حامد میر، سراج الحق اور سینیٹر مشتاق
برادر محترم جناب حامد میر نے سادہ سی ایک شرط رکھی ہے، سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت کے پاس خفیف سی مسکراہٹ کے علاوہ کوئی جواب ہے؟
میں نے یہ منظر ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا۔ یہ غالبا کوئی سیمینار تھا۔ حامد میرکسی مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں اس کا حل یہ ہے تو ساتھ بیٹھے جناب سراج الحق گوشی کرتے ہیں : حل صرف جماعت اسلامی۔ حامد میر بھی مسکرائے اور کہا: آپ سب سینیٹر مشتاق احمد جیسے ہو جائیں تو ہم سب یہ بھی کہہ دیں گے کہ حل صرف جماعت اسلامی۔۔ ا س کے ساتھ ہی یہ ویڈیو کلپ ختم ہوگیا اور یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جناب سراج الحق اور میاں اسلم صاحب میں سے کسی نے اس کا جواب دیا یا تجاہل صالحانہ میں سب نے خاموشی اوڑھ لی کہ ہم بہو بیٹیاں کیا جانیں حامد میر کیسی کیسی غیر شرعی باتیں کر رہے ہیں۔
کارکنان کے اخلاص اور جذبے میں یقینا کوئی کمی نہیں ہوگی لیکن حل صرف جماعت اسلامی کا نعرہ ایک میٹھی سی خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اس نعرے کی واحد افادیت یہ ہے کہ یہ مہنگائی کے ستائے لوگوں کے چہروں پر پل بھر کومسکراہٹ لے آتا ہے۔ وہ اپنی ساری پریشانیاں بھول کر ہنس پڑتے ہیں۔
جو نکتہ حامد میر نے اٹھایا ہے یہی سوال ہر زبان پر ہے۔ زیادہ وقت نہیں لگے گا، یہ سوال ایک آسیب بن کر جماعت اسلامی کے وجود سے چمٹ جائے گا۔ یہ اطاعت امیر کا طوق ہو یا لاہوری گروپ کے کاروباری مفادات، اس سوال سے اب زیادہ دیر فرار اختیار کرنا ممکن نہیں رہے گا کہ اگر کراچی جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن جیسی قیادت دے سکتی ہے، اگر گوادر کی بستی سے مولانا ہدایت الرحمن جیسی قیادت سامنے آ سکتی ہے اور اگر کے پی کا ایک سینیٹر مشتاق احمد پارلیمانی فعالیت کی مثال بن کر سامنے آ سکتا ہے تو جماعت اسلامی کی لاہوری اور مرکزی قیادت کی سیاست غیر فقاریہ کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ یہ اہلیت کا مسئلہ ہے یا یہی مطلوب و مقصود ہے؟
سینیٹر مشتاق احمد کسی ٹارزن یا سپر مین کا نام نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ان کی مثالیں دی جاتی ہیں، پارلیمان کی راہ داریوں میں اور کیفے ٹیریا میں دیگر سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمان بھی سینیٹر مشتاق کی تعریفیں کرتے پائے جاتے ہیں۔ پارلیمان کے اندر یہ عالم ہے کہ انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ایک حقیقی پارلیمنٹیرین کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ وہ لایعنی اقوال زریں نہیں سناتے، وہ ایک واضح اور ٹھوس موقف کے ساتھ بروئے کار آتے ہیں۔ تنہا آدمی ظاہر ہے کہ ایوان میں قانون سازی کو نہیں روک سکتا لیکن اس اکیلے آدمی نے پارلیمان میں وہ قرض بھی اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ میں کسی جذباتی کیفیت کا شکار ہو کر نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر لکھ رہا ہوں کہ پارلیمان میں زیادہ نہیں سینیٹر مشتاق جیسے دس پندرہ لوگ ہوں تو پارلیمان کی کارکردگی اور معیار کا عالم ہی کچھ اور ہو۔
یہی وہ پس منظر ہے کہ حامد میر صاحب کو کہنا پڑا کہ آپ سب سینیٹر مشتاق جیسے ہو جائیں تو ہم سب کہہ دیں گے: حل صرف جماعت اسلامی۔ سینیٹر مشتاق جیسا ہونے کا مگر یہ مطلب نہیں کہ آپ سب بھی سینیٹر مشتاق کی طرح ٹریل فائیو پر واک شروع کر دیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس تندہی، یکسوئی، تحرک اور عزم سے سینیٹر مشتاق اپنا کام کر رہے ہیں اگر آپ بھی کارروائیاں ڈالنا چھوڑ دیں اور ویسا ہی کام شروع کر دیں تو پھر کسی کو اس باب میں کوئی تامل نہیں ہوگا کہ وہ کہہ دے: حل صرف جماعت اسلامی۔
سید مودودی جیسی جلیل القدر علمی شخصیت کے سیاسی ورثاء کا آج حال یہ ہے کہ مرکزی قیادت کتابیں لکھ رہی ہے تو ان کا موضوع علم و فکر نہیں، شخصی خاکے ہیں اور پبلک ریلیشننگ کی بوجھل کاوش۔ امیر جماعت ہیں تو قومی سیاست میں ان کا کوئی بیانیہ ہی نہیں، صرف چند اقوال زریں ہیں۔ جیسے این جی او سال کے اختتام تک کچھ پروگرام کرکے کارروائیاں ڈالتی ہے ویسے ہی مرکزی سطح پر کچھ ہومیوپیتھک سی کارروائیاں جماعت اسلامی بھی ڈال دیتی ہے تاکہ باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی۔
کارکنان کے وسائل اور توانائیوں کے اس سوئے استعمال پر سوائے جماعت کی قیادت کے، سب کو خوف آنے لگا ہے۔ ایسے میں ضرورت سے زیادہ سادہ لوح کارکنان اور جماعت اسلامی پر جنم جنم سے قابض پراپرٹی اور تعلیم کا کاروبار کرنے والے حضرات تو حل صرف جماعت اسلامی کا نعرہ لگا سکتے ہیں کیونکہ ان کی کاروباری سلطنت کی بنیاد ہی جماعت اسلامی کی نیک نامی اور نظم کے اوپر رکھی گئی ہے اور وہ اپنے کارپوریٹ مفادات میں جماعت اسلامی کا نام استعمال کر رہے ہیں اور ریٹائر ہونے کا نام ہی نہیں لیتے لیکن اس پرائیویٹ لمیٹڈ قسم کے بندوبست کے ساتھ باقی لوگوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بھی حل صرف جماعت اسلامی کے رجز پڑھنا شروع کردیں۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ سید مودودی نے جب جماعت کا دستوری خاکہ وضع کیا تھا تو ان کے ذہن میں یہی تھا کہ جماعت کے وابستگان کے تقوی اور دیانت کا عالم بھی ان جیسا ہوگا۔ حقیقت مگر اس سے مختلف ہے۔ اب یہاں کاروباری مفادات کا بوجھ بھی جماعت کی پشت پر رکھا ہے اور کارکنان اپنے اخلاص میں یہ بوجھ بھی اٹھائے پھرتے ہیں کہ اسی وزن کی برکت سے انقلاب آئے گا۔ یہ پورا دستوری بندوبست تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ذمہ داری لینے کے بعد بظاہر تو وہی دعا ہوتی ہے اللہ راہ حق میں استقامت عطا فرمائے لیکن اس راہ حق میں اب بہت ساروں کے مالی مفادات اور کاروبار، بھی کھڑے ہیں۔
شروع شروع میں، میرا خیال یہ تھا کہ جماعت اسلامی کی عدم فعالیت کی ذمہ دار لاہور کی قیادت ہے۔ لاہور کی قیادت کے بارے آج بھی مجھے یہی حسن ظن، ہے کہ یہ اصل میں چیمبر آف کامرس یا پرائیویٹ لمیٹڈ قسم کا ایک حسن انتظام ہے جس نے جماعت اسلامی کوگھائل کر دیا ہے لیکن اب میں سوچتا ہوں کیا اس سب کی ذمہ دار صرف لاہور کی قیادت ہے؟ کیا امیر جماعت اسلامی اپنا کردار اسی طرح ادا کر رہے ہیں جیسے کرنا چاہیے؟
ظاہر ہے جماعت اسلامی کے اطاعت امیر، میں جکڑے شعور ی بندوبست میں ایسا سوال اٹھانا نہ صرف گستاخی ہے بلکہ شدید قسم کی گستاخی ہے جو کسی درجے میں یہودو ہنود کی سازش بھی قرار پا سکتی ہے۔ لیکن جب آپ صالحین کے دائرے سے نکل کر عام انسانوں یعنی گناہ گاروں سے حل صرف جماعت اسلامی کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ آگے سے پوچھتے ہیں کہ آپ سب سینیٹر مشتاق احمد جیسے کیوں نہیں بن جاتے؟ اس کا جواب جماعت اسلامی ہی دے سکتی ہے جس کے سوشل میڈیا ونگ نے سینیٹر مشتاق احمد کی سرگرمیوں کا غیر محسوس طریقے سے بائیکاٹ سا کر رکھا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اس ہنر کاری کی کسی کو خبر نہیں ہو رہی ہوگی۔
حامد میر صاحب نے جو نکتہ اٹھایا ہے، اس میں جہان معنی ہے۔ صالحین کا پرائیویٹ لمیٹڈ کاروباری بندوبست مگر اس سے بہت بد مزہ ہوا ہوگا۔