سینٹ ٹکٹوں پر حکمران جماعت میں گھڑمس
سینٹ انتخابات خواہ وزیر اعظم عمران خان کی خواہش کے مطابق اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں یا پرانے خفیہ رائے شماری کے طریقہ کار کے ذریعے، کانٹے کے مقابلے کی توقع ہے۔ یہ خبر خاصی دلچسپ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جو 2018ء کے عام انتخابات میں ملتان سے قومی اسمبلی کی نشست پر شکست کھا گئے تھے کو اسلام آباد کی سینٹ کی جنرل نشست پر میدان میں اتارا ہے، ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار وزیر خزانہ حفیظ شیخ ہیں، بعض اطلاعات کے مطابق حفیظ شیخ پر پی ٹی آئی کے بعض ارکان اسمبلی میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ عامر لیاقت نے سینٹ الیکشن میں حفیظ شیخ کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے، انہوں نے کہا حفیظ شیخ میری جماعت کے نہیں، پہلے جماعت میں آئیں، حلف اٹھائیں اور کچھ ماہ پارٹی میں گزاریں پھر وہ میرے ووٹ کے حقدار ہو ں گے۔
دوسری طرف فیصل واوڈا جو اسلام آباد ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں دوہری شہریت کے بارے میں پیشیاں بھگت رہے ہیں، انہیں بھی سندھ سے سینٹ کی ٹکٹ دیدی گئی ہے۔ فیصل واوڈا نے جب پچھلے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، مبینہ طور پر ان کے پاس امریکہ کی شہریتبھی تھی، شہریت نہ ہونے کی وہ ابھی تک کوئی دستاویزپیش نہیں کر سکے اور الیکشن کمیشن نے نااہلی کیس میں باربار التوا مانگنے پر واوڈا پر 50 ہزار روپے جرمانہعائد کردیا تھا۔ فیصل واوڈا بیرون ملک اربوں کی جائیدادوں کے مالک بتائے جاتے ہیں۔ مخالفین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ بھی خان صاحب کی اے ٹی ایم ہیں۔ فیصل واوڈا کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی خاصی تنقید کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ انہیں سینٹ میں ایک دبنگ آواز کی ضرورت ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ انہیں سینٹ کا ٹکٹ اس لیے دیا گیا تاکہ انہیں اس مقدمے سے بچایا جا سکے۔ مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ فیصل واوڈا کو ٹکٹ دینے کی وجہ سادہ سی ہے کیونکہ ان کے خلاف دوہری شہریت کامقدمہ بہت مضبوط ہے، اگر انہیں دبنگ آواز ہی چاہیے تھی تو ایسے اور بھی بہت لوگ ہیں اور فیصل واوڈا تو وفاقی وزیر ہیں یہ ہر روز سینٹ میں بیٹھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ انصاف کے دوہرے معیار ہیں۔ فواد چودھری کا کہنا تھا واوڈا کو ٹکٹ دینے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے خلاف دوہری شہریت کے کیس کی تاریخ سے متعلق جو ابہام ہے اسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے تاکہ وہ اپنی وزارت پر توجہ دے سکیں۔
ادھر حکمران جماعت پی ٹی آئی نے گزشتہ روز سے سامنے آنے والی تنقید کے بعد بلوچستان سے سینٹ کے لیے امیدوار عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے کر ظہور آغا کو جاری کر دیا، لیکن کہا جا رہا ہے کہ ظہور آغا کی بنی گالہ میں دھرنے پر شوکاز کے ساتھ بنیادی رکنیت معطل کی گئی تھی۔ پی ٹی آئی خیبرپختونخوانے نجیب اللہ خٹک، سندھ کی تنظیم نے فیصل واوڈا اور سیف اللہ ابڑو کی نامزدگی پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ سیف اللہ ابڑو پر الزامات ہیں کہ وہ نیب زدہ اور آصف علی زرداری کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی طرفہ تماشہ ہے کہ سیاست میں اخلاقیات اور شفافیت کے دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن عمل یکسر مختلف ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ واوڈا صاحب جب تک اپنے خلاف دوہری شہریت کا الزام ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن سے کلیئر نہیں کرا لیتے انہیں سینٹ کے الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ موصوف کون سی ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جن کے سینیٹر بنے بغیر سینٹ کاکام بند ہو جائے گا۔
پی ٹی آئی خصوصاً وزیر اعظم عمران خان جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور ناراض ارکان اسمبلی کو منانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال وزیر اعظم سے پی ٹی آئی کے ناراض رکن پنجاب اسمبلی خرم لغاری کی ملاقات ہے۔ وزیراعظم نے خرم لغاری کو حلقے کے مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی جس پر خرم لغاری نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان اور سابق سینئر صوبائی وزیر عاطف خان کے درمیان اختلافات بھی دور ہو گئے ہیں۔ اس صلح میں بنیادی کردار گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان کا ہے۔ صلح کے بعد دونوں رہنماؤں کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی جس میں اکٹھے چلنے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم سے خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی جنید اکبر، نور عالم خان، ارباب امیر ایوب، شیر علی ارباب اور شوکت علی نے بھی ملاقات کی۔
سینٹ الیکشن موجودہ منظر نامے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکمران جماعت کی تمام تر کوششوں اور وزیر اعظم عمران کے دعوؤں کہ کپتان اچھا ہو تو تو وہ ٹیم کو سنبھال لیتا ہے۔ پی ٹی آئی میں بہرحال اختلافات موجود ہیں جو وقتی طور پر تھم سکتے ہیں لیکن ختم ہوتے مشکل نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنے حقیقی کارکنوں کو سامنے لاتی تو اتنا گھڑمس نہ مچتا، عمران خان جو جوڑ توڑ کی سیاست کے حوالے سے اپنی مخالف جماعتوں پر الزام لگاتے تھے، لگتا ہے کہ انہوں نے بھی اب سجدہ سہو کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اس طرز سیاست پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا، انہوں نے گوجرانوالہ میں گفتگوکرتے ہوئے کہا حکمران جماعت کیخلاف ہر صوبے سے لوگ کھڑے ہوگئے، یہ تو کہتے تھے کہ بائیس سال سے جدوجہد کررہے ہیں، بائیس سال میں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس کو ٹکٹ دے سکیں، عمران خان دوسری جماعتوں پر الزامات لگاتے ہیں، خود کروڑپتی اور ارب پتی لوگوں کو ٹکٹ دئیے۔
سینٹ کے انتخابات میں پی ڈی ایم کی جماعتیں بھی زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کر رہی ہیں اور کرنی بھی چاہئے لیکن حکمران جماعت کی طرف سے شفافیت، ایمانداری اور راست بازی کا چرچا کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ماضی میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔ یہ بھی درست ہے سینٹ کے انتخابات میں ماضی میں کرپشن کی داستانیں زبان زد عام و خاص رہی ہیں لیکن اس نظام کو درست کرنے کیلئے محض دعوؤں سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعے بات آگے بڑھ سکتی ہے اور جس شعبے میں بھی آئینی و قانونی اصلاحات لانی ہوں وہ اپوزیشن سے مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں۔
دوسری طرف اپوزیشن کی حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں۔ عام خیال یہی تھا کہ میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کی اس تجویز کے حق میں نہیں ہیں کہ ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے۔ اب بعض اخباری اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے میاں صاحب کو راضی کر لیا ہے، نیز پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف تحریک کی سرگرمیاں فی الحال موخر کر دی ہیں۔ کواکب یہی ہیں کہ بالآخر اپوزیشن کو اکٹھی عدم اعتماد کی تحریک لانا ہو گی۔
سیاست کے میدان میں یہ سب فطری عمل ہے لیکن موجودہ حکومت کی بے تدبیری اور مشیروں کی نالائقی کی بنا پر تحریک انصاف خود اپنے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔