سچا اور کھرا لیڈر!
خبریں گروپ کے ایڈیٹر انچیف اور حال ہی میں سبکدوش ہونے والے سی پی این ای کے صدر ضیا شاہد نے قائداعظم محمد علی جناح ؒکی زندگی کے دلچسپ واقعات پر مبنی کتاب لکھ کر قوم کی ایک بڑی خدمت کی ہے۔ کتاب کے تعارف میں ان کا کہنا ہے کہ بانی پاکستان کی شخصیت کے حوالے سے مختلف کتابوں میں شائع ہونے والے دلچسپ واقعات ہیں جو آج ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ محترم ضیاشاہد نے قوم کے ہیرو محمد علی جناحؒ کے ایک مختصر ’تار، کا ترجمہ بھی شامل کیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ میں سیٹ ہارنا پسند کروں گا بہ نسبت اس کے کہ سیٹ خریدوں؟ ۔ اس طرح ضیا شاہد نے قائداعظم ؒکے حوالے سے ہماری ملکی سیاست کی زبوں حالی جہاں آج کل سیٹوں کی" لوٹ سیل" لگی ہے کو ایک فقرے میں بند کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’رائل پام، میں کتاب کی تعارفی تقریب کی صدارت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کر رہے تھے جو اس مینا بازار میں سب سے بڑے اور تگڑے خریدار ہیں۔ ہال ان کے متوالوں اور کھلاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ تقریب کے مدارالمہام ضیاشاہد کے صاحبزادے اور خبریں گروپ کے ایڈیٹر امتنان شاہد میزبان تھے۔ خبریں کے چیف ایگزیکٹو نے اپنی خیر مقدمی تقریر میں میاں نوازشریف کے خاصے لتے لیے اور تحریک انصاف کے سربراہ سے توقعات کا بھرپور انداز میں ذکر کیا۔ ٹیلی ویژن اینکر، کالم نگار اور لکھاری حسن نثار نے جو اپنے تندوتیز جملوں کے حوالے سے خاصے معروف ہیں یہ مشورہ دیا کہ یہ کتاب نہ پڑھی جائے کیونکہ اسے پڑھ کر آپ کو پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں سے گھن آنے لگے لگی۔ بات بھی ٹھیک ہے پاکستان کا کوئی بھی سیاستدان قائد کے قدموں کی دھول کو بھی نہیں چھو سکتا۔ اسی بنا پر میں نے اپنی گفتگو میں برادرم حسن نثار سے اتفاق کرتے ہوئے یہ اختلاف کیا کہ سیاستدانوں کے لیے یہ کتاب ٹیکسٹ بک ہونی چاہیے۔ صاحب صدر عمران خان جنہیں شوکت خانم ہسپتال کے افطار میں بھی جانا تھا نے اپنی مدلل تقریر میں اسلامی فلاحی ریاست کے مقصد کو قائد اعظم کا آئیڈیل قرار دیا۔ غالباً نادانستہ طور پر عمران خان اس پیرائے میں قائداعظمؒ کے مطمع نظر، جمہوریت کا ذکر کرنا ہی بھول گئے کیونکہ قائداعظم(ؒ جیسا کہ متذکرہ کتاب کے مطالعے سے ہی ظاہرہوتا ہے) سراپا ڈیمو کریٹ تھے اور ساری عمر مسلم لیگ کی تعمیر سازی اور قیام پاکستان کے مقاصد میں جمہوریت کا ہی درس دیتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قائد اعظمؒ کی قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد رحلت کے بعد ان کے معتمد ساتھی لیاقت علی خان اور مسلم لیگ میں شامل سینئر ارکان قائداعظم کے اس راستے سے ہٹ گئے جس کا وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اوراب بھی پہنچ رہا ہے۔ یقینا یہ کہا جا سکتاہے کہ پاکستان بننے کے بعد منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے مذہبی عناصر اس کے مامے بن بیٹھے۔ جمہوری اصولوں کو اس حد تک روندا گیا کہ پاکستان کی سرزمین بے آئین بن کر رہ گئی۔ گویا کہ قیام پاکستان سے لے کر اس وقت تک جبکہ فوج کے سربراہ ایوب خان نے اقتدار پر شب خون مارا ایسی صورتحا ل پیدا ہو گئی کہ سیاستدانوں کی بوالعجبیوں کی بناء پر 1958ء کے مارشل لاء کا خیر مقدم کیا گیا۔ تب سے آج تک چار مارشل لا لگ چکے ہیں۔ وطن عزیز میں سویلین کنٹرول اور جمہوری اداروں کی مضبوطی محض سراب بن کر رہ گیا ہے۔ انتہائی خوبصورت طبع شدہ کتاب ’سچا اور کھرا لیڈر، میں ضیاء شاہد نے خاصی عرق ریزی کر کے ایسے واقعات اکٹھے کئے ہیں جن سے قائد کا مطمع نظر اور نظریہ پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سربراہ ممتاز حسن کی قائداعظمؒ سے ملاقاتوں کاحوالہ دیتے ہیں۔ ممتاز حسن کے مطابق"ہندوستان کے سیاسی حلقوں کے حوالے سے اکثر سننے میں آیا ہے کہ جناب محمد علی جناح ؒ کی طبیعت آمریت کی طرف مائل تھی اور وہ دوسروں کی بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے، یہ سراسر ہندو کا پراپیگنڈا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کی شخصیت پر اس سے بڑا بہتان تراشا نہیں جا سکتا، کیونکہ قائد تو سرتاپا جمہوریت تھے اور مخالف کی بات سننا اور اس پر غور کرنا جمہوریت کا خاصہ ہے"۔ ممتاز حسن مزید فرماتے ہیں کہ "مجھے یاد ہے کہ ایک موقع پر میں نے ان کی رائے سے شدید طور پر اختلاف کیا، یہ ایک مالی معاملہ تھا اور میرا خیال تھا کہ میں سچے دل سے جو بات کر رہا ہوں، وہی فائدے مند ہے۔ میں بحث کرتا چلا گیا، قائد نے بھی مجھ سے بحث کی اور جب میں نے آخر میں مودبانہ عرض کیا کہ میں ان کے نقطہ نظر کا حامی نہیں ہو سکتا تو ان کے ماتھے پر بل تک نہ آیا، وہ کہنے لگے کہ آپ کو اختلاف رائے کا حق حاصل ہے"۔ کے ایچ خورشید جوگورنر جنرل قائداعظمؒ کے پہلے سیکرٹری تھے مذہبی نظریات کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ایک بات واضح تھی کہ وہ سیدھے سادے مسلمان تھے اور فرقہ پرستی میں الجھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ پاکستان کے آئین کے بارے میں انہوں نے دورہ مصر کے دوران شیپرڈ ہوٹل میں ایک اخباری نمائندے کے سوال کے جواب میں جو بیان دیا وہ اس پر ہمیشہ کاربند رہے۔ انہوں نے کہا تھا:"آئین کے ضمن میں ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ہمارے لئے آئین تیرہ سو برس پہلے ہی بنا دیا گیا تھا۔ اگرچہ فاضل مولف کا کہنا ہے کہ قائداعظمؒ ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ان کی بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ پاکستان مذہب کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا لیکن اس حوالے سے کیا ہی اچھا ہوتا کہ ضیا شاہد قائداعظم ؒکی 11 اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی کی اس تقریر کا حوالہ بھی دیتے جس میں انھوں نے کہا کہ "آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں "۔ کے ایچ خو رشید فرماتے ہیں کہ جب قائداعظمؒ شدید بیمار تھے تو لیاقت علی خان نے مشورہ دیا کہ بیرون ملک سے ڈاکٹر بلائے جائیں تو قائد نے انکار کر دیا لیکن ہمارے ہاں تو حکمرانوں کا وتیرہ بن چکا ہے کہ انہیں چھینک بھی آئے تو وہ اہل خانہ سمیت لندن چلے جاتے ہیں۔ کے ایچ خورشید کے حوالے سے ایک پراپیگنڈا تو زائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ قائداعظم کا مزاج آمرانہ تھا۔ کے ایچ خورشید کے مطابق ایسا ہرگز نہیں تھا۔ البتہ وہ کام میں کوتاہی یا بے اصولی برداشت نہیں کرتے تھے اور جس شخص سے بھی ایسی کوئی غلطی سرزد ہوجاتی اس کا نوٹس بہت سختی سے لیتے تھے۔ کے ایچ خورشید کے مطابق بعض اوقات لیاقت علی خان لیٹ ہو جا تے تو قائداعظم کو ناگوار گزرتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ قائداعظم خالصتاً جمہوری انداز رکھتے تھے انھیں آمریت سے شدید نفرت تھی۔ ایک مرتبہ کسی نے جلسے میں پاکستان زندہ باد کے نعرے کے بعد شہنشاہ پاکستان کا نعرہ لگا دیا۔ قائداعظم نے اس رضا کار کو بلا کر سختی سے باز پرس کی اور بھرے جلسے میں کہا کہ میں شہنشاہ ہوں اور نہ بننا چاہتا ہوں۔ مسلم لیگ (ن) جو قائداعظم کی جانشین ہونے کی دعویدار ہے کے سربراہ میاں نوازشریف خود کو قائداعظم ثانی کہلوانا پسند کرتے تھے۔ اب نااہلی کے بعد انھوں نے اپنے ساتھ پارٹی کے قائد کا لاحقہ لگا لیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلم لیگ میں صرف نام کے سوا مسلم لیگ والی کوئی بات نہیں۔ قائداعظم کے جمہوری مزاج کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ کہنا غلط ہے کہ مسلم لیگ پر صرف قائداعظم کا حکم چلتا تھا۔ بقول کے ایچ خورشید وہ جمہوری انداز میں ملک کو چلاتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے جس کا ذکر میں نے اپنی تقریر میں بھی کیا کہ قائداعظم جلسوں اور پارٹی تقریب میں جو بات کہتے تھے وہ نجی محفلوں میں بھی کرتے تھے گویا ان کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ اس کتاب کا سرسری مطالعہ کرتے ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم بانی پاکستان کی تعلیمات سے کتنے دور جا چکے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست کا سب سے بڑا اصول ہی بے اصولی بن گیا۔ پھر جس انداز سے جمہوریت کے نام پر جمہوری اقدار کا قتل عام کیا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اگرچہ عمران خان تقریب کی صدارت کر رہے تھے لیکن انہیں خود بھی غور کرنا چاہیے کہ گٹھ جوڑ کی سیاست اور بلا تخصیص الیکٹ ایبلز کو لوٹے بنا کر پارٹی میں شامل کرنا کہاں تک قائداعظم کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ میں نے عمران خان کو دو مشورے دیئے کہ ایک خوشامد سے بچیں اور دوسرا یہ ہے کہ جتنی آسانی سے وہ موقع پرستوں کو اپنی پارٹی میں شامل کر رہے ہیں جب حالات بدلے وہ اسی رفتار سے انھیں چھوڑ جائیں گے۔ انھیں نوازشریف کی موجودہ صورتحال سے سبق بھی سیکھنا چاہیے۔