تقریروں کی حد تک!
جب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھی کھوکھر برادران جو لاہورمیں وسیع جائیدادوں کے مالک ہیں کے گھر کھوکھر پیلس کو گرانے کے لیے ایل ڈی اے اور پولیس نے یلغارکی، وزیراعظم عمران خان کے ذہن پر "قبضہ مافیا" سوار ہے۔ مسلم لیگ)ن(پر کرپشن کے الزامات اپنی جگہ اب اس جماعت کو سرکاری و نجی زمینوں پر قبضے کرنے والوں کا سرپرست قرار دیا ہے۔ وزیراعظم کے مطابق ن لیگ اور قبضہ مافیا ایک ہی ہیں، پنجاب میں دس بڑے گروپ ہیں جنہوں نے سرکاری زمینوں پر قبضے کیے ہیں۔
خان صاحب کا یہ پرانا ورد بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے کہ چوروں، ڈاکوئوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں ان کو تقریریں کرنے کی خاصی پریکٹس ہوگئی ہے اور اکثر دن میں کئی کئی تقریبات سے خطاب بھی کرتے ہیں، اس میں کوئی حرج بھی نہیں کہ وہ اپنے ارشادات کے ذریعے عوام کو نکتہ نگاہ سے آگاہ کریں۔ تاہم ایک ہی بات کو بارہا دہرانے سے اس کا اثر زائل ہونے لگتا ہے، ان کی مختلف تقاریر کا اگر جائزہ لیا جائے تو وزیراعظم کے عمومی طور پر نظریات کی نشاند ہی ہوتی ہے۔ تین روز قبل ہی ڈیمز کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جس میں چیئرمین واپڈا جنرل (ر) مزمل حسین بھی موجود تھے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے ایک بہت بڑا المیہ ہوا کہ پاکستان میں رائج جمہوری نظام میں ہر پانچ سال بعد جو انتخابات ہوتے ہیں ان کی وجہ سے طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں ہوئی، کوئی قوم طویل مدتی منصوبہ بندی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی اور چین میں اگلے دس بیس سال کا پتہ ہوتا ہے۔ یعنی بلاواسطہ طور پر وزیراعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ مغربی جمہوریت کا یہ نظام ترقی کی راہ میں حائل ہوتا ہے اورحکمرانوں کو انتخابات کی فکر نہ ہو تو یکسوئی سے عوام کی فلاح و بہبود اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دے سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو پاکستان میں تو تین فوجی آمروں جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف نے دس دس برس یا اس سے کچھ زائد ہی حکومت کی۔ ایوب خان نے تو اپنے ترقیاتی کارناموں کا "اصلاحات کی دہائی " کا جشن بھی منایا تھا لیکن پاکستان کو اس کا یہ تاوان ادا کرنا پڑا کہ ملک ہی دو لخت ہو گیا۔
خان صاحب اکثر بلاواسطہ طور پر ایوب خان کی پالیسیوں کو اچھا قرار دیتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں ایلیٹ کا نسبتاً بڑا طبقہ ہے جو سمجھتا ہے کہ آمریت کے ادوار میں ہی ترقی ہو سکتی ہے۔ شایدخان صاحب کا بھی نکتہ نگاہ ایسے ہی نظام کو پسند کرتا ہے۔ ویسے یہ فطری ہے کہ جمہوریت کے ذریعے حکمرانوں پرچیک اینڈ بیلنس اور جوابدہی کا عمل اکثر حکمرانوں کو نہیں بھاتا۔ میاں نواز شریف بھی اسی لیے اسلام کے نام پر ایسا نظام لانا چاہتے تھے جس میں کوئی جواب دہی نہ ہو اور نہ ہی اپوزیشن کو پوچھ گچھ کا حق حاصل ہو۔ خان صاحب کے بھی ڈھائی سال یہ واکھیان دینے میں لگ گئے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے جارہے ہیں اور اس کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ نیز یہ کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، گورننس نہیں، نہ ہی وہ جمہوری اداروں کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے پیشرو کئی وزرائے اعظم سویلین بالادستی قائم کرنے کے "شوق فضول" میں اقتدار سے ہاتھ دھو چکے ہیں بلکہ ایک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تو سولی بھی چڑھ چکے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ترجمان ابھی تک اس صدمے سے نہیں نکل سکے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔ پہلے تو یہ الزام لگایا گیا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ ماضی کی حکومتوں کےادوار میں کرپشن بڑھنے کی نشاندہی کر رہی ہے، لیکن بعد میں جب یہ وضاحت کی گئی کہ یہ تمام انڈیکیٹرز 2018 کے بعد پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے مختلف رپورٹس اور فیڈبیک پر مشتمل ہیں اور ان میں سے تمام رپورٹس 2018ئکے بعد کی ہیں، لہذا ٹرانسپیرنسی کی تازہ رپورٹ کو نواز شریف کی حکومت کے سر منڈنا خلاف واقعہ ہے۔
وطن عزیز میں کرپشن کا کیا حال ہے اس کا اندازہ وزیراعظم کے اس تازہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے خیبرپختونخوااسمبلی کے بیس ارکان کو سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں پانچ پانچ کروڑ روپے رشوت دی گئی اور اب بھی ریٹ لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ شاید اسی لیے ان کی حکومت سپریم کورٹ اور اب آئینی ترمیم کے ذریعے چاہتی ہے کہ سینیٹ کے اگلے ماہ ہونے والے انتخابات خفیہ بیلٹ کے بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں۔ اپوزیشن اس تجویز کی بھرپور مخالفت کر رہی ہے۔
اس صورتحال میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ خان صاحب کو اپنے ہی ارکان اسمبلی پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ خفیہ بیلٹ میں کیا گل کھلائیں گے۔ یقیناً سیاست، معاشرے اور حکومت میں کرپشن سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن اس کے خاتمے کے لیے ہذیانی کیفیت طاری کرنے اور قوم کو تقسیم کرنے کے بجائے اکٹھے لے کر چلنا چاہیے۔ مزید برآں جب تک اقتصادی پالیسیوں کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے اور ملک میں مجموعی طور پر اقتصادی ترقی نہیں ہوگی محض تقریریں کرنے سے کرپشن کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔
وزیراعظم اور ان کے ساتھی قبضہ گروپوں کا تو بہت ذکر کرتے ہیں لیکن یہ تو حکومت کا کام ہے کہ ایسے عناصر کی بیخ کنی کریں کہ انہیں سرکاری یا کسی شہری کی املاک پر قبضہ کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اسی طرح عوام کے مال کے علاوہ ان کی جان کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ریاست کے فرائض منصبی میں شامل ہے لیکن یہاں تو قانون کی حکمرانی صرف تقریروں کی حد تک ہی محدود ہوتی جا رہی ہے اور زمینی صورتحال تشویشناک حد تک زوال پذیر ہے۔