ناکافی سفارتی کاوشیں
پاکستان کی "کامیاب " خارجہ پالیسی کا بہت چرچا ہے لیکن زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں۔ حال ہی میں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی متحدہ عرب امارات کا دوروزہ دورہ کر کے آئے ہیں، ان کا علانیہ مشن پاکستانیوں پر متحدہ عرب امارات کے ویزوں پر پابندی اٹھوانا تھا جسے نافذ ہوئے اب ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، بعض اطلاعات کے مطابق شاہ محمود قریشی کی امارات کی اعلیٰ سطح کی شخصیات سے ملاقاتوں کے باوجود کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا۔ اگرچہ ویزا پابندی کی زد میں دیگر ممالک بھی آئے ہیں لیکن پاکستان نے ہمیشہ فخر کیا ہے کہ ہمارے برادر اسلامی ملک سے انتہائی خو شگوار تعلقات ہیں اور ہر موقع پر ہم نے اپنے خلیجی بھائیوں کی دامے درمے سخنے مد د کی ہے، دیگر خلیجی ممالک کے حوالے سے بھی پاکستان اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہے۔ معاملات اس وقت خراب ہونا شروع ہوئے جب سعودی عرب نے یمن میں حوثی قبائل کے خلاف پاکستان سے مبینہ طور پر اسلامی فوج کے لیے دستے مانگے، ہم نے فوج بھیجنے کے بجائے اس وقت ریٹائر ہونے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو ریاض بھیج دیا۔ فوج نہ بھیجنے پر سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات نے برملا ناراضی کا اظہار کیا اور ان کے ایک اعلیٰ سفارتی عہدیدار نے کھل کر بھارت کے حق میں بیان دیا اور بھارت کے یوم آزادی کی تقریب میں بھی شرکت کی۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جب فروری 2019 میں اسلام آباد آئے تو وزیراعظم عمران خان بنفس نفیس گاڑی چلا کر انہیں ایئرپورٹ سے وزیراعظم ہاؤس لائے۔ اس سے قبل جب اکتوبر 2018ء میں وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو میزبان ملک نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اکاؤنٹ میں 3 ارب ڈالر رکھنے اور 3 سال کیلئے سالانہ 3 ارب ڈالر مالیت کا تیل ادھار پر دینے کا اعلان کیا، یوں اس موقع پر سعودی عرب نے مجموعی طور پر پاکستان کو 12 ارب ڈالر کا پیکیج دیا۔ برادر اسلامی ملک نے ہماری ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے جو تین ارب ڈالر ایک سال کیلئے اکاؤنٹ میں رکھوائے تھے انہیں واپس کر نے کا وقت آ گیا تو پاکستان نے چین کی مدد سے دو ارب ڈالر سعودی عرب کو واپس بھی کر دئیے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی اور دوسری ایک ارب ڈالر کی قسط رواں ماہ ادا کی گئی ہے۔
وزارت خا رجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری کا فرمانا ہے کہ یو اے ای کے ویزوں پر یہ پابندی کوویڈ 19کی بنا پر لگائی گئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یقین دلایا کہ یہ پابندی عارضی ہے۔ قریشی صاحب کا فرمانا ہے امارات کی خارجہ لیڈر شپ نے پاکستان کی یو اے ای کے لیے حمایت کو سراہا۔ کاش یہ یقین دہانیاں امارات کی طرف سے آتیں، یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب ہماری اطلاعات کے مطابق بھارت پاکستان کے خلاف کسی فالس سرجیکل آپریشن کی آڑ میں حملہ کرنے جا رہا ہے۔ بھارت کی غنڈہ گردی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ چار روز قبل بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کے پار اقوام متحدہ کے فوجی مبصر کی گاڑی پرفا ئرنگ کی۔ پاکستان نے بجا طور پر معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کے علاوہ بھارتی سفارت کار کی طلبی کر کے احتجاج بھی کیا ہے۔ پاکستان نے عالمی اداروں کو خط لکھا ہے کہ رواں سال کے دوران بھارتی فورسز نے 3003ء مرتبہ سیز فا ئر کی خلاف ورزی کی جس میں 27 پاکستانی شہری بھی شہید ہوئے۔ یہ صورتحال اتنی سنگین ہے کہ اس کا مداوا محض بیان با زی سے نہیں ہو سکتا اس کے لیے ہمیں پاکستان کے روایتی دوستوں کو اعتماد میں لینا چاہیے ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں کہ چین ہمارا قابل اعتماد اور قر یب ترین دوست ہے اور اگر کسی ملک سے بھارت کی گھگی بندھ جاتی ہے تو وہ چین ہی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اپنی عالمی تنہائی کو دور کرنے کی سعی مسلسل کرنی چا ہیے۔
ہمارے خطے میں ایک بڑا مسئلہ افغانستان کا ہے، وہاں سے امریکی فوجوں کے انخلا کا ٹائم ٹیبل امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں ہی طے ہو گیا تھا۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کرانے میں پاکستان کا کلیدی رول تھا۔ اس ضمن میں امریکی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کئی مرتبہ پاکستان کا چکر لگا چکے ہیں اور حال ہی میں بھی انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے اس معاہدے کے باوجود افغانستان میں طالبان کابل حکومت کے خلاف مسلسل حملے کر رہے ہیں جس سے افغانستان کی سرکاری فوج کے علاوہ بہت سے شہر ی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے سفارتی ذرائع سے پاکستان پر حملے رکوانے کے لیے زور ڈالا جا رہا ہے حالانکہ یہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت یہاں تک پہنچی ہے۔
امریکہ میں ڈیموکریٹک جوبائیڈن ٹرمپ کی طرف سے پیدا کر دہ تمام رکاوٹوں کے باوجود 20 جنوری کو امریکہ کے صدر بن جا ئیں گے، اس حوالے سے چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ نئی امریکی ایڈمنسٹریشن اس افغان امن معاہدے کا ازسرنو جائزہ لے گی، ان بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ نئی امریکی انتظامیہ سے تعلقات کی تجدید کرنے کے علاوہ دو طرفہ اور ملٹی لیٹرل فورمز پر مزید کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ امریکہ کے دباؤ پر یو اے ای، بحرین اور سوڈان وغیرہ اسرائیل کو تسلیم کر چکے اور کئی ممالک تیار بیٹھے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم پر بھی امریکہ کا دباؤ ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ ہم اسرائیل کوتسلیم نہیں کریں گے۔ دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں یو اے ای کا موقف سنا اور اس پر پاکستان کا مؤقف بھی پیش کیا لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے ہم پر کوئی پریشر نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا مسئلہ فلسطین کے حل تک پاکستان کسی صورت اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا، ہم نے پاکستان کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرنے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان کے بہترین سفیر ہیں کیونکہ یہ معاملات اکیلے قریشی صاحب کے بس کا روگ نہیں ہے، ہمیں اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات کی تجدید کے علاوہ بھارت کے منفی پراپیگنڈے کا بھی توڑ کر نا ہو گا، اس کے لیے موجودہ کاوشیں ناکافی ہیں۔