اسماعیل ہنیہ، اتنا سناٹا کیوں ہے؟
ملکہ الزبتھ کا کتا مر ا تھاتو درجن بھر مسلمان ممالک کے سفیر صاحبان نے دکھ اور غم کے عالم میں شاہی محل میں تعزیتی کارڈز روانہ کر دیئے تھے۔ آج اسماعیل ہنیہ کا کنبہ معصوم بچوں سمیت ذبح کر دیاگیا اور مسلمان ممالک کی جلیل القدر حکومتیں، عالی مرتبت حکمران اور او آئی سی مذمت تو دور کی بات ہے تعزیت کا رسمی سا بیان بھی جاری نہ کر سکیں۔ ایک طالب علم کے طور پر میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس سکوت مرگ کی وجوہات کیا ہیں، کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟
ایک دلیل جو تواتر کے ساتھ دی جا رہی ہے کہ چونکہ فلسطینیوں نے زمینی حقائق کو مد نظر نہیں رکھا اور کسی مسلمان ملک سے مشاورت نہیں کی تو اب مسلمان ملک فلسطینیوں کی مدد کے پابند نہیں ہیں۔ یہ ایک بد ترین عذر گناہ تو ہے ہی، واقعاتی طور پر بھی جھوٹ پر مبنی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ فلسطینیوں نے نہ صرف مسلمان ممالک بلکہ پوری عالمی برادری کو اعتماد میں لیا تھا اور ان سے پوچھا تھا کہ کیا وہ ایسی کارروائی کر سکتے ہیں اور عالمی برادری نے جواب میں کہا تھا کہ فلسطینیوں کو ایسی کارروائی کا حق حاصل ہے۔ آپ کو اگر حیرت ہو رہی ہو تو میں حقائق آ پ کے سامنے رکھ دیتاہوں۔
فلسطینیوں نے یہی سوال پوچھا تھا اور جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 37/ 43 میں اس سوال کا بڑا واضح انداز سے جواب دیتے ہوئے نام لے کر کہا تھا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے ناجائزقبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی اجازت ہے۔ عالمی برادری نے ہی یہ اصول بھی وضع کیا تھا کہ جب تک اسرائیلی قبضہ اور فسطائیت جاری رہے گی فلسطینیوں کو مسلح مزاحمت کا حق حاصل رہے گا۔
جنرل اسمبلی نے اس قرارداد کے ابتدائیے میں یہ بھی کہا تھا کہ یہ قرارداد ہم فلسطین پر لائی گئی اپنی پہلی چار قراردادوں کی تذکیر میں لا رہے ہیں۔ گویا جنرل اسمبلی پانچ مرتبہ یہ رائے دے چکی ہے۔ جنرل اسمبلی نے یہ بھی کہاکہ عالمی برادری کے ذہن میں یہ بات بھی موجود ہے کہ فلسطینیوں کا حق خودارادیت، اس کی آزادی، اس کی حاکمیت اعلی، اور فلسطینیوں کا مقبوضہ علاقوں میں واپس لوٹنے کا حق نا قابل تنسیخ ہے۔ کوئی قانون اور کوئی ضابطہ اس حق کی نفی نہیں کر سکتا۔ جنرل اسمبلی نے کہا کہ فلسطینیوں کے یہ سارے ناقابل تنسیخ حق ان سے چھینے جا چکے ہیں اور اسرائیل کی جانب سے ان حقوق کی نفی اور مسلسل جارحیت عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ جنرل اسمبلی فلسطین کی آزادی، سلامتی، سا لمیت، جغرافیائی اور قومی وحدت اور حاکمیت اعلی کو کسی بیرونی مداخلت کے بغیر تسلیم اور قبول کرتی ہے اور اس کی ایک بار پھر تصدیق کرتی ہے۔ جنرل اسمبلی کا طے کردہ اصول بڑا واضح تھاکہ فلسطینیوں کو اسرائیلی تسلط اور قبضے کے خلاف آزادی کے حصول کے لیے ہر دستیاب طریقے سے جدوجہد کی اجازت ہوگی اور اس میں مسلح جد جہد شامل ہے۔
یہاں دو چیزیں بہت اہم ہیں۔ ایک reaffirm کا لفظ، یعنی یہ اصول اب پہلی بار طے نہیں ہو رہا تھا بلکہ اس اصول کی دوبارہ تصدیق ہو رہی تھی۔ دوسرا by all available means کے بعد including armed struggle کے الفاظ۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔ یہ اصول اصل میں جنرل اسمبلی اس سے پہلے اپنی قرارداد نمبر 3314 میں طے کر چکی تھی کہ غاصب اور قابض فوج کے خلاف حق خود ارادیت کے لیے مسلح جدوجہد جائزتصور کی جائے گی۔ قریب قریب یہی بات جنیوا کنونش کے ایڈیشنل پروٹوکول 1 کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میں بھی بیان کی جا چکی تھی اس لیے جب یہاں یہ بات کی گئی تو Reaffirm کا لفظ استعمال ہوا۔ یعنی یہاں کوئی نئی بات یا نیا اصول طے نہیں کیا گیا بلکہ پہلے سے موجود اصول کی ایک بار پھر تصدیق کی گئی۔
یہاں پر including armed struggle کے الفاظ کیوں استعمال کرنا پڑے؟ قرارداد 3314 میں کہا گیا تھا کہ جو جدوجہد حق خود ارادیت اور آزادی کے لیے ہوگی اسے جارحیت نہیں کہا جائے گا۔ تو اسرائیل اور اس کے حامیوں نے اس کی تشریح یہ کی کہ اس جدوجہد سے مراد جمہوری جدو جہد ہے اور اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کو مسح جدوجہد کی اجازت دے دی ہے۔
اسرائیل کا موقف ناقص تھا کیونکہ اگر بات جمہوری اور سیاسی جدو جہد کی ہوتی تو اقوام متحدہ کو یہ واضح کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ اسے جارحیت قرار نہیں دیا جائے گا۔ یہ مسلح جدو جہد ہی تھی جس کے بارے میں وضاحت کی گئی کہ اگر وہ حق خود ارادیت یا آزادی کے لیے غاصب کے خلاف ہوگی تو اسے جارحیت نہیں کہا جائے گا۔ تاہم جنرل اسمبلی نے اس قرارداد میں یہ مناسب سمجھا کہ اس نکتے کی مزید تشریح کر دی جائے تا کسی کو تاویل اور بہانے کی گنجائش ہی نہ رہے۔ اس لیے by all available means، including armed struggle لکھ دیا گیا۔ یوں گویا یہ بات کسی شک و شبہے کے بغیر اسرائیل کو بتا دی گئی کہ جس جدوجہد کا جنرل اسمبلی نے سابقہ قرارداد میں ذکر کیا تھا اس میں مسلح جدو جہد بھی شامل تھی۔ اور چونکہ یہ بات پہلے ہی شامل تھی اس لیے اسے reaffirm کیا گیا۔ کوئی نیا اصول وضع نہیں کیا گیا پہلے سے موجود اصول کی دوبارہ تصدیق کی گئی۔
اب گویا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ان دو قراردادوں کا حاصل دو چیزیں ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں قابض اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کو اپنی آزادی اورحق خود ارادیت کے لیے تمام دستیاب ذرائع کے ساتھ ہر طرح کی جدوجہد کا حق ہوگا اور اس حق میں مسلح جدوجہد بھی شامل ہوگی۔ دوسری یہ کہ فلسطینیوں کی ایسی مسلح جدوجہد کو جارحیت نہیں کہا جائے گا۔ اس قرارداد میں مزید کہا گیا کہ حق خود ارادیت، حاکمیت اعلی، آزادی اور اپنے علاقوں میں واپسی فلسطینیوں کے ناقابل تنسیخ حق ہیں۔ اسرائیل بار بار جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے اور اسرائیل کے یہ اقدامات عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
یہاں ایک اور سوال بہت اہم ہے کہ فلسطین کو مزاحمت کی ہر شکل بشمول مسلح جد و جہد کی جو اجازت اس قرارداد میں اقوام متحدہ نے دی ہے کیا اس مسلح جد و جہد میں کوئی اور ملک بھی ان کی معاونت کر سکتا ہے؟ Declaration on Principles of International Law کے آرٹیکل 1 کے مطابق جو لوگ اپنے حق خود ارادیت کے لیے مزاحمت کر رہے ہوں انہیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں سے امداد طلب کر یں اور امداد حاصل کریں۔ اسرائیل غاصب ہے اور فلسطینیوں کو مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ فلسطینیوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ اس کے باوجود ان کی نسل کشی جاری ہے۔ اس نسل کشی میں اسماعیل ہنیہ کے اہل خانہ بھی ہزاروں دیگر لوگوں کے ساتھ شہید کر دیے جاتے ہیں لیکن مسلم دنیا پر سکوت مرگ کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ میں وجہ جاننا چاہتا ہوں لیکن جان نہیں پا رہا۔ کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟