قیاس آرائیاں
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبا ز شر یف کی بیس ما ہ بعد ضمانت کے بعد رہائی رک گئی ہے، جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل بینچ نے بدھ کو فیصلہ محفوظ کیا، 20منٹ بعد کورٹ ایسوسی ایٹ نے آواز دی کہ ضمانت منظور ہو گئی، جسٹس سرفراز نے مختصر فیصلہ جسٹس اسجد جاوید کو بھجوایا تو انہوں نے دستخط نہیں کئے۔ معزز جج نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے چیف جسٹس قاسم خان کو آگاہ کردیا، اب ریفری جج شہباز شریف کی ضمانت کے کیس کا فیصلہ سنائے گا۔ قبل ازیں جب ضمانت پر رہائی کا فیصلہ ہوا تو مختلف قیا س آ را ئیاں شروع ہو گئیں۔ بعض مبصر ین کا دعو یٰ تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کسی ڈیل کے تحت رہا ہو ئے ہیں لیکن یہ سودا کس کس کے ما بین ہو ا اور کس کو شہبا ز شر یف کی رہا ئی کا فا ئد ہ ہو گا، کو ئی نہیں جانتا۔ ویسے تو یہ خبریں کا فی عر صے سے گشت کر رہی تھیں کہ میاں شہباز جلد ہی رہا ہونے والے ہیں۔ اس ضمن میں میاں نوا زشر یف کی صاحبزادی مر یم نواز جو ہر مو ضو ع پر کھل کر بات کر رہی تھیں کی گز شتہ چند ہفتوں سے نیم خامو شی کو معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں تھوڑا سا وزن بھی ہے کیونکہ جب سے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمز ہ شہبا ز رہا ہوئے ہیں، مریم نواز کے سیا سی طور پر انتہا ئی محتا ط اند از اختیا ر کر نے سے ان قیا س آ را ئیوں کو مز ید تقویت پہنچی۔ تاہم ان کی بیماری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس وجہ سے بھی وہ خاموش رہ سکتی ہیں، دوسری طرف پی ڈی ایم میں دراڑیں پڑنے اور پیپلزپارٹی کے ساتھ لفظی گولہ باری سے مزید بدمزگی پیدا ہونے کے خدشے کے باعث بھی وہ کچھ محتاط ہو گئی ہیں۔
حمزہ شہباز کی ضمانت کے موقع پر ہی دبے دبے الفاظ میں یہ کہا جانے لگا کہ لو جی مک مکا ہو گیا ہے، سو ال یہ پیداہو تا ہے کہ یہ مک مکا کن کے ما بین ہوا؟ ظاہر ہے کہ جو بھی ہونا ہے شر یف فیملی بلکہ میاں نواز شریف اور فوجی قیا دت کے درمیان ہی کچھ طے ہو نا ہے کیونکہ وہی شر یف فیملی کے مختار کل ہیں، یہ الگ بات ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں شہبازشریف کا بھی کلیدی کردار ہو گا۔ یہاں ایک اور بنیا دی سوال پیدا ہو تا ہے کہ اس قسم کی ڈیل اس مر حلے پر کیونکر کی جا ئے گی؟ کیا اس کا مقصد مسلم لیگ (ن) کے لیے اقتدار میں واپسی کی را ہ ہموار کر نا ہے یا عمران خان کو با قی ڈھا ئی برس کے لیے چین سے حکومت کر نے کی ضمانت دلوانا ہے۔
اگر چہ یہ بات تو حقیقت کا روپ دھا ر چکی ہے کہ حا لیہ ضمنی انتخابات با لخصوص ڈسکہ میں مسلم لیگ (ن) نے ثابت کیا ہے کہ پی ٹی آ ئی کے سر براہ عمران خان کی تما م تر کاوشوں اور پرا پیگنڈامشینر ی کی د ن رات کی یہ گردان کہ اپوزیشن کے لو گ چور اور ڈاکو ہیں، عوام نے یہ پر اپیگنڈامسترد کر دیا ہے۔ اس صورت حال میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تحر یک انصاف اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے اقتدارکو دوام بخشنے کی را ہ ہموار کر نا نا قا بل فہم ہے۔ غالبا ً پیپلز پا رٹی مسلم لیگ (ن) سے اس لئے نارا ض ہے کہ وہ پنجاب میں تحر یک عدم اعتما د لا کر پی ٹی آ ئی کو چلتا کیوں نہیں کر رہی۔
برادر خو رد شہبا زشر یف جیل سے با ہر آ کر اپنے لئے کیا سیاسی رول متعین کر تے ہیں، یہ قابل غور بات ہے۔ کہنے کو تو پا رٹی کے سر براہ شہبا زشر یف ہیں کیونکہ برادر اکبر میاں نو از شریف آ ئین کے آرٹیکل 63، 62کے تحت نا اہل قرار پاچکے ہیں لہٰذا وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے لیکن نوازشر یف کے پاس ترپ کا پتا ان کی صا حبزادی ہیں جنہوں نے اپنے جارحانہ طرز تکلم اور شبا نہ روز محنت سے اپنا مقام پیدا کیا ہے۔ کہاجا تا ہے کہ وہ اپنے والد کے نظر یا ت کی سو فیصد حامی ہیں جبکہ شہبا زشر یف معاملا ت کے بارے میں اپنا مخصوص نکتہ نگا ہ رکھتے ہیں۔ برادر خو رد اس نظریے کے حامی ہیں کہ فوج پر غلبہ پانے کا نظریہ پاکستان میں نہیں چل سکتا بلکہ اس کے بجا ئے شر اکت اقتدار میں ہی سو یلین حکومت کی بقا اور دوام ہے، جس کی مثال عصر حاضر میں نظر آ رہی ہے، ناقدین اور بعض عالمی موقر جریدے اسے "ہائبرڈ نظام" قرار دیتے ہیں۔
چھوٹے میاں اپنے بڑ ے بھا ئی کی حکمت عملی کے خلا ف کھل کر را ئے دیتے رہے ہیں گو یا اب انہوں نے سجد ہ سہو کرلیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ بڑ ے بھا ئی اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کر کے اپنے بھا ئی اور دیگرمسلم لیگیوں کی لا ئن پر آ گئے ہیں۔ اگر چہ سیا ست میں سب کچھ ممکن ہے اور کو ئی بات حرف آ خر نہیں ہو تی اس کا امکان کم نظر آتا ہے کہ میاں صاحب اس مر حلے پر پینترابد ل سکتے ہیں لیکن ان سے کچھ بعید بھی نہیں کہ وہ اقتدار کے حصول کے لیے کچھ بھی کر گزریں۔ مثال کے طور پر جب جنرل ضیاء الحق نے انہیں وزارت عظمیٰ کا لا لچ د یا توانہوں نے بلا تا مل اس وقت کے وزیرا عظم اور اپنے باس محمد خان جونیجو کی پیٹھ میں چھڑا گھونپ دیا اور بعد میں یہی سلو ک محترمہ بے نظیر بھٹو اور آ صف علی زرداری کے ساتھ کر نے کی کوشش کی۔
جہاں تک پیپلز پا رٹی کا تعلق ہے یہ بھی سیا ست گر ی کے ساتھ سا تھ محلا تی سا زشوں میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ حا ل ہی میں جس انداز سے اسلام آبا د کی سینیٹ کی نشست پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کرایا یہ اپنی جگہ لیکن اس کے بعد بات باپ، کی طرف مڑ گئی۔ اس پر مسلم لیگ (ن) بھی ناراض ہے جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الر حمن کی ہدایت پر اتحاد کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی نے "باپ"کی حمایت لینے پر پیپلزپارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹسز بھجوا دئیے، جس کے ردعمل کے طور پر دونوں جماعتیں پی ڈی ایم سے علیحدہ ہو گئیں۔ ظا ہر ہے کہ بطور سیاسی جماعت پیپلز پا رٹی اور عوامی نیشنل پا رٹی نے نو ٹسز کو ماننے سے صاف انکا ر کردیا۔ اب پی ڈی ایم بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکا رہے اور اب مو لانا فضل الر حمن جو ان نوٹسز کے محر ک ہیں کی ڈیو ٹی لگا ئی گئی ہے کہ وہ اتحاد کو ٹوٹنے سے بچا ئیں لیکن یہ اب نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور لگتا ہے گویا کہ اپوزیشن اتحاد کا بغیر کامیاب ہوئے سیا سی محاذ پر اس طر ح ٹوٹ جا نا اور دوبڑ ی جماعتوں کا کھلم کھلا سامنے آ جانا اس امر کی غمازی کرتا ہے عمران خان کی حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں لیکن پاکستان میں حالات بدلتے دیر بھی نہیں لگتی۔