تبدیلی نظر نہیں آ رہی
پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکمران جماعت کے درمیان تلخی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے توپوں کا رخ آصف زرداری، انکے صاحبزادے بلاول بھٹو اور ہمشیرہ فریال تالپور کی طرف کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف سے بھی گولہ باری جاری ہے۔ ادھر آل پارٹیزکانفرنس کا بھی بہت چرچا ہے۔ جمعہ کو آصف زرداری نے اپنا کورنٹین اور چپ کا روزہ توڑتے ہوئے جے یو آئی )ف(کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انھوں نے کافی تلخ باتیں بھی کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) مل کر ملک کی بقا اور استحکام کے لیے جدوجہد کر یں گی۔ ان کے درمیان اس نکتے پر اتفاق رائے تھا کہ پاکستان اور عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت اکٹھے نہیں چل سکتے۔ اسی طرح کا بیان ہی کئی دہائی پہلے اس وقت کی اپوزیشن کے رہنما خان عبدالولی خان نے دیاتھا کہ پاکستان اور بھٹو اکٹھے نہیں چل سکتے۔ اس ملاقات کے اگلے ہی روز علی زیدی صاحب نے ایک دھماکہ خیز ویڈیو بیان جاری کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت جلد زرداری اور ان کے گروہ کو بے نقاب کر دیں گے۔
اس بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کے ماحول میں مسلم لیگ (ن )کی قیادت شیر قالین بنی ہوئی ہے۔ شہباز شریف نے پہلے نواز شریف کی تیمارداری کو جواز بنا کر چار ماہ لندن کی سیر کی پھر وہ مارچ میں بقول انکے "بھائی جان "کے حکم پر پاکستان واپس آئے۔ نہ جانے اْن کو کیا مشن سونپا گیا تھا کہ ایک دو مرتبہ قومی اسمبلی میں تقریر کرنے کے بعد وہ ماڈل ٹائون میں اپنی اقامت گاہ پر ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ پہلے تو یہ جواز بنا کر کہ وہ کینسر کے مریض ہیں لہٰذا کورونا وبا کے دوران انہیں بہت زیادہ احتیاط کرنی ہے ماسوائے نیب کی ایک پیشی بھگتنے کے وہ گھر سے نہیں نکلے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اْن کو کورونا ہو گیا ہے لہٰذا وہ کورنٹین میں ہیں اوراللہ کے فضل سے اب صحتیاب ہوگئے ہیں لیکن جب گزشتہ ہفتے بلاول بھٹو لاہور آئے تووہ کورنٹین میں ہی تھے لہٰذا ان کی مسلم لیگ )ن( کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے ملاقات نہ ہوسکی۔
بلاول بھٹو قومی اسمبلی کے باہر بھی گرج رہے ہیں اور حکومت پر کاری وار کر رہے ہیں مسلم لیگ (ن)نے یہ فریضہ پارلیمانی پارٹی کے لیڈر خواجہ آصف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو سونپ دیا ہے اور وہ حکومت پر کھل کرتنقید کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رویے میں واضح فرق ہے۔ شہباز شریف نے کبھی اس بات کو نہیں چھپایا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے تال میل رکھتے اور ٹھنڈی کر کے کھانے کے حامی ہیں۔ ماضی بعید میں میاں نواز شریف کی بھی یہی سیاست تھی لیکن اب وہ انقلابی بن چکے ہیں اور سونے پر سہاگہ ان کی صاحبزادی مریم نواز ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل شہباز شریف کا سب سے بڑا امتحان یہ تھا کہ وہ نواز شریف کو خاموش کر ائیں لیکن وہ ڈلیورنہ کر سکے۔ ویسے تو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے نام قرعہ فال نکل چکا تھا لیکن بقول ناقدین پھر بھی برادر خورد کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ بھائی جان کو چپ کا روزہ رکھوائیں۔ وہ اپنے مشن میں اس حد تک کامیاب بھی ہوئے کہ نواز شریف کو لندن بھجوانے میں پس پردہ ان کا اہم کردار تھا۔ اب میاں صاحب بھی خاموش ہیں اور ان کی صاحبزادی بھی۔ نیز وہ اس وقت تک وطن واپس نہیں لوٹیں گے جب تک خان صاحب کا سنگھاسن ڈول نہ جائے یا کوئی اور بڑی تبدیلی نہ آجائے۔ شاید شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ وقت آئے گا تو ان کی تاجپوشی کردی جائے گی لیکن یہ امید موہوم ہی ہے کیونکہ شہباز شریف کے ایک فعال وزیراعلیٰ ہونے میں کوئی شک نہیں اور اس حوالے سے ان کا ریکارڈ بہت درخشاں ہے لیکن منی لانڈرنگ کے حوالے سے نیب کے مختلف کیسز کے ذریعے ان کے برانڈ کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس تناظر میں شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی اے پی سی کے بارے میں نیم دروں نیم بروں پالیسی قابل فہم ہے تاہم جدوجہد کیے اور تکلیف اٹھائے بغیر انہیں وزارت عظمیٰ کی ٹرافی ملنے کا امکان نہیں ہے، گھر بیٹھے ان کی کوئی تاجپوشی نہیں کرے گا۔ عمران خان نے مبینہ طور پر تیسرے امپائر کی حمایت سے ہی سہی چھ ماہ تک کنٹینر پر چڑھ کر جدوجہد کی، اگر وہ گھر بیٹھ جاتے تو نام نہاد خلائی مخلوق ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شہباز شریف اس لیے نسبتاً خاموش ہیں کہ اس وقت حکومت اپنی ناکامیوں، وعدوں کی عدم تکمیل اور خراب کارکردگی کی بنا پر خود ہی اپنے بوجھ تلے دب رہی ہے، یہ ایک نکتہ نگاہ ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں فوجی قیادت اور سویلین حکومت کے درمیان جتنا اچھا تال میل آج ہے شاید پہلے کبھی نہ ہو۔ فی الحال اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ حکومت کی خراب کارکردگی کی بنا پر مقتدر حلقے خان صاحب کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیں گے۔ ایسے حالات میں اے پی سی کے انعقاد کے کیا مقاصد ہیں یہ شاید اپوزیشن پر بھی پوری طرح واضح نہیں۔ مولانا فضل الرحمنٰ تو اس لحاظ سے محروم سیاست ہیں کہ وہ خود پارلیمنٹ میں نہیں ہیں ان کی جلد بازی سمجھ سے بالاتر نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ موجودہ حکومت کا جنازہ پڑا ہے جسے کوئی دفنا نہیں رہا اور اس کے دفنانے میں جتنی دیر کریں گے اتنا ہی تعفن پھیلے گا۔ دوسری طرف انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ اپوزیشن اگر عوام کو سڑکوں پر لے آئی تو میلہ کوئی اور لوٹ کر لے جائے گا۔"مائنس ون "فارمولے کا بھی بہت چرچا ہوا لیکن اب شہباز شریف بھی جو اس کے حامی اور موید تھے اس کا نام نہیں لیتے کیونکہ مائنس ون کا مطلب پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ ہوگا کیونکہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کسی اور کی قیادت میں متحد نہیں ہونگے۔ جہاں تک چودھری برادران کا تعلق ہے وہ تمام گلے شکوئوں کے باوجود پی ٹی آئی کے اتحادی رہیں گے کیونکہ ان کی سیاست تو ہے ہی اسٹیبلشمنٹ کے تابع۔ دیکھا جائے تو بی این پی (مینگل ) کے جانے کے بعد نہ تو کوئی اتحادی اِدھر اْدھر ہوگا اور نہ تحریک انصاف کے ناراض ارکان جن کی تعداد بقول راجہ ریاض بائیس ہے وہ بھی اس تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ لہٰذا حکومت کی تبدیلی صرف عام انتخابات کے انعقاد سے ہی ہوسکتی ہے، اے پی سی سے نہیں لیکن اس وقت جبکہ وطن عزیز کورونا کی وبا سے نبردآزما ہے عام انتخابات یا تحریک چلانے کے لیے مناسب وقت نہیں۔ لہٰذا دیوار سے لگی اپوزیشن کے لیے کوئی فوری نجات کا راستہ نظر نہیں آتا۔