اسلامو فوبیا یا صلیبی جنگ؟
کیا ہمیں معلوم ہے کہ اس وقت کتنے برطانوی شہری اسرائیلی فوج اور انتظامیہ کا حصہ بن کر فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف ہیں؟ دنیا میں کوئی مسلمان کسی ایک ملک سے دوسرے ملک جا کر کسی لڑائی کا حصہ بنے تو اس پر شور مچ جاتا ہے کہ یہ دہشت گردی ہو رہی ہے، یہی کام جب برطانوی شہری مقبوضہ فلسطین میں جا کر کرتے ہیں تو انہیں دہشت گرد کیوں نہیں کہا جاتا؟ ان پر جنگی جرائم کا مقدمہ کیوں نہیں بنتا؟ ان پر برطانوی قوانین کیوں نہیں لاگو ہوتے؟ کیا انٹر نیشنل لاء اس کی اجازت دیتا ہے؟ نہیں دیتا تو برطانوی حکومت اپنے شہریوں کو قانون کے کٹہرے میں کیوں نہیں کھڑی کر تی اور ایف اے ٹی ایف جیسے ضابطے برطانیہ کی دہلیز پر دستک کیوں نہیں دیتے؟
برطانوی حکومت نے یوکرین کے حوالے سے تو حکم جاری کیا کہ کوئی شہری وہاں جا کر جنگ کا حصہ نہیں بن سکتا اور یہ تنبیہہ کی گئی کہ اگر کوئی ایسا کرے گا تو ملکی قانون اس پر لاگو ہوگا لیکن برطانیہ نے فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے جانے والے کسی شہری کو نہیں روکا۔ یہاں تک کہ جب برطانوی حکومت سے سوال کیا گیا کہ کیا فارن انلسٹمنٹ ایکٹ کی دفعہ چار کے تحت کوئی برطانوی شہری ایسا کر سکتا ہے تو برطانوی وزیر اینڈریو مچل کی جانب سے جواب دیا گیا کہ یہاں دفعہ چار کا اطلاق نہیں ہوتا۔
دلیل کا معیار اگر یہی ہے تو کیا کوئی اور ملک بھی ایسی ہی دلیل کا سہارا لے سکتا ہے؟ بہت سارے ممالک نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تو کیا کوئی مسلمان ملک بھی اپنے شہریوں کو فلسطینیوں کا ساتھ دینے کے لیے بھیج سکتا ہے؟ ذرا تصور کریں کہ اگر کسی مسلمان ملک سے اس کے شہری فلسطین کی مدد کو جاتے تو کیا اسے اسی طرح تسلیم کر لیا جاتا جیسے برطانوی شہریوں کی اسرائیل کی مدد کے لیے جانے کو تسلیم کر لیا گیا ہے؟ کیا اسی دلیل کی بنیاد پر او آئی سی بھی دنیا بھر کے مسلمانون سے اپیل کر سکتی ہے کہ وہ اس جنگ میں شریک ہوجائیں؟
اردن میں اس وقت بھی ساٹھ لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ یہ غزہ ا ور مغربی کنارے یعنی مقبوضہ فلسطین کی کل آبادی سے بھی زیادہ تعداد ہے۔ تو کیا ان فلسطینیوں کو بھی یہ حق نہیں دیا جانا چاہیے کہ وہ بھی جنگ میں جا کر شریک ہو جائیں۔ اسرائیل کے پڑوسی ممالک سے پھر یہ مطالبہ کس اصول کی بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بارڈر سے کسی کو نہ جانے دیں؟ یہ سوال ہر نئے دن کے ساتھ زخم کی طرح رستا رہے گا۔ گھٹن ضرور ہے مگر یہ ہمیشہ نہیں رہے گی۔
برطانیہ کے ہوم آفس منسٹر فار سیکیورٹی، ٹام ٹوڈنگاٹ نے ایک اور دلیل پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جن شہریوں کے پاس دہری شہریت ہے وہ اپنے ملک کے لیے لڑنے جا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر برطانوی یہودی اسرائیل کا شہری ہونے کی وجہ سے فلسطینیوں کا قتل عام کرنے جا سکتے ہیں تو کیا یہ سہولت صرف اسرائیل کے شہریوں کو حاصل ہے یا باقی دنیا کو بھی ہے؟ کیا شام کے شہری بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
کہیں کوئی مسلمان، کسی دوسرے ملک کسی جنگ میں شریک ہو جائے تو دنیا میں طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے، لیکن برطانوی شہری فلسطینیوں کے قتل عام میں شریک ہونے جائیں ایسے خاموشی رہتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کوئی مسلمان ایسا کام کر بیٹھے تو این جی اوز کے لشکر اتر آتے ہیں کہ اس بڑھتی ہوئی انتہا پسندی " کی وجوہات تلاش کی جائیں برطانیہ میں ابھی تک کسی نے " بڑھتی ہوئی انتہا پسندی" کی وجوہات تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
اس پر کوئی سیمینار نہیں ہوئے، مذاکرے نہیں ہوئے، ٹاک شوز نہیں ہوئے۔ یہ دہرے اصول کیوں؟ اس لیے کہ مرنے والے مسلمان ہیں اور مسلمان کے لہو کی تو سرے سے کوئی قیمت ہی نہیں۔ یروشلم کے ڈپٹی میئر برطانوی شہری ہیں۔ ایکس یعنی ٹویٹر پر ان کے خیالات اب کوئی چھپی ہوئی چیز نہیں رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی انسان نہیں، یہ انسان نما جانور بھی نہیں ہیں، یہ کیڑے مکوڑے ہیں، بلڈوزر لے کر ان کے گھر مسمار کر دینے چاہیں اور انہیں چیونیٹوں کی طرح کچل دینا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کی جو ٹیم غزہ میں جنگی جرائم پر تحقیقات کر رہی ہے کیا وہ اپنے اس شہری کو طلب کرے گی اور اس سے پوچھے گی کہ اس نے ایسا تبصرہ کیوں کیا؟ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور برطانوی شہری ان جنگ جرائم میں شمولیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حیران کن طور پر برطانوی حکومت اپنے شہریوں سے کوئی تعرض کر رہی ہے نہ کوئی تنبیہہ کر رہی ہے۔ گویا ایک طرح سے دعوت عام ہے کہ غزہ اور اس کے اطراف میں فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے جو شامل ہو نا چاہے شامل ہو جائے۔
یہ حالات و واقعات آدمی کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے اسلاموفوبیا کا نام دیا جائے یا یہ صلیبی جنگ قرار دی جائے۔ جہاں مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ہے، مغرب کی انسان دوستی اور اس کے قوانین کے معانی ومفاہیم بدل جاتے ہیں۔ شفا ہسپتال کی تباہی دنیا کے لیے اب محض دو سطری خبر ہے۔
تیس ہزار سے زاید شہادتیں بھی اب معمول کی خبر بن چکی۔ تیس ہزار مقتولین میں سے ستر فی صد خواتین اور بچے ہیں لیکن دنیا اس سے بے نیاز ہو کر خواتین کا عالمی دن مناتی رہتی ہے۔ برطانوی اقدار کا ترانہ صبح شام گایا جاتا ہے لیکن اب یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ یہ برطانوی اقدارآ خر ہیں کیا؟ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں سے کوئی المیہ لپٹا ہے یہ برطانوی اقدار ہی کی وجہ سے ہے۔
تہذیب انسانی کو جتنے گھائو برطانیہ نے دیے ہیں، شاید ہی کسی اور نے دیے ہوں۔ اس کے باوجود یہ تہذیب یافتہ اور مہذب ہیں اور مسلمان کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ تعزیر کا کوڑا جب بھی برستا ہے، مسلمانوں کی پیٹھ پر برستا ہے۔
اقوام متحدہ اور انٹر نیشنل لا لمحہ لمحہ اپنی اہمیت اور افادیت کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس بے توقیری کے اپنے منطقی نتائج ہوں گے۔ اس سے وہ سارا بندو بست بے توقیر ہوگا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا پر مسلط ہوا اور جس کی ذریعے مسلم دنیا ایک تکنیکی اور غیر محسوس محکومی میں چلی گئی۔
وقت کا موسم بدل رہاہے، پردے اٹھ رہے ہیں، لفاظی میں پروئی جھوٹ کی ہنر کاری سے تلخ حقائق سامنے آ رہے ہیں۔