مسائل کا حل، اتفاق رائے ضروری
اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت کے خلاف تحریک کا پہلا راؤنڈ بخیر و خوبی اتوار کو لاہور میں مینار پاکستان کے سائے تلے جلسہ عام سے مکمل ہو گیا۔ پی ڈی ایم جس کا مقصد موجودہ "سلیکٹڈ حکمرانوں " کو گھر بھیجنا ہے اپنے اس فوری ہدف کے حصول میں تو ناکام رہی۔ پی ڈی ایم کے سٹیج سے دعویٰ تو یہ کیا گیا تھا کہ حکومت چار ہفتوں کی مہمان ہے لیکن دسمبر کی ڈیڈ لائن کے مطابق ایسا ہوتا نظر بھی نہیں آتا حکومت قائم ہے اور فوری طور پر کہیں جاتی نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف اپوزیشن کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جانا بھی معجزے سے کم نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے اختلافات جو ماضی میں شدید رہے ہیں اور اب بھی بنیادی نکات پر برقرار ہیں لیکن انہوں نے اپنی تحریک کے دوران یکجا اوراکٹھے ہونے کا مظاہرہ کیا حالانکہ حکومت کی طرف سے طعنے دیئے جا رہے تھے کہ ماضی میں آپ ایک دوسرے کے خلاف کیا کچھ کرتے رہے اور اب اکٹھے بیٹھ کر روٹیاں توڑ رہے ہیں، یہ سب بجا ہے لیکن یہی اعتراض تحریک انصاف اوراس کے اکثر قائد ین پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ خان صاحب کی ٹیم میں بہت سے سینئر ارکان ایسے ہیں جنہوں نے سیاست میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور ان میں سے بعض پرتو تحریک انصاف کے سربرا ہ ماضی میں شدید قسم کی تنقید کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ اسے کوئی مثبت اور صحت مند روایت قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم ہمارے بوسیدہ سیاسی نظام میں یہ ایک انتہائی نا پسندیدہ روایت بن چکی ہے۔
اپوزیشن کی تحریک کے پہلے راؤنڈ کا ایک طرہ امتیاز یہ رہا ہے اور جس کا کریڈٹ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو جاتا ہے کہ اس تمام محاذ آرائی کے دوران کوئی توڑپھوڑ، کوئی جلاؤ گھیراؤ اور جانی نقصان نہیں ہوا، ما ضی میں اس کی بہت کم مثال ملتی ہے۔ تحریک کے دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ باقی ماندہ اپوزیشن کے سیاستدان تو حکومتی حلقوں کے مطعون ہی ٹھہرے لیکن جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خاص طور پر نشانہ بنے، ان پر طرح طرح کے مالی بے قاعدگیوں کے علاوہ ذاتی اور سیاسی قسم کے الزامات عائد کئے گئے لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مولانا نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوالیا ہے یہ مولانا ہی ہیں جن کی انتھک محنت اور کا وشو ں سے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، لیفٹ اور رائٹ کی چھوٹی جماعتیں قومیت پرست لیڈر نہ صرف ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوئے بلکہ اپنے چھوٹے موٹے با ہمی اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے دور کرتے رہے۔ اپو زیشن کی تحریک کے پہلے راؤنڈ میں بلاول بھٹو اور مریم نواز کی قائدانہ صلاحیتیں بھی کھل کر سامنے آئیں۔ حکمران جماعت کے اکثر ترجمان لوگوں کی تعداد کے حوالے سے اپوزیشن کے جلسوں کو فلاپ کہتے آ رہے ہیں حالانکہ دیکھا جائے توموجودہ حالات میں اپوزیشن کے اجتماعات انقلابی نوعیت کے کامیاب تونہیں ہیں لیکن انہیں فلاپ کہنا حقائق سے روگردانی کرنے کے مترادف ہو گا۔
ادھرپی ڈی ایم نے حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کی مہلت دے دی ہے۔ پیر کوسربراہی اجلاس کے بعد سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے ساتھ جاتی امرا میں میڈیا سے گفتگو میں کہا 31 دسمبر تک پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے منتخب ارکان اسمبلی اپنے اپنے استعفے اپنی اپنی قیادت کو جمع کروادیں گے، اگر حکومت نے دی گئی مہلت تک استعفیٰ نہیں دیا تو یکم فروری کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوگا جو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کردے گا، تاہم عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ لانگ مارچ کی تیاریاں شروع کردیں۔ انہوں نے کہا مینار پاکستان کے تاریخی اور فقید المثال جلسے کے بعد پی ڈی ایم نے اعلامیہ بھی جاری کیا ہے۔ ہم نے اپنے تمام اساسی مطالبات کو اعلان لاہور کے عنوان سے جاری ہونے والے اعلامیے میں بیان کردیا ہے اور تمام جماعتوں نے اس پر دستخط کردئیے ہیں۔ انہوں نے کہا پی ڈی ایم کی سٹیئرنگ کمیٹی کا صوبوں کو لانگ مارچ کی تیاری کے سلسلے میں جاری کیا گیا شیڈول بدستور برقرار ہے۔ ہر صوبے میں میزبانی کمیٹیاں صوبائی قیادت سے مل کر لانگ مارچ کی حتمی تیاری کریں گی۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور پر انتخابات لڑتی ہیں۔ ہم تمام جماعتیں ایسے کوئی اقدامات نہیں کریں گی جس سے جمہوریت کو کوئی نقصان ہو۔ اگرموجودہ حکمران استعفیٰ دے دیں اور اسمبلیاں تحلیل کر دیتے ہیں تو پھر پی ڈی ایم کی مشاورت سے مذاکرات کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کیا اس تحریک کا کوئی دیرپا تاثر قائم ہوگا اور کوئی نتائج برآہو نگے کہ نہیں؟ اور یہی پی ڈی ایم کے لیے بڑا امتحان ہے۔ اب اپوزیشن دوراہے پر کھڑی ہے، وہ اپناآئندہ کا لائحہ عمل مرتب کر رہی ہے اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا رو ڈ میپ بنا رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو بخوبی علم ہے کہ مارچ کی ڈیڈلائن ان دونوں کے لیے خاصی اہم ہے۔ مارچ میں ریٹائر ہونے والے65 فیصد سینیٹروں کی تعداد اپوزیشن سے ہو گی گویا کہ سینیٹ میں اسے حاصل اکثریت بھی جاتی رہے گی اور پی ٹی آئی کو سسٹم پر مکمل عبور حاصل ہو جائے گا جس سے ایسی قانون سازی کر سکیں گے جس کے جسد سیاست پر دوررس نتائج مرتب ہونگے۔
سیاسی نظام کو مستحکم کرنے کیلئے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تال میل ہونا انتہائی ضروری ہے لیکن خان صاحب مرغے کی ایک ٹانگ پر کھڑے ہیں اور مسلسل کھڑے ہیں کہ میں این آر او نہیں دوں گا۔ لا ہور کے جلسہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی انہوں نے الزام لگایا کہ انہیں بلیک میل کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونگی تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ اپوزیشن یا کون انہیں بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ بظاہر ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ تحریک انصاف بطور جماعت ان کے ساتھ ہے اور فوج نے بھی خود کو بظاہر عملی سیاست سے الگ تھلگ رکھا ہو اہے۔ اگر اپوزیشن کامقصد مقتدرحلقوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا تھا تو بظاہر اس راؤنڈ میں اپنے مشن میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ تحریک اور محاذآرائی کے باوصف تمام تر دعوؤں کے باوجو د ملک کی معیشت اور گورننس کا حال پتلا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ کورونا کی موذی وبا بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے اس لیے ملک کو درپیش اقتصادی اور گورننس کے مسائل کے حل پر کم از کم اتفاق رائے پیداکرناضروری ہے۔