عام انتخابات
آج انتخابی معرکہ ہو رہا ہے۔ شیر، تیر، کتاب، ترازو سب میدان میں ہیں لیکن بلا نہیں ہے۔ سوچتا ہوں کہ تحریک انصاف نے عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد جو مسلسل غلطیاں کیں اگر وہ نہ کرتی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتی تو کیا وہ اس کھائی میں گرتی جس میں اب وہ گری پڑی ہے؟
ان غلط فیصلوں پر ان سطور میں اس وقت بھی تنقید کی گئی تھی اور جواب میں گالیاں کھائی گئی تھیں، تذکیر کے طور پر یہ غلطیاں ایک بار پھر سامنے رکھ رہا ہوں۔
عدم اعتماد کے بعد اس کی پہلی بڑی غلطی ایوان سے مستعفی ہونا تھا۔ یہ غیر سیاسی فیصلہ تھا اور بصیرت کا اس میں کہیں کوئی عمل دخل نہ تھا۔ یہ ایوان میں رہتے تو قائد حزب اختلاف ان کا ہوتا۔ قائد حزب اختلاف ان کا ہوتا تو اس منصب پر راجہ ریاض صاحب نہ ہوتے۔ قائد حزب اختلاف اور وزیر اعظم نے ہی مل کر نگران وزیر اعظم کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایوان میں موجود ہوتے تو نگران حکومت ان کی مشاورت کے بغیر نہ بن پاتی اور جو آہ و بکا یہ بعد میں کرتے رہے اس سے بچ جاتے۔
جب عدم اعتماد کے بعد اسمبلیوں سے استعفے دے دیے گئے تو گویا پارلیمانی سیاست میں اپنے آپ کو خود ہی بے دست و پا کر دیا گیا۔ فیصلہ سازی کے عمل سے خود کو خود ہی باہر کر لیا۔ جس نے تنقید کی کہ یہ ایک غلط فیصلہ ہے، اسے گالیاں دی گئیں اور دلوائی گئیں کہ یہ بغض کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ دلیل بس ایک ہی تھی کہ جو خان کرتا ہے وہی حق ہے۔ پرویز الہی جیسے حلیفوں نے بار ہا انہیں بتایا کہ اسمبلیوں سے استعفے اچھا آپشن نہیں ہے لیکن کون تھا جو ان کی سنتا؟
ان کا دوسرا غلط فیصلہ مسلسل احتجاج اور ہیجان کی سیاست تھا۔ سب کو نظر آ رہا تھا کہ اس احتجاجی سیاست سے اب اکتاہٹ پیدا ہو رہی ہے اور مسلسل احتجاج سے معاملہ تحریک انصاف بمقابلہ پی ڈی ایم نہیں بلکہ تحریک انصاف بمقابلہ معیشت بنتا جا رہا ہے۔ معیشت سیاسی استحکام کی طالب تھی اور یہ مسلسل ہیجان کی سیاست پر مائل تھے۔ ہم جیسے طالب علموں نے لکھا کہ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا لیکن کسی نے ما ن کر نہیں دیا۔ نتیجہ سامنے ہے۔
عدم اعتماد سیاست کا حصہ ہوتاہے۔ کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑی تھی۔ سیاست امکانات کا کھیل ہے اور امکانات موجود تھے۔ لیکن یہ حیران کن محاذ آرائی پر مائل تھے۔ یہ فیصلہ ہر گز سیاسی نہ تھا۔ اس کے محرکات کچھ اور تھے۔ حالات بھی تب تک زیادہ ناسازگار نہ تھے۔ حکمت سے واپسی کے راستے اب بھی نکل سکتے تھے۔ سپریم کورٹ نے ڈی چوک آنے سے روکا تو گویا کال واپس لینے کی گنجائش مل چکی تھی لیکن اس کے باوجود عمران خان احتجاجی قافلہ لے کر وہاں پہنچ گئے۔ عدالت میں توہین عدالت کا معاملہ آیا تو عدالت نے کہ کیا معلوم عمران خان کو ہمارے فیصلے کا پتا ہی نہ ہو۔ اس سے بڑی گنجائش شاید ہی کسی کو ملی ہو۔ یہ بھی مقام تھا تھم جانے کامگر سونامی کی شدت بڑھتی ہی گئی۔
سیاسی رہنمائوں کی گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ گرفتاریاں ہوتی ہیں تو ضمانتیں بھی ہو جاتی ہیں ن لیکن عمران کی گرفتاری کو موت و حیات کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ کہا گیا انہیں گرفتار کیا گیا تو قتل کر دیا جائے گا۔ گویا اس بیانیے کے ذریعے کارکنان کو ایک عجیب سی نفسیات کا اسیر کر دیا گیا۔ اس کا منطقی نتیجہ نو مئی کے واقعات کی شکل میں نکلا۔ نتیجہ سامنے ہے۔
پنجاب حکومت توڑنے کا فیصلہ بھی سیاسی غلطی تھی۔ اس کے مضمرات بھی تحریک انصاف کو بھگتنا پڑے۔ ان سارے مقامات پر اگر سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا جاتا تو صورت حال یکسر مختلف ہو سکتی تھی۔ لیکن تحریک انصاف اپنے ہی سونامی میں ڈوب گئی۔ جیسے کوئی درویش اپنے ہی عشق میں صرف ہو جائے یا برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ آئے۔ اس پر عروج آیا تو ایسے آیا کہ کوئی زوال کبھی آنا ہی نہیں اور ان پر زوال برسا ہے تو ایسے برسا ہے جیسے عروج کبھی تھا ہی نہیں۔
تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کی طرح فیصلے نہ کر سکی۔ قیادت پیپلز پارٹی سے آئے وکیلوں کو دے دی۔ وکالت بھی انہی کو دی جو کبھی ایان علی کے وکیل تھے۔ اچھی بھلی جماعت تھی، افسوس اسے درویش کا تصرف بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک مقبول قومی سیاسی جماعت جس کے ساتھ بہت سارے نوجوانوں کا رومان لپٹا ہے، غیر ضروری مہم جوئی کی وجہ سے برف کی صورت دھوپ میں رکھی ہے۔ افغان شاعر امیر جان صبوری یاد آتے ہیں:
شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی
جام خالی، سفرہ خالی، ساغرو پیمانہ خالی
کوچ کردہ، دستہ دستہ، آشنایاں، عندلیباں
باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی
تحریک انصاف کا باغ بھی سونا ہو رہا ہے، رستے کوچے سب خالی ہو رہے ہی۔ باغچہ خالی ہوتا جا رہا ہے۔ ساتھی کوچ کرتے جا رہے ہیں۔ بلبلیں اڑتی جا رہی ہیں۔ دوست دوستوں کو چھوڑ رہے ہیں۔ موسیقاروں نے ساز رکھ دیے ہیں۔ طبیب بیمار کو دیکھنے سے ڈرتا ہے، مسافر رستوں سے خوف زدہ ہیں۔ سر بکھیرنے والے تار بکھر گئے۔ آشنا نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ ویرانے کے پتھروں کی ریت سر میں آ رکی ہے۔ دریا سست چشمے خشک اور سونامی نڈھال ہو چکا۔
سروے بتا رہے ہیں کہ زمینی حقیقتوں کے آگے تحریک انصاف کی مقبولیت سمٹ رہی ہے۔ آئی آر آئی ایس کے سروے کے مطابق تحریک انصاف کی مقبولیت 43 فیصد سے کم ہو کر 35 فی صد رہ گئی ہے۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت نے سیاسی بصیرت سے کام لیا ہوتا اور ہیجان اور تصادم ہی کو اپنی پالیسی نہ بنایا ہوتا تو مقبولیت کا گراف کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہوتا۔ سیاسی غلطیوں کی بہر حال ایک قیمت ہوتی ہے، جو ادا کرنا پڑتی ہے۔
سیاست میں اتار چڑھائو آتا ہے۔ قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کارکنان کو ریاستی قوت سے ٹکرائے بغیر اپنی حکمت عملی سے راستے نکالے۔ سیاست اسی لیے کی جاتی ہے کہ معاملات ٹکراو کے بغیر حل ہوں۔ تحریک انصاف نے اپنے کارکنان کو ٹکراو پر مائل کیا اور اب اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ خمیازہ بھی کارکنان ہی بھگت رہے ہیں قیادت تو سو سو کنال کے گھروں میں ہائوس اریسٹ، ہوئی پڑی ہے یا جیل میں ان سہولیات سے مستفید ہو رہی ہے جو عام قیدی کو کبھی زندگی بھر دستیاب نہیں ہو سکتیں۔
تحریک انصاف کی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ حل اگر الیکشن ہی تھا تو کیا الیکشن اس سے بہتر پوزیشن میں نہیں لڑا جا سکتاتھا؟ کیا یہ ضروری تھا کہ ہر وقت احتجاج اور غصے کی سیاست کی جاتی؟ تھوڑا سا توازن ہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ یہ اب بھی مختلف ہو سکتی ہے مگر ا س کا راستہ سیاست ہی ہے۔ اور کوئی حل نہیں۔