ویل چیئر سے منصب صدارت تک
انسانی تاریخ کے اوراق میں کئی نڈر، بے باک، بلند حوصلہ، باہمت، اور عزم و استقلال کے پیکر کرداروں کے نام سنہری حروف میں درج ہیں جنہوں نے معروضی حالات اور ذاتی زندگی کے مسائل کو اپنے عزائم کے راستے میں دیوار بننے دیا نہ ہی جسمانی معذوری ان کی کامیابی میں رکاوٹ ڈال سکی۔ بلکہ وہ عزم واستقلال کا استعارہ بن کر اپنے عظیم مقاصد کی تکمیل اور بڑے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں مسلسل مصروف عمل رہے۔
وہ اپنے مشکل حالات اور ذاتی زندگی کے صبر آزما مسائل سے نہیں گھبرا ئے بلکہ مثالی قوت ارادی اور عمل پیہم کی صداقت پر پختہ یقین ان کا رخت سفر ٹھہرا۔ راستے کی مشکلات اور مسائل ان کے مصمم ارادوں میں لغزش لا سکے نہ ہی ان کی نگاہوں سے کبھی ان کی منزلیں اوجھل ہو ئیں۔ امریکہ کی قومی تاریخ میں ایسا ہی ایک منفرد کردار موجود ہے جس نے اپنے قابل تقلید کردار اور سحر انگیز شخصیت کے بل بوتے پر چار مسلسل صدارتی انتخابات جیت کر امریکی سیاست کا دھارا بدل دیا اور وہ امریکی عوام کی آنکھوں کا تارا بن کر ان کے دلوں پر راج کرتا رہا۔
یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس تاریخ ساز کردار یعنی فرینکلن ڈیلینو روزویلٹ جو عرف عام میں ایف ڈی آر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وہ 1921 میں صرف انتالیس برس کی عمر میں پولیو کے مرض میں مبتلا ہو کر اپنی ٹانگوں سے معذور ہوگیا اور ویل چیئر تک محدود ہوگیا۔ مگر وہ اپنے عظیم مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل آگے بڑھتا رہا اور ڈیموکریٹک پارٹی میں بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کرکے نیویارک کا گورنر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ مگر یہ محض اس کے لمبے سفر کا نکتہ آغاز تھا۔ اس کی نگاہیں واشنگٹن ڈی سی میں واقع مسند صدارت پر ہمہ وقت مرکوز رہتی تھیں اور وہ بطور امریکی صدر کچھ بڑے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بے تاب تھا۔
1932 کے صدارتی انتخابات میں وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے طور پر میدان عمل میں اس شان سے اترا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ امریکی عوام کو اپنی مقناطیسی شخصیت کے حصار میں جکڑ نے لگا۔ وہ مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرنے لگا تو الیکشن سے قبل ہی اس کی کامیابی یقینی نظر آنے لگی۔ اس نے اپنے مدمقابل امیدوار ہربرٹ ہوور، جو بطور صدر اپنی دوسری اننگز کھیلنے کے لیے میدان میں اترا تھا، کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔
اس کی خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ ہربرٹ ہوور اپنے دور صدارت میں امریکی عوام کی خدمت کے لئے کوئی خاطر خواہ کار ہائے نمایاں انجام دینے میں ناکام رہا بلکہ جب 1929 میں گریٹ ڈپریشن نے امریکی معیشت کو اپنے شکنجوں میں جکڑنا شروع کیا تو اس نے کسی بھی ٹھوس اور مربوط حکمت عملی اپنانے کی بجائے اسے ایک عالمی مسئلہ قرار دے دیا اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے پہلو تہی کی۔
جب بھی صحافی اس کی توجہ اس ابھرتے ہوئے سنگین معاشی بحران کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کرتے تو وہ ہمیشہ ایک صبح پرنور کی نوید سناتے ہوئے معاشی خوشحالی کے اک نئے دور کی یقین دہانی کرانے لگتا۔ مگر وہ روشن صبح کبھی نہیں آئی اور اس کے عہد صدارت کے آخری دو سالوں میں امریکی تاریخ کا سب سے بڑا معاشی بحران پیدا ہوگیا اور گریٹ ڈپریشن امریکی سرحدوں سے نکل کر پوری عالمی معیشت کو تباہ کرنے پر تل گیا۔
جہاں یہ خوفناک معاشی بحران ہربرٹ ہوور کی سیاسی موت کا استعارہ بنا وہیں اس کرائسز نے ایف ڈی روزویلٹ کی کامیابی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ ہوور صرف بلند بانگ دعوے، سیاسی وعدے اور نعرے لگا کر تساہل پسند واقع ہوا تو روزویلٹ نے اس کے برعکس گریٹ ڈپریشن سے نپٹنے کے لیے ایک منظم، مربوط اور ٹھوس پروگرام ترتیب دیا اور اپنے پہلے صدارتی خطاب میں اس نے امریکی عوام کو خوف کے بت توڑ کر اک نئے جوش و ولولے سے زندگی شروع کرنے کے لئے للکارا۔
اس نے وعدہ کیا کہ وہ محض سو دنوں میں امریکی عوام کو گریٹ ڈپریشن کی معاشی دلدل سے نکال کر خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ پھر اس نے عملی طور پر اسے کر دکھایا۔ اپنے معروف پروگرام نیوڈیل کے ذریعے اس نے وسیع پیمانے پر قومی تعمیر وترقی کے بڑے منصوبے شروع کرنے کے لئے کانگریس سے قانون سازی کروائی اور مطلوبہ وسائل کی دستیابی کو یقینی بنایا۔
شمالی علاقہ جات میں ڈیمز کی تعمیر شروع ہوئی تو میدانی علاقوں میں زراعت کے فروغ کیلئے اقدامات کئے گئے جبکہ غیر آباد رقبہ پر درختوں کی کاشت کو عملی شکل دینے کے لیے منصوبے شروع کئے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرکے ان کی قوت خرید کو بحال کرنا تھا تاکہ معاشی جمود میں تحریک پیدا کی جا سکے اور یوں امریکی معیشت کو دوبارہ مضبوط خطوط پر استوار کیا جاسکے۔ نیو ڈیل کی شاندار کارکردگی نے روزویلٹ کے لیے 1936 کے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے راستے ہموار کردیئے۔
یوں دوسری مرتبہ پھر اس کے لیے امریکی صدارت کی مسند توقیر سجا دی گئی۔ اس کے بعد دوسری عالمی جنگ کے سائے گہرے ہوتے گئے اور امریکہ دوسرے مغربی ممالک کی قیادت سنبھالنے کے بعد ہٹلر کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ آرائی کے لئے پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترا اور بالآخر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور ایک مرتبہ پھر روز ویلٹ مقدر کا سکندر ثابت ہوا۔ دوران جنگ منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں روزویلٹ پھر امریکی صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوا اور 1940 میں تین مسلسل الیکشن جیت کر امریکی سیاست میں نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔
وہ اپنے بلند عزائم اور عظیم مقاصد میں لگا تار کامیابیاں سمیٹنے کے باعث امریکی عوام میں اس قدر مقبول ہوگیا تھا کہ 1944 میں وہ ایک مرتبہ پھر انتخابات جیت کر چوتھی بار صدر منتخب ہونے والا پہلا سیاستدان بن گیا۔ اس کے بعد قانون کے ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر روزویلٹ اسی تسلسل سے الیکشن میں حصہ لیتا رہا تو وہ تا دم حیات منتخب ہوتا رہے گا۔ لہذا اس کا راستہ روکنے کے لیے امریکی آئین میں بائیسویں ترمیم لانے کا فیصلہ کیا گیا جو 1951 میں منظور کر لی گئی جس کے نتیجے میں امریکی صدر صرف دو مرتبہ ہی منتخب ہوا جا سکتا تھا۔
ویل چیئر سے منصب صدارت تک پہنچنے والے ایف ڈی روزویلٹ 12 اپریل 1945 کو اچانک موت کے منہ میں چلے گئے اور اس عہد ساز شخصیت کی بے وقت وفات نے امریکی عوام کو گہرے رنج وغم میں مبتلا کر دیا۔ مگر اپنے عظیم مقاصد میں کامیاب ہو کر روزویلٹ امریکی تاریخ وسیاست میں ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے کیونکہ ایسے منفرد کردار موت وحیات کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔