Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Hum Sab Inteha Pasand Hain?

Hum Sab Inteha Pasand Hain?

ہم سب انتہا پسند ہیں؟

لاہور بازار میں ایک خاتون کے ساتھ جو ہوا، یہ ہمارے سماجی بحران کا محض ایک جزو ہے، کُل نہیں ہے۔ صرف مذہبی طبقہ نہیں، اپنے اپنے دائرے میں ہم سب انتہا پسند ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ مذہبی طبقہ تو انتہا پسند ہے اور باقی کا سماج لکھنئو کے لہجے میں بات کرتا ہے تو باتوں سے خوشبو آتی ہے؟ انتہا پسندی ایک ایسا عارضہ ہے جو کسی طبقے کو نہیں، سارے معاشرے کو لاحق ہے۔ اس حقیقت کا انکار کرتے ہوئے صرف مذہبی طبقے کو ملامت کرنا بذات خود ایک انتہا پسندانہ رویہ ہے۔ کسی ایک طبقے کو سینگوں پر لے لینا مسئئلے کا حل نہیں، اصلاح احوال کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم سب اپنے اپنے شعبے میں موجود اپنے اپنے انتہا پسندوں کی حوصلہ شکنی کریں اور ان میں سے کوئی قانون کی گرفت میں آئے تو کارٹل کی صورت رد عمل دینے کی بجائے سچائی اور معقولیت کا ساتھ دیا جائے۔

یہ درست ہے کہ انتہا پسندی جب کسی مذہبی بیانیے میں ظہور کرتی ہے تو اس کی نوعیت زیادہ سنگین ہو جاتی ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ انتہا پسندی کا ذمہ دار صرف مذہبی طبقے کو ٹھہرایا جائے۔ انتہا پسندی کے عفریت کا تعلق وضع قطع اور پیرہن نہیں، یہ ایک سماجی عارضہ ہے جس کی لپیٹ میں سارا معاشرہ ہے۔ چند سال پہلے بھی لکھا تھا اور تذکیر کے طور پر ایک بار پھر وہی معروضات پیش کروں گا کہ خرابی کسی ایک گروہ میں نہیں ہے، خرابی ہم سب میں ہے۔ کیا کبھی آپ نے ٹاک شوز دیکھے۔ کیا وہاں میزبان اور مہمان کی گفتگو میں انتہا پسندی نہیں ہوتی؟

کیا یہ درست نہیں کہ مہمانوں کو لڑانے کی طرف آج بھی رجحان زیادہ ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ مہمان کا انتخاب کرتے وقت علم و مرتبے کی بجائے بد زبانی اور بد تہذیبی کو ترجیح دی جاتی ہے تا کہ ریٹنگ آ سکے۔ یہ جو سینیئر تجزیہ کار سر شام چینلز پر داد شجاعت دیتے ہیں ان میں نمایاں چیز فکر اور علم ہے یا زبان اور لہجے کی کاٹ۔ عوامی بیانیہ کس سے زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے، علم اور تدبر سے یا اس بد زبانی سے جو اپنی اور دوسروں کی عزت کے باب میں یکساں بے نیاز ہو؟

اہل سیاست جب پارلیمان میں گفتگو کرتے ہیں، جب وہ ایک دوسرے کو القابات دیتے ہیں، جب وہ کسی ٹاک شو میں کسی سیاسی حریف کے ساتھ مکالمہ فرما رہے ہوتے ہیں اور جب وہ کسی عظیم الشان جلسہ عام میں خطاب فرما رہے ہوتے ہیں تو کیا ان کا طرز گفتگو مہذب، معتدل اور شائستہ ہوتا ہے؟

جب اہل مذہب اپنے مذہبی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے یا قومی سیاست میں اپنے حریفوں کے بارے گفتگو فرماتے ہیں تو وہ کیسی ہوتی ہے؟ کیا ان کا طرز عمل اعتدال پر مبنی ہوتا ہے اور اس میں اعتدال، تہذیب اور بقائے باہمی کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اہل مذہب کا کوئی حریف ہو اور پھر اس کی حب الوطنی اور اسلام دوستی پر سوال نہ اٹھے؟

کیا اس بات کا کوئی امکان موجود ہے کہ تعلیمی اداروں میں درجن بھر انقلاب برپا کرنے کے لیے اہل سیاست نے مذہب، لسانیت اور قومیت کے عنوانات کے تحت طلباء کی شکل میں جو اپنے جتھے بنا رکھے ہیں ان میں سے کوئی ایک جتھہ کسی دوسرے جتھے کے وجود کو برداشت کر سکے؟ ادیبوں اور اہل دانش کی محفل میں کیا یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے ادیب یا اہل دانش کا ذکر چھڑے اور حاضرین محفل کی آستین نفرت اور بغض میں شمشیر بے نیام نہ بن جائے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی کسی انتہائی اعلی سیاسی اور سماجی مقصد کو لے کر ایک جلوس نکلے اور پھر یہ جلوس قانون، اخلاقیات اور تہذیب سب کو پامال نہ کر دے؟ کسی دفتر میں کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ماتحت انتہائی جائز جواز تھام کر اپنے افسر سے کسی بات پر اختلاف کرے اور پھر عبرت کا نشان نہ بنا دیا جائے؟ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ سیاسی جماعتوں میں ترجمانی کا منصب ایسے لوگوں کو کیوں دیا جاتا ہے جو شعلہ بیانی میں مہارت رکھتے ہوں اور ان کے لہجوں کے آتش فشاں کسی بھی دستار سے لپٹ جانے میں کمال کے حامل ہوں؟ ترجمانی کا منصب شائستہ، نفیس، متحمل اور معتدل لوگوں کو کیوں نہیں دیا جاتا؟

مساجد کی شناخت جب مسالک سے ہونے لگے اور منبر کا منصب قرآن و سنت کی بجائے مسلک کی ترویج میں وقف ہو جائے تو اس رویے کو کیا نام دیا جائے گا؟ جب ذرائع ابلاغ اور ان سے وابستہ اہل قلم اور اہل صحافت کسی ایک کی محبت میں حد سے گزر جائیں یا کسی دوسرے کی نفرت میں توازن کھو بیٹھیں تو اس رویے کو آپ کیا نام دیں گے؟ مذہبی طبقے کے جو سب سے بڑے ناقدین ہیں، کبھی ان روشن خیال لبرل اور سیکولر خواتین و حضرات کے رویے کو بھی دیکھ لیجیے۔ ان کے ہاں اہل مذہب کے بارے میں جو تلخی، جو نفرت، جو تضحیک اور جو تمسخر پایا جاتا ہے کیا وہ احترام باہمی، شائستگی اور تہذیب کے باب میں درج کیا جا سکتا ہے؟

دفتر میں، گھر میں، گلی میں، محلے میں، بازار میں کہیں بھی اپنے رویوں کا جائزہ لیجیے۔ جس کے پاس کسی بھی درجے میں قوت اور طاقت ہے کیا وہ اپنے سے کم تر کو کسی بھی درجے میں عزت دینے اور اس کا اختلاف رائے برداشت کرنے کا روادار ہے؟

سوشل میڈیا اب اظہار رائے کی بیٹھک ہے۔ یہاں سماج کے تمام طبقات موجود ہیں اور یہاں کا حال آپ سب کے سامنے ہے۔ تعلیم یافتہ جہالت اور انسان دوست انتہا پسندی کے مظاہر دیکھنے ہیں تو یہاں دیکھ لیجیے۔ سیاست میں کسی ایک گروہ کو برائی قرار دیتے ہوئے خود کو برتر سمجھتے ہوئے یہ مطالبہ کرنا کہ میرے علاوہ سب چور ہیں، یہ کیسا رویہ ہے؟ یہ بھلے ابتدائی درجے میں محض خود پسندی ہو یہ سیاسی فاشزم آگے چل کر انتہا پسندی ہی کو فروغ دیتا ہے اور شاید ہی کوئی سیاسی گروہ ہو جو اس آزار سے محفوظ ہو۔ یہ چند مثالیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ آپ چاہیں تو اپنے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر ان میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔

سوال اب وہی ہے کہ انتہا پسندی کیا ہوتی ہے اور ہمارے ہاں جب اسے زیر بحث لایا جاتا ہے تو اس کا عمومی عنوان مذہب کیوں ہوتا ہے؟ کیا جدید تعلیمی اداروں سے پڑھے نوجوان انتہا پسند نہیں؟ سیاسی وابستگی کے جو مجہول مظاہر ہمیں سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں اور جس جاہلانہ خود سپردگی سے اپنے اپنے جتھے کی ہر حرکت کا دفاع کیا جاتا ہے کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟ سیاسی مخالفت پر کسی کو یہودی ایجنٹ بنا دیا یا کسی کو مودی کا یار قرار دے ڈالنا کیا ایک انتہا پسندانہ رویہ نہیں؟ علاقائیت اور قومیت کی بنیاد پر جتھے بنا کر نفرت کو پرچم بنا لینا کیا انتہا پسندی نہیں ہے؟ تاہم اس اعتراف کا مطلب مذہبی انتہا پسندی کا جواز پیش کرنا نہیں صرف یہ عرض کرناہے کہ بحران اس سے کہیں زیادہ شدید، سنگین اور ہمہ جہت ہے۔ ہم سب اس کی لپیٹ میں ہیں۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan