انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں اسرائیل کو ایک ریاست کہا جا سکتا ہے؟
اسرائیل کی اپنی قانونی پوزیشن کیا ہے اور کیا موجودہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں اسرائیل کو ایک ریاست قرار دیا جا سکتا ہے؟ یاد رہے کہ آج کا سوال اس کے جائز یا ناجائز ریاست ہونے کا نہیں، سوال یہ ہے کہ انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں کیا اسے ایک ریاست کہا بھی جا سکتا ہے؟ باقی کی ساری بحث بعد کی ہے، بین الاقوامی قانون کی روشنی میں اس کی حیثیت کا تعین کرلینا چاہیے۔ جب تک معاملے کی مبادیات سے آگہی نہیں ہوگی، خلط مبحث کا امکان بڑھتا جائے گا۔
انٹر نیشنل لاء کے تحت ایک ریاست کے لیے کم از کم تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اول: اس کے پاس اپنا علاقہ ہو۔ دوم: اس کی سرحدیں ہوں تا کہ معلوم ہو سکے یہ ریاست کہاں سے شروع ہو رہی ہے اور کہاں ختم ہو رہی ہے۔ سوم: اس کے پاس اپنے شہری بھی ہوں۔ اگر علاقہ ہے مگر اس کی کوئی سرحد نہیں تو وہ ریاست نہیں کہلا سکتی۔ اگر علاقہ ہے، سرحد بھی ہے لیکن سرے سے کوئی شہری نہیں تو اسے بھی بین الاقوامی قانون ریاست تسلیم نہیں کرتا۔
اسرائیل کو بطور ریاست جانچنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ اس کا علاقہ یعنی اس کی زمین کہاں ہے؟ تماشا تو یہ ہوا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے محض ایک قرارداد کے ذریعے اسر ائیل نامی ملک بنا ڈالا۔ جس فلسطین کی زمین پر بنایا اس سے کسی نے پوچھنے کا تکلف ہی نہیں کیا۔ جبر دھونس اور دھاندلی سے امریکہ نے مطلوبہ ووٹ لیے اور بعد میں اس کا اعتراف بھی کیا۔ لیکن چلیں مان لیا کہ جیسا بھی تھا یہ اقوام متحدہ کا فیصلہ تھا۔ لیکن موجودہ اسرائیل تو وہ نہیں ہے جو اقوام متحدہ نے دھونس اور دھاندلی سے بنایا تھا۔
موجودہ اسرائیل تو اقوام متحدہ کے اس اسرائیل سے 72فیصد بڑا ہے اور یہ ساری زمین اس نے فلسطینیوں اور عربوں سے چھین رکھی ہے۔ اقوام متحدہ اس قبضے کو ناجائز قرار دے چکی ہے لیکن اسرائیل جو خود اقوام متحدہ کی ایک قرارداد سے قائم ہوا ہے اقوام متحدہ کی بیسیوں قراردادوں کو پامال کرکے اس علاقوں پر جانائز قابض ہے جن میں یروشلم اور مسجد اقصی بھی شامل ہیں۔ قانون کے اعتبار سے یہ آج بھی اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک کا 72 فیصد سے زائد علاقہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون کے تحت اس کا ہو ہی نہیں، وہ ریاست کی پہلی شرط کیسے پوری کر سکتا ہے۔
سابق امریکی صدر ریگن نے کہا تھا کہ اسرائیل کا علاقہ تو کہیں کہیں محض چند کلومیٹر چوڑا ہے، اس لیے اسرائیل سے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ناجائز قبضے ختم کرے۔ یہ ناجائز قبضے اس کے لیے ضروری ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کے اس موقف کی اقوام متحدہ کے چارٹر اور ضابطوں کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟
ریاست کی دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی باقاعدہ سرحد ہو۔ اسرائیل کامعاملہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی واحد ریاست ہے جس نے آج تک اپنی سرحد کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا۔ biblical lands کے تصور کے تحت اس کا یہ دعوی ہے کہ نیل سے فرات تک کا علاقہ اللہ نے اسے دے رکھا ہے اور جب تک وہ دیگر ممالک کو ہڑپ نہیں کر لیتا اس کا وجود نامکمل ہے۔۔ موشے دایان نے یروشلم پوسٹ میں شائع ہونے والے کالم میں لکھا تھاکہ "ہم اپنی ریاست کی سرحدوں کا تعین کرنے کے پابند نہیں ہیں"۔
ریاست کی تیسری شرط شہریت ہے، شہریت کا معاملہ یہ ہے کہ ملک میں موجود لوگوں کو شہری قرار دینے کی بجائے قرار دیا گیا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی یہودی ہے وہ اسرائیل کا شہری ہے۔ یعنی اسرائیل Stathood کی تینوں شرائط پوری نہیں کرتا۔
فرانس کے سابق ڈپٹی سپیکر راجر گراڈی کی کتاب"دای فائونڈنگ متھز آف اسرائیلی پالیسی"معاملے کی تفہیم میں انتہائی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ وہ کتاب تھی جس پر انہیں فرانس میں ڈھائی لاکھ فرانک جرمانہ اور قید کی سزا سنا ئی گئی تھی اور ان کی مزید اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ چنانچہ ایک وقت آیا کہ 70 سے زیادہ کتابوں کے مصنف فرانس کی پارلیمان کے سابق رکن، فرانس کی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی مجلس عاملہ کے رکن، تھیوری آف نالج پر پی ایچ ڈی کرنے والے اس نو مسلم دانشور کا کوئی اخبارمضمون تک شائع کرنے کا روادار نہیں تھا۔
گراڈی کا دعوی ہے کہ اسرائیل وہ ریاست ہے جو کسی سرحد کی قائل نہیں اور جارحیت اس کی حکمت عملی کا بنیادی اصول ہے۔ اسرائیل کے ہاں یہ بات ایک مذہبی عقیدے کا درجہ رکھتی ہے کہ نیل سے فرات تک کا علاقہ خدائے تعالی نے بنی اسرائیل کے لیے خاص کر رکھا ہے اور اب بنی اسرائیل کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اس علاقے پر قبضہ کرلیں۔ یہ بات یہود نے، حضرت موسیؑ سے غلط طور پر منسوب صحائف میں لکھ رکھی ہے۔ جدید تحقیق اگر چہ اب یہ ثابت کر چکی ہے کہ ان صحائف کا سیدنا موسیؑ سے کوئی تعلق نہیں۔ گراڈی کہتے ہیں کہ تمام صیہونی حتیٰ کہ لا ادری اور ملحدین بھی، یہ دعوی کرتے ہیں کہ فلسطین انہیں اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے۔
نیتھن ونسٹاک نے اپنی کتاب Zionism against Israel میں لکھا ہے کہ یہ ملک چونکہ اللہ کا انعام ہے اس لیے اس کے وجود کے بارے میں ہم کسی جواز کے محتاج نہیں۔ بس یہ ہمارا ہے۔ دس اگست 1967ء کے یروشلم پوسٹ میں موشے دایان کا یہ موقف بھی اہم ہے کہ اگر کوئی اپنے پاس تورات رکھتا ہے تو اس کے لیے ان تمام زمینوں پر قابض ہونا لازم ہے جن کا ذکر تورات میں ہے۔ یاد رہے کہ اسی کو Biblical Land کا تصور کہتے ہیں اور اس کے ہوتے ہوئے صرف فلسطین نہیں سارے عرب غیر محفوظ ہیں۔ اسرائیل کے ہاں بقائے باہمی نام کی کسی چیز کا وجود نہیں۔ گولڈا مائر کا سنڈے ٹائمز میں پندرہ جون 1969ء کوبڑاواضح موقف شائع ہوا کہ یہاں فلسطینی عوام نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ایسا نہیں کہ ہم آئے اور ہم نے انہیں نکال دیا۔ وہ یہاں کبھی تھے ہی نہیں۔ نیشنل جیوش فنڈکے ڈائرکٹر یوسف ویز نے اس بات کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ"یہ بات عیاں ہو جانی چاہیے یہاں عربوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے علاوہ کرنے کا کوئی کام نہیں کہ عربوں کا صفایا کر دیا جائے"۔
پروفیسر اسرائیل اسحاق اپنی کتاب The Racism and the State of Israel میں لکھتے ہیں: "ہمیں اس بات پر قائل کرنے کے لیے کہ اسرائیل سے قبل فلسطین ایک بے آباد صحرا تھا، سینکڑوں گائوں بلڈوزروں سے مسمار کر دیے گئے۔ ان کے مکان، کنویں اور قبرستان تک تباہ کر دیے گئے"۔ راجر گراڈی لکھتے ہیں: "1967 سے 1969 تک غزہ اور مغربی کنارے کے علاقے میں عربوں کے بیس ہزار گھروں کو ڈائنا مائٹ سے اڑا دیا گیا۔ فلسطینیوں کی دیہی آبادی کی یادداشت مٹانے کے لیے اورمتروک شدہ ملک کے افسانے کو سچ بنانے کے لیے عربوں کے سینکڑوں گائوں مسمار کر دیے گئے"۔
سوال وہی ہے: کیا بین الاقوامی قانون کی روشنی میں اسرائیل کو ایک ریاست کہا جا سکتا ہے؟