Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Bharti Supreme Court Ka Nazriya Hindutva

Bharti Supreme Court Ka Nazriya Hindutva

بھارتی سپریم کورٹ کا نظریہ ہندتوا

بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کے حوالے سے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اہل علم اس پر مضامین باندھ رہے ہیں جب کہ میرے جیسے طالب علم کی رائے آج بھی وہی ہے کہ بھارت، بھارت کا آئین، اس آئین کا آرٹیکل 370 یا پھر بھارت کی سپریم(ـ ہندتوا) کورٹ سب ہمارے لیے غیر اہم ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی ہمارا پوائنٹ آف ریفرنس نہ کبھی تھا، نہ ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات میں نے اس وقت بھی لکھی جب پاکستان کی پارلیمان نے اپنی قرارداد میں غیر ضروری طور پر آرٹیکل 370 کا ذکر کیا اور یہ بات میں بعد میں بھی تواتر کے ساتھ لکھتا رہا کہ کشمیر کا مقدمہ بھارت کے آئین کے کسی آرٹیکل کی تقدیس کا مقدمہ نہیں ہے نہ ہی یہ بھارتی قانون اور بھارتی آئین کے مطابق لڑا جائے گا اور نہ ہی ہمارے لیے اس سارے معاملے میں بھارتی سپریم کورٹ کی کوئی حیثیت ہے۔

جو لوگ اس معاملے کو بھارتی سپریم کورٹ لے گئے، دستیاب آپشنز میں انہوں نے درست قدم اٹھایا کہ انہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔ لیکن پاکستان کا معاملہ الگ ہے۔ پاکستان کے لیے آرٹیکل 370 کی نہ اس وقت کوئی حیثیت تھی جب یہ نافذہوا نہ اس وقت کوئی حیثیت تھی جب یہ پامال ہوا۔ کشمیر کا مقدمہ بھارتی آئین کا محتاج نہیں ہے، نہ ہی یہ بھارت کی سپریم کورٹ کا محتاج ہے۔ یہ مقدمہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت نہیں لڑا جائے گا یہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور حق خود ارادیت کے آفاقی اصول کے تحت لڑا جائے گا۔ یہی بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل 68 سال پہلے 30 مارچ 1951ء کو اور پھر نومبر 1956ء کو کہہ چکی ہے۔

آرٹیکل 370 کی حیثیت ہی کیا تھی؟ یہ تو شیخ عبد اللہ کی کشمیر فروشی کی ایک معمولی سی قیمت تھی جو بھارت نے ادا کی اور وقت بدلنے پر اسے واپس لے لیا۔ کشمیر کی قانونی حیثیت اس آرٹیکل سے کبھی مشروط تھی ہی نہیں۔

اس واردات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے کشمیر پر قبضے کے تیسرے سال مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا تا کہ ایک "آئین ساز اسمبلی" وجود میں آئے جو مقبوضہ کشمیر کا آئین تیار کرے۔ شیخ عبد اللہ نے الیکشن سے قبل ہی یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم جب جیت کر اسمبلی میں آئیں گے تو ہم بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیں گے اور اس اسمبلی کا یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا استعمال سمجھا جائے گا۔

اس دوران معاملہ سلامتی کونسل پہنچ گیا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں جو حق خود ارادیت کا ذکر کیا گیا کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئندہ قائم ہونے والی اسمبلی ایک فیصلہ کر دے اور اس فیصلے کو کشمیریوں کو حق خود ارادیت سمجھ لیا جائے؟

30 مارچ 1951ء کو سلامتی کونسل نے اس کا جواب ایک قرار داد کی شکل میں دیا اور کہا کہ کوئی آئین ساز اسمبلی کوئی اجلاس کرتی ہے اور اس میں وہ کشمیر یا اس کے کسی حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق حق خود ارادیت کا استعمال نہیں سمجھا جائے گا۔

ان انتخابات کا ٹرن آئوٹ صرف 5 فی صد تھا۔ بھارت نواز نیشنل کانفرنس نے 75 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور مضحکہ خیزی دیکھیے کہ 73 نشستوں پر یہ کامیابی بلامقابلہ تھی۔ اس نام نہاد اسمبلی نے اکتوبر 1956ء میں یہ فیصلہ کر دیا کہ: "کشمیر بھارت کااٹوٹ انگ ہے اور ہمیشہ بھارت کا اٹوٹ انگ رہے گا"۔ اس کشمیر فروشی کے جواب میں بھارت نے شیخ عبد اللہ کو آرٹیکل 370 کا لولی پاپ تھما دیا۔ اب بھارت اپنا لولی پاپ واپس لے چکا ہے اور بھارت نواز کشمیر فروش قیادت اب گھروں میں قید ہے۔

اس واردات کے بعد معاملہ پھر سلامتی کونسل جا پہنچا۔ نومبر 1956ء میں سلامتی کونسل نے پھر ایک قرارداد کی صورت میں بڑے واضح طور پر قرار دے دیا کہ ایسی کوئی اسمبلی کشمیر یا اس کے کسی حصے کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے اقوام متحدہ کے اصولوں اور قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کا متبادل نہیں سمجھا جائے گا۔

آرٹیکل 370 کے ہونے سے کشمیر کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق پڑا نہ ہی اس کے ختم ہونے سے۔ کشمیر اگر انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں ایک حل طلب متنازعہ مسئلہ تھا تو یہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل ختم ہوگیا تو اب کشمیر کی حیثیت بھی ختم ہوگئی۔ کشمیر کی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادیں کرتی ہیں اور ان قراردادوں کے بارے میں سلامتی کونسل نے 1996ء میں یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ جب تک پاکستان اور بھارت دونوں اتفاق نہیں کریں گے تب تک یہ قراردادیں سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود رہیں گی۔

جو مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہو اسے بھارتی آئین میں ترمیم کرکے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے۔ "ویانا کنونشن آن دی لاء آف ٹریٹیز"کے آرٹیکل 34 کے مطابق دو فریق ایک معاہدہ کر لیں تو تیسرا فریق اس کا پابند نہیں ہے۔ یعنی مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی اور بھارت آپس میں کوئی معاملہ کر لیں تو نہ اقوام متحدہ اس کی پابند ہے نہ ہی پاکستان۔ اور یاد رہے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر کا عنوان "پاکستان اور بھارت کا تنازعہ" ہے۔ جب تک اقوام متحدہ کی ہدایات اور طے کردہ اصولوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کا اظہار نہیں ہوتا تب تک ایسے کسی بھی مشکوک فیصلے کی انٹر نیشنل لاء میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔

آرٹیکل 370 کو زیر بحث ضرور آ نا چاہیے۔ اس پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی لازمی طور پر بات ہونی چاہیے لیکن اس گفتگو کا تناظر اور اس کا محور درست ہونا چاہیے۔ یعنی مسئلہ یہ نہیں کہ ایک آرٹیکل 370 ہوتا تھا جس کی حرمت مودی اور بھارتی سپریم کورٹ نے پامال کی۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے کشمیر یوں کو حق خودرادیت دے رکھا ہے اور یہ آفاقی اصول ہے۔ اس کی نفی نہ کسی کشمیر فروش کو آرٹیکل 370 کا لولی پاپ دے کر کی جا سکتی ہے نہ اس کووقت پڑنے پر پامال کرکے اور نہ ہی بھارتی سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اس کے چارٹر کو پامال کرتے ہوئے کسی ایسے بندوبست کی توثیق کر دے جو کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے محروم کرتا ہو۔

اقوام متحدہ کے ضابطوں اور انٹر نیشنل لاء کے مطابق کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ مقبوضہ علاقہ ہے۔ کشمیر کے مستقبل کا تعین نہ بھارت کی حکومت کر سکتی ہے نہ بھارت کی سپریم کورٹ۔ یہ فیصلہ صرف اور صرف کشمیر کے عوام نے کرنا ہے۔ اور یہ فیصلہ بھارت کے زیر اہتمام کسی انتخابی ڈرامے سے نہیں ہوگا۔ یہ فیصلہ استصواب رائے سے ہوگا جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوگا۔

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar