یہ ناکافی ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے جس شریعت اپیلٹ بنچ کے ڈاکٹر غزالی مرحوم جج تھے، وہ بنچ قریب 35 ماہ سے غیر فعال پڑا ہے اور اسے صرف جناب چیف جسٹس فعال بنا سکتے ہیں۔ تین سالوں میں کسی چیف جسٹس نے اسے فعال کرنے کا نہیں سوچا اور ڈاکٹر محمد الغزالی کو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ شریعت اپیلٹ بنچ کی اس دانستہ ناقدری کا دکھ وہ اپنے ساتھ لے گئے۔
اس معاشرے کی اور اس ملک کے اہل قانون کی اور نظام انصاف کی بے نیازی دیکھیے، سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت کے لیے جب بنچ تشکیل دیے جاتے ہیں تو ان کی خبریں ذرائع ابلاغ پر اہتمام سے شیئر کی جاتی ہیں اور قومی سیاسی بیانیے میں ان پر طویل مباحث ہوتے ہیں لیکن اس نکتے پر کبھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی سپریم کورٹ کا شریعت ایپلیٹ بنچ 23 ماہ سے معطل پڑا ہے اور اس کے سامنے پچھلی صدی کے مقدمات زیر التواپڑے ہیں کہ بنچ بنے تو ان کی سماعت ہو۔
سپریم کورٹ کے دیگر بنچ کیسے بننے ہیں اس پر لمبی لمبی بحثیں ہوتی ہیں اور پارلیمان میں قانون سازیاں ہوتی ہیں لیکن نظام انصاف کو اسلامی ٹچ دینے کے لیے جو شریعت اپیلٹ بنچ بنا یا گیا وہ اگر تین سال سے غیر فعال پڑا ہو تو قانون سے ابلاغ کی دنیا میں یہ سرے سے کسی کا مسئلہ نہیں کہ اس پر بات کرے۔
سپریم کورٹ کا شریعت ایپلٹ بنچ بنایا گیا، توطے کیا گیا کہ اس میں د و جید علماء ججز بھی شامل ہو ں گے۔ یہ دو ججز وفاقی شرعی عدالت سے بھی لیے جا سکتے ہیں اور صدر مملکت چاہیں تو جناب چیف جسٹس کی مشاورت سے براہ راست علمائے کرام میں سے ان کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد الغزالی بھی ان ہی علماء ججز میں سے ایک تھے۔ ان کی یاد میں فل کورٹ ریفرنس قابل تحسین کام ہے لیکن ان علماء ججز کے ساتھ جو حسن سلوک، ہوتا آیا ہے اور کیا جا رہا ہے، تب تک اس پر نظر ثانی نہیں ہوگی، ریفرنس کا مقصد بھی پورا نہیں ہوگا۔
جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے جج تھے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی فی کس مجموعی تنخواہ ایک ملین سے زیادہ ہے(اب شاید بڑھ چکی ہو)، قریب تیرہ یا چودہ لاکھ روپے ماہانہ۔ لیکن اسی سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے علماء جج صاحبان کی تنخواہ مبلغ 2 لاکھ66 ہزار روپے ہے جو ضلعی عدالت کے جج کی تنخواہ سے بھی شاید کچھ کم ہی ہو۔ فل کورٹ ریفرنس سر آنکھوں پر لیکن اس کے بعد سوال یہ ہے کہ علماء جج صاحبان کے ساتھ یہ سوتیلا سلوک کب ختم ہوگا؟
سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے علماء جج صاحبان کو مراعات یعنی گاڑی، ڈرائیور، دفتر، سٹاف وغیرہ کی سہولیات صرف اس دوران ملتی ہیں جب وہ بنچ میں کسی مقدمے کی سماعت کر رہے ہوں۔ مقدمے کی سماعت کے دس دن (اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن) بعد ان سے یہ تمام مراعات لے لی جاتی ہیں۔ فیصلہ سازوں نے طے کر رکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے علماء جج صاحبان کو میڈیکل الائونس بھی نہیں دینا۔ بیمار ہوں تو ہوتے رہیں۔ اس ملک میں ایک چوکیدار کو بھی میڈیکل الائونس دیا جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے علماء جج صاحبان کو نہیں دینا۔ (ایسٹ انڈیا کمپنی نے مسلمان قاضیوں کی بہت تذلیل کی مگر میرا خیال ہے کہ علماء ججوں کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ابتدائی طور میں بھی ایسا نہیں کیا گیا تھا)۔
اب آئیے ملک کے نظام عدل کے اس اہم ترین اسلامی اور شرعی ستون کی فعالیت کا عالم دیکھ لیجیے۔ یاد رہے کہ شریعت ایپلٹ بنچ ہی نے وہ مقدمات سننے ہوتے ہیں، جن کا تعلق اسلامی قانون کی تعبیر سے ہو۔ حتی کہ اگر کسی کے خیال میں کوئی قانون اسلام سے متصادم ہے تو یہ مقدمہ بھی فیڈرل شریعت کورٹ سے پھر سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ میں آتا ہے۔
رشیدہ پٹیل کیس کا فیصلہ 1989 میں وفاقی شرعی عدالت نے کیا۔ اس فیصلے میں لکھا گیا کہ زنا بالجبر کا جرم اصل میں حرابہ ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل ہوئی اور شریعت ایپلٹ بنچ نے ابھی تک اس پر فیصلہ نہیں کیا۔ 32 سال گزر گئے، فیصلہ معطل ہوا پڑا ہے۔ بنچ بنے گا اور بنچ کو کیس بھیجا جائے گا تب بنچ فیصلہ سنائے گا۔
اس اپیل پر فیصلہ آ جاتا تو شاید پرویز مشرف کو ویمن پروٹیکشن بل لانا ہی نہ پڑتا۔ یاد رہے کہ مشرف دور کی اس قانون سازی کے خلاف بھی وفاقی شرعی عدالت فیصلہ دے چکی ہے اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے پاس اپیل زیر التوا ہے۔ آخری مرتبہ اس بنچ نے 2010 میں اس اپیل پر سماعت کی تھی۔ 12 سال گزر گئے اپیل وہیں کی وہیں پڑی ہے۔ اب بنچ بنے گا اور بنچ کو کیس بھیجا جائے گا تب بنچ فیصلہ سنائے گا۔
یہی معاملہ کورٹ فیس ایکٹ کے ساتھ ہوا۔ مغلوں کے زمانے میں یہ نہیں ہوتا تھا۔ برطانوی نو آبادیاتی دور غلامی میں رعایا سے کہا گیا انصاف لینے آتے ہو تو فیس بھی ادا کیا کرو۔ چنانچہ کورٹ فیس عائد کر دی گئی۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے 1994 میں اس کورٹ فیس کے خلاف فیصلہ دیا کہ یہ غیر اسلامی ہے اور انصاف کے لیے عدالت آنے والوں سے یہ فیس نہیں لی جا سکتی۔ لیکن اس فیصلے خلاف اپیل ہوئی اور اس اپیل پر آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ بنچ بنے گا اور بنچ کو کیس بھیجا جائے گا تب بنچ فیصلہ سنائے گا۔
سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ نے آخری سماعت غالبا 5 دسمبر 2020ء کو کی تھی۔ پانچ دن سماعت ہوئی اور پھر بنچ ٹوٹ گیا۔ یہیں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ پچھلے بیس تیس سال میں شریعت ایپلٹ بنچ کے سامنے ایسے کتنے مقدمات سماعت کے لیے رکھے گئے جن کا تعلق قوانین کو اسلام کی رو سے جانچنے سے تھا کیونکہ اس بنچ کا اصل مقصد تو یہی تھا۔
سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کی عدم فعالیت کی وجوہات کیا ہیں اور اس سلسلے میں وہ ضروری قانون سازی کیوں نہیں کر پا رہی؟ کیسز کب تک التوا میں رہیں گے، بنچ کب تک نہیں بنیں گے، سماعت کب تک نہیں ہوگی؟
کم از کم اتنا قانون ضابطہ تو بنا دیا جائے کہ یہ بنچ زیادہ سے زیادہ کتنے دن یا ہفتے یا مہینے یا سال غیر فعال رہ سکتا ہے اور اسے زیر التوا مقدمات کا فیصلہ کتنے عرصے میں کر دینا چاہیے۔ ابھی تو کسی کو کچھ معلوم نہیں کب بنچ بنے گا، کب سماعت ہوگی۔
ریفرنس کے ساتھ ساتھ اگر ان سوالات پر بھی غور فرما لیا جائے تو ڈاکٹر محمد الغزالی مرحوم کی روح کو تسکین حاصل ہو جائے گی۔