تلخی میں وقفہ!
غالبا ً آصف زرداری سے مولانا فضل الر حمن کی اپیل پرکہ بچوں کی لڑا ئی بند کر ائیں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پا رٹی کے درمیان بیان با زی میں تلخی کم ہو ئی ہے بلکہ یوں کہنا چا ہیے کہ بلا ول بھٹو اور مر یم نواز کے درمیان منہ ما ری میں کچھ توقف آیا ہے۔ مولا نا کے علا وہ بی این پی مینگل گروپ کے سربراہ اختر مینگل نے بھی بلاول ہاؤس میں ملاقات میں آصف زرداری سے اپیل کی کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ معاملا ت درست کر یں۔ مر یم نو از نے بھی یہ کہہ کر سیا سی انتقام کا فی ہو چکا اب ایک دوسر ے سے مل کر چلنا ہے، صلح کا ہا تھ بڑ ھا یا ہے اور کہا کہ ان کا بلا ول بھٹو سے کو ئی اختلا ف نہیں تا ہم یہ تسلیم کیا کہ ان کی پا رٹی اور پیپلزپا رٹی اگر چہ پی ڈی ایم کا حصہ ہیں لیکن سیا سی حکمت عملی الگ الگ ہے۔ دوسر ی طرف وزیر اعظم عمران خان کورونا کی وجہ سے صاحب فرا ش ہیں جس کے باعث پی ٹی آ ئی کے تر جمانوں کی فو ج ظفر موج کو باس سے گا ئیڈ لا ئن نہیں مل رہی تھی لیکن جمعرات کو وزیر اعظم نے قرنطینہ میں ہی اپنی میڈیا ٹیم کا اجلاس طلب کر لیا اور ایک تصویر جاری کی گئی جس میں وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ شبلی فراز کے علاوہ وزیر برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری، سینیٹر فیصل جاوید سمیت 6 افراد موجود ہیں۔ اس تصویر پرعوام نے سوشل میڈیا پر کافی تنقید کی ہے، وہ یہ کہنے پر حق بجانب ہیں کہ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت۔ اگرچہ وزیر اعظم کے قرنطینہ کے دوران بعض حکومتی ترجمان قدرے خاموش ہیں تا ہم یہ بات فردوس عاشق اعوان کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی، وہ پنجاب کی مشیر اطلاعات ہیں، انہوں نے مسلم لیگ (ن) پر ہر محاذ پر اٹیک کر نے کاکام اپنے"ناتواں " کند ھوں پر اٹھا یا ہو ا ہے۔ وہ مریم نو از کے پیچھے پڑ ی رہتی ہیں اور انہیں راج کما ری کے لقب سے پکارتی ہیں۔
چند ما ہ کی شد ید محاذ آرا ئی کے بعد اچانک سیاست میں کچھ جمو د طاری ہونے لگا ہے جو کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے، فی الحال تو معاملا ت ٹھنڈے ہیں۔ پی ڈی ایم یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ کی نشست جیتنے کے بعد سیا سی طور پر عرو ج پر پہنچ گئی تھی، قومی اسمبلی میں پی ٹی آ ئی اور اس کے حلیفوں کی اکثر یت ہونے کے باوجود یوسف گیلا نی اپنے مد مقابل مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو شکست دے کر میلہ لو ٹ کر لے گئے جس کے بعد یہ قیا س آرائیاں عامہونے لگیں اگر سینیٹ الیکشن جیت سکتے ہیں تو حکومت کے خلا ف وفا ق اور پنجاب میں تحر یک عدم اعتماد کیوں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اپوزیشن اپنی کامیا بی پر پھو لے نہ سما رہی تھی کہ سینیٹ کی چیئر مین شپ کی سیٹ پریو سف گیلا نی کی صادق سنجرانی کے ہاتھوں شکست نے اس کی ساری پھو ک نکال دی، سا تھ ہی پیپلز پا رٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت بالخصوص بلاول بھٹو اورمر یم نو از کے درمیان مخالفانہ بیان با زی کے پس منظر میں یہ سوال بر ملا پو چھے جانے لگے کہ اگر پی ڈی ایم کی دوبڑ ی جما عتیں بیچ چورا ہے بھا نڈا پھوڑر ہی ہیں تو اپوزیشن کے الا ئنس کا کیا مقصد رہ جاتا ہے۔ پی ڈی ایم کے سربر اہی اجلاس میں آصف زرداری کے ویڈیو لنک کے ذ ریعے خطاب سے اپو زیشن اتحاد میں شگاف بڑے واضح ہو گئے۔ پیپلزپارٹی تو استعفوں کی سیا ست سے یکسر منکر ہو گئی ہے، بقول بلا ول بھٹو لانگ ما رچ کا فیصلہ ہوا تھا جس کے لیے پیپلز پا رٹی نے تمام تیا ریاں کر رکھی تھیں لیکن اچانک جے یو آ ئی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے استعفوں کا شوشہ چھوڑدیا گیا۔ مولانا تواس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے تو لانگ ما رچ کی کامیا بی کو استعفوں سے مشروط کر دیا۔ آ صف زرداری جو پہلے ہی میاں نواز شر یف پر کامل اعتماد نہیں کر تے، ا س میں مسلم لیگ (ن) کی سیا ست گر ی کی بو آ ئی۔ غالبا ً میاں صا حب وفاق اور پنجاب میں پیپلز پا رٹی کی عدم اعتماد کی تحر یک لانے کی اس لیے حمایت نہیں کرتے کہ طاقتور حلقے انہیں کسی صورت اقتدار میں نہیں آ نے دینگے لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکمت عملی اختیا ر کرنا بلا واسطہ طور پر پیپلز پارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار کر نے کے مترادف ہو گا۔ اگر چہ مسلم لیگ (ن) کے پیپلز پا رٹی کے بارے میں تحفظات با ہمی مذاکرات سے حل ہوسکتے ہیں لیکن فریقین ایک دوسر ے کے ماضی کے تجر بوں سے اتنے متنفر ہیں کہ کھلم کھلا مخالفانہ بیان با زی سے پی ڈی ایم کو خا صا نقصان پہنچا چکے ہیں۔
اسلا م آباد ہا ئیکورٹ کی جانب سے یو سف رضا گیلانی کی چیئر مین شپ کے انتخاب کو کا لعدم قرار دینے کی استد عا کو مسترد کر نا اپوزیشن کیلئے ایک دھچکاہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ہم پا رلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے، پیپلز پا رٹی کہتی ہے کہ اسے اکثر یت حاصل ہے تو وہ عد م اعتماد کر کے اپنا چیئر مین منتخب کرالے۔ اپو زیشن کی صفوں میں عدم اتفاق حکومتی تر جمانوں کے لیے توکسی حد تک اطمینان کا با عث ہو گا تا ہم پی ٹی آ ئی کے لیے بھی سیاسی طور پر صورتحال اچھی نظر نہیں آ تی۔ آ ئی ایم ایف سے پچاس کروڑ ڈالر کی دوسر ی قسط کی منظوری حکومت کے لیے خوش آ ئند ہو گی، تاہم اس کے لیے جو بھا ری قیمت ادا کر نا پڑ ے گی وہ ایک الگ قصہ ہے۔ اس حوالے سے اپو زیشن نے کھلم کھلا آ ئی ایم ایف کی فرما ئش پر سٹیٹ بینک آ ف پاکستان کوآزاد وخود مختار بنانے کے قانون کی پارلیمنٹ میں بھرپور مخالفت کر نے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے علا وہ بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضا فہ اور رو زمر ہ استعمال کی اشیاء کے نرخ مسلسل بڑھنا کو ئی نیک شگون نہیں ہے اور اب سپر یم کورٹ کی طرف سے پنجاب میں بلدیا تی نظام کی بحالی بھی حکومت کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کر ے گی۔
دوسری طرف نیب نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی لاہور میں گزشتہ روز کی پیشی ملتوی کردی۔ نیب کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ چونکہ ملک میں کورونا کی وبا پھیل رہی ہے اور مریم نواز کارکنوں کے ہمراہ آنا چاہتی تھیں لہٰذا یہ پیشی ملتوی کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ مریم نواز نے اس حاضری سے قبل لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی تھی۔ بعض ناقدین اور اپوزیشن کا کہنا ہے کہ نیب نے مریم نواز کی گرفتاری کیلئے یہ ڈرامہ رچایا، جب نیب کا مقصد ہی پورا نہیں ہونا تھا اس نے پیشی ملتوی ہی کرنی تھی۔ بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہا "نیب ایک پولیٹیکل انجینئرنگ کا ادارہ ہے، جو عمران خان کے کہنے پر چلتا ہے اور اسے جب مدد درکار ہوتی ہے وہ آجاتا ہے، نیب کے پیچھے اصل چہرہ عمران خان اور اس کی جعلی حکومت کا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر یہ پیشی کورونا کی وجہ سے ملتوی کی گئی ہے تو پھر آج "سلیکٹڈ"کورونا میں مبتلا ہونے پر ایک اجلاس کر رہا تھا تو سب سے پہلے وہاں کریک ڈاؤن ہونا چاہیے"۔ مریم نواز کی تنقید اپنی جگہ لیکن وزیراعظم سمیت تمام افراد جو کورونا جیسی موذی مرض میں مبتلا ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحت یابی عطا فرمائے۔