بھارت جنوبی ایشیا کا اسرائیل بنتا جا رہا ہے
بھارت جنوبی ایشیا کا اسرائیل بننے جا رہا ہے۔ صہیونی ریاست کے ساتھ ہندتوا ریاست کی مماثلت بہت زیادہ ہے۔ یہ مماثلت فکری بھی ہے اور عملی بھی۔ سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری حکمت عملی کیا ہے؟
ہندتوا کے فکری خدوخال وہی ہیں جو صہیونی ریاست کے ہیں۔ صہیونی ریاست کے فکری خدوخال دو خود ساختہ تصورات پر استوار ہیں۔ پہلا یہ کہ یہودی اللہ کے چنے ہوئے لوگ ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ نے اپنے ان چنے ہوئے لوگوں کو نیل سے فرات تک کا سارا علاقہ و دیعت کر رکھا ہے۔ چنانچہ اسرائیل میں یہ بات عقیدے کی حد تک راسخ ہے کہ اگر آپ یہودی ہیں تو تورات میں جن جن زمینوں کا ذکر ہے ان ان زمینوں پر آپ کا اور صرف آپ کا حق ہے۔ فرانس کے سابق ڈپٹی سپیکر راجر گراڈی اپنی کتاب فاونڈنگ متھس آف اسرائیلی فارن پالیسی میں لکھتے ہیں کہ صرف مذہبی یہودیوں یاصہیونیوں کا یہ عقیدہ نہیں، اسرائیل کے اندر ملحد قسم کے یہودیبھی اس تصور پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ اس کو biblical lands کا تصور کہا جاتا ہے۔ اس تصور کے سامنے وہ کسی چیز کوماننے کو تیار نہیں۔ نہ اقوام متحدہ کو نہ اقوام متحدہ کے کسی انٹر نیشنل لاء کو۔
اسی نقش قدم پر بھارت چل رہا ہے۔ بھارت کا اکھنڈ بھارت کا تصور صہیونیت کے biblical lands کے تصور سے ملتا جلتا ہے۔ بھارت کا بھی دعوی ہے کہ خطے کے ممالک کا وجود قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ سارا خطہ بھارت ماتا ہے اور ماتا کی تقسیم گوارا نہیں۔ جس طرح صہیونیت کے biblical lands کے تصور پر اسرائیل نے سرکاری طور پر مہر تصدیق ثبت کر رکھی ہے اور یہ کسی جنونی یا نیم پاگل ربی کی ذہنی اختراع نہیں ہے اسی طرح بھارت ماتا کا یہ تصور بھی محض سنگھ پریوار کا تصور نہیں بلکہ بھارتی ریاست اس کی سرپرستی کر رہی ہے۔ جزوی سا فرق صرف طریقہ واردات کا ہے، جوہری طور پر یہ ایک جیسی فسطائیت ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت نے حال ہی میں جب پارلیمان کی نئی عمارت کا افتتاح کیا تو اس میں بھارت کی موجودہ ریاست کے نقشے کی بجائے اکھنڈ بھارت کا نقشہ آویزاں کیا اور پورے پاکستان، پورے بنگلہ دیش، پورے نیپال، پورے میانمر اور ایک تہائی افغانستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔ یہ نقشہ اسرائیلی پارلیمان میں آویزاں اس نقشے کی طرح کی واردات تھی جس میں نیل سے فرات تک کے علاقے پر اسرائیلی ملکیت کا دعوی کیا گیا ہے۔
صہیونیت کے biblical lands کے تصور اور ہندو فاشزم کے اکھنڈ بھارت دونوں ممالک کی اس فسطائیت کو دونوں ممالک کے تصور کو ہر دو ممالک میں سرکاری سرپرستی حاصل ہے اوردونوں نے اپنے اپنے تصورات کو پارلیمان میں آویزاں کر رکھا ہے۔
دنیا میں دو بڑے تنازعات ہیں، ایک فلسطین اور دوسرا کشمیر۔ دونوں میں مظلوم مسلمان ہیں۔ دونوں میں انٹر نیشنل لا مظلوم کے ساتھ ہے لیکن دونوں پرغاصب قوتیں انٹر نیشنل لا کو خاطر میں نہیں لا رہیں اور دونوں میں اقوام متحدہ بے بس ہے اور دونوں تنازعات برطانیہ کے پیدا کر دہ ہیں۔ ہم اگر چیزوں کو مغرب کی بجائے اپنی آنکھ سے دیکھنے لگیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ اتفا ق نہیں ہے۔
اسرائیل بھی مقبوضہ جات پر قابض ہے اور بھارت بھی۔ حیدرآ باد اور جونا گڑھ کی ریاستیں باقاعدہ پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر چکی تھیں مگر بھارت نے قبضہ کر لیا اور اسرائیل ان علاقوں میں جا گھسا جو اقوام متحدہ نے واضح طور پر فلسطین کا علاقہ قرار دے رکھا تھا۔
اسرائیل فلسطینی مقبوضہ جات میں جو پالیسیاں متعارف کرا چکا اب بھارت انہی پالیسیوں کو کشمیر میں لاگو کر رہا ہے۔ بالکل اسی صہیونی انداز سے۔ اسرائیل نے ایک منصوبہ بندی سے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی زمینیں ہتھیائیں اور اب بھارت اسی فارمولے کو لے کر کشمیر میں زمینوں پر قبضے کر رہا ہے۔ دونوں جگہ پر زمینوں پر قبضے کا پیٹرن دیکھا جائے توصاف معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اسرائیلی پالیسی کو کشمیر میں لاگو کر چکا ہے۔
امریکہ سے انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی تین زبانوں میں شائع ہونے والے فلسطین کرانیکل کی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو جنوبی ایشیاء کا فلسطین، بنا دیا گیا ہے۔ جس طریقے سے فلسطین میں اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے کیے، انہیں بے دخل کیا، ان سے زمینیں چھینیں، شہریت کے قوانین کے ذریعے ان کا استحصال کیا، انہیں در بدر کرکے بکھیر دیا، ان کی جائیدادیں ہتھیا لیں، نوآبادیاتی طرز پر ریاستی زمین کے اصول کے نام پر انہیں اپنی ہی سر زمین پر محکوم بنا دیا، بالکل اسی طرح اسی طرز پر بھارت کشمیر میں اسرائیلی فار مولے کے تحت اس کی مشاور ت اور اعانت سے کشمیریوں پر ظلم کر رہا ہے۔ چنانچہ اس واردات کے تناظر میں فلسطین کرانیکل نے مقبوضہ کشمیر کو جنوبی ایشیاء کا فلسطین، قرار دیا۔
پچھلے چند سالوں میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور ریاستی زمین پر قبضے کرنے کے لیے قانون سازی کی آڑ میں ایسی خوفناک جارحیت کی ہے، جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ سوائے مقبوضہ فلسطین کے جہاں اسرائیل بھی اسی طرز فسطائیت کو لے کر چل رہا ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ بھارتی قانون سازی کا یہ رجحان بھی اسرائیلی خطوط پر کھڑا ہے اور اس کی مشاورت بھی اسرائیل سے کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں سری نگر کی شیر کشمیر یونیورسٹی میں اسرائیلی وفد کا دورہ اس سلسلے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اگر چہ اس دورے کی شان نزول تو یہ بیان کی گئی کہ یہ وادی میں زراعت کے امکانات کے فروغ کے سلسلے میں کی جانے والی کاوشوں کا حصہ ہے لیکن اس واردات کی حقیقت بھارت کے امریکہ میں تعینات ڈپلومیٹ نے بیان کر دی ہے۔ الجزیرہ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ بھارت اسرائیل کے ساتھ مل کر ویسٹ بنک فارمولے، کے تحت کام کر رہا ہے۔ یعنی جس طریقے سے فلسطین کے مغربی کنارے میں اسرائیل نے فلسطینیوں سے زمین چھین کر آباد کاری کی، اسی طرح اب بھارت اور اسرائل مل کر مقبوضہ کشمیر میں اسی فارمولے کے تحت مسلمانوں کے ساتھ کرنے جا رہے ہیں۔ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ بھارت نے اپنے حاضرسروس سفارتکار کے اس بیان کی تردید تک نہیں کی۔
اب بھارت اسرائیلائزیشن کے اگلے مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے اور جس طرح اسرائیل نے مشرق وسطی میں مختلف اوقات میں مختلف ممالک کی سلامتی کو روندتے ہوئے وہاں حملے کیے، ٹارگٹ کلنگ کی بالکل اسی طرز پر اب بھارت بھی دوسرے ممالک میں ٹارگٹ کلنگ کر رہا ہے۔ پاکستان میں بیس کے قریب ایسے واقعات بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں بھارت نے ٹارگٹ کلنگ کی۔ بھارت یہ کام کینیڈا میں بھی کر چکا ہے اور اس کا ایسا ہی ایک حملہ امریکہ میں نروقت ناکام بنایا جا چکا ہے۔ بھارت کے عزائم بہت واضح ہیں۔ وہ خطے کا سرائیل بننا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا فیصلہ کیا ہے؟