کیا اچھا ہو جائیگا؟
اکانومی کا حال مز ید پتلا ہو رہا ہے لیکن حکومتی تر جمان چین کی با نسر ی مسلسل بجا ئے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کاموقف تو سید ھا سا داہے کہ سب اچھا ہے اور جو اچھا نہیں ہے وہ بھی ٹھیک ہو جا ئے گا۔ سٹیٹ بینک کاکہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی و غیر ملکی قرضوں کا نیا ریکارڈ قائم کردیا، ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 44 ہزار 801 ارب روپے ہوگیا ہے، سوا دو سال میں 14 ہزار 922 ارب روپے قرضہ بڑھا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق تین ماہ میں حکومت نے 581 ارب روپے قرض لیااور رواں سال ستمبر تک وفاقی حکومت کا قرض 35688 ارب روپے ہوگیا ہے۔ ستمبر2020 تک وفاقی حکومت کا مقامی قرض 23701 ارب روپے ہے۔ سٹیٹ بینک کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کا بیرونی قرض 11986 ارب روپے ہے جس میں 11792 ارب طویل مدتی اور 194 ارب قلیل مدتی ہے۔ اس کے علاوہ تین ماہ میں 162ارب بیرونی اور 419ارب روپے مقامی ذرائع سے قرض لیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق ن لیگی دور میں قرضوں کے بوجھ میں 15 ہزار 561 ارب، مشرف کے 9 سال میں 3 ہزار 200 ارب، پیپلز پارٹی کے 5 سال میں 8 ہزار 200 ارب روپے کا اضافہ ہوا لیکن حکومتی ترجمان معاشی اشاریے بہتر ہونے کی گردان کر رہے ہیں۔
دوسری طرف وزیر اعظم کا اصرار ہے کہ چینی اور آٹا کی قیمتوں میں آ ئند ہ چند دنوں میں واضح کمی آ ئے گی۔ وزیراعظم کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوا جس میں چاروں وزرائے اعلیٰ نے بھی شرکت کی، اجلاس میں خواتین اور بچوں میں غذائیت کی کمی دور کرنے کے منصوبے پر اتفاق کیا گیا، فیصلہ کیا گیا کہ غذائی قلت کے خاتمہ کے لئے 350 ارب روپے کی لاگت سے 5 سالہ پراجیکٹ شروع کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت بچوں میں سٹنٹنگ کی روک تھام کیلئے 175 ارب فراہم کریگی جبکہ پراجیکٹ کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ خواتین اور 39 لاکھ بچوں کی غذائی قلت دور ہو گی۔ اس پانچ سالہ منصوبے کے لیے وفاق اور صوبے آدھی آدھی رقم فراہم کریں گے۔ فی الحا ل تو اشیا ئے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہیہیں۔ حکومت نے اگر ہنگامی اقدامات کرتے ہو ئے طلب اور رسد کے توازن کو بحال کر دیا تو اس کے ما رکیٹ پر مثبت نتا ئج مر تب ہو نگے۔ وفاقی وزیر برائے اقتصا دی امور خسر و بختیا ر نے اعتراف کیا ہے کہ خو راک کی کمی پو را کر نا ہما ری اولین تر جیح ہے لیکن وہ تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں کہ گند م کی خرید اری میں کو ئی کو تا ہی ہو ئی بلکہ سب اچھا ہے۔ سب اچھا ہے تو پھر رو نا کس بات کا؟ ۔ وزیر اعظم کو تو ریاست مدینہ کے حکمران ہو تے ہو ئے بھیس بدل کر نکل جا نا چا ہیے تھاتا کہ اپنے مشیروں کے فراہم کردہ اعداد وشمار پر یقین کرنے کے بجائے حقا ئق ان تک پہنچتے رہتے۔ لیکن نہ جانے وزیر اعظم کس ریا ست میں رہتے ہیں جہاں حکمرانوں کی عینک سے دیکھیں تو سب ٹھیک ہی نظر آتا ہے۔ وزیر اعظم مسلسل یہ ڈفلی بجا ئے جا رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے ترجمانوں کے سامنے پیش گوئی کی ہے کہ چینی، آٹا سستا ہو جا ئے گا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہم گلگت بلتستان کا الیکشن جیت رہے ہیں نیز یہ کہ اپو زیشن ملک دشمن پراتر آ ئی ہے، ترجمان ہر محاذ پر اپوزیشن کا جا رحانہ طر یقے سے مقا بلہ کریں اور قومی بیانیہ فرنٹ فٹ پر آ کر پیش کریں۔
سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق قرضوں کا حجم رواں ما لی سال میں جی ڈی پی کے 98.3فیصد کی سطح تک جا پہنچا ہے گویا کہ اگران اعدا دوشما ر کے پیچھے حقا ئق کا جا ئز ہ لیا جا ئے تو ہم دیو الیہ ہو چکے ہیں۔ بجا ئے تما م سٹیک ہولڈرز مل کر اس تشو یشناک صو رتحال پر ٹھنڈ ے دل اور سنجید گی کے سا تھ غور کر یں، حکمرانوں کا مسلسل اصرار ہے سب ا شاریے بہتر ین اور قیمتیں بھی نیچے آ رہیں اور چیز یں ما رکیٹ میں سستے داموں وافر مقدار میں میسر ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی نا ئب صدر محتر مہ مر یم نو از عوام کو مسلسل جل دے رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) ڈٹی ہوئی ہے اور حکومت نئے سال کے شر وع ہو نے تک چلی جا ئے گی۔ حکومت جانے کے اپو زیشن کے دعوے نقش برآب ہیں۔ حکومت تو پو ری طر ح ڈٹی ہو ئی ہے اور اپوزیشن کے دعو ؤں کے مطابق چند ہفتوں میں اس کی چھٹی ہونے کی کوئی دجہ سمجھ نہیں آ تی۔ اگر مر یم نو از کے پاس جا دو کا چر اغ ہے تو انہیں اپو زیشن کے سا تھ شیئر کرنا چاہیے کیونکہ پا ور سٹر کچرکی مو جو دہ ہیت ترکیبی کے مطابق حکومت کہیں نہیں جا رہی بلکہ مشیر بر ائے احتساب شہزاد اکبر کے بیانا ت کا جائز ہ لیا جا ئے تو ان کے مطابق اپو زیشن کی مبینہ کر پشن کے بارے میں تمام الزاما ت سچ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فر د جر م عائد ہونے کے بعدتما م دا ستا نیں صحیح ثابت ہوئیں۔ شہزاد اکبر طر ح طر ح کے بے بنیا د الزاما ت عا ئد کر نے کے ما ہر ہیں۔ ہزما سٹر وا ئس کی طر ح وہ کل تک جہا نگیر تر ین کے پیچھے ہا تھ دھو کر پڑ ے ہو ئے تھے اوراپنی پٹاری سے بے بنیا د الزاما ت لگا کر تر ین صا حب کو مطعون کر رہے تھے اب یکدم اس معاملے میں چپ سا دھ لی ہے۔ اب کچھ بور ہو نے کے بعد انہوں نے اپنی توپوں کا رخ دوبا رہ شہبا ز شر یف کی طرف موڑ لیا ہے۔ بجا ئے اس کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پر لگا ئے گئے الزاما ت کی صحت کی تصد یق کریں، وہ فرما تے ہیں کہ ان سے جب حساب مانگا جا ئے تو انہیں کمر درد کا عا رضہ شر وع ہو جا تا ہے۔ حمز ہ شہبا ز نے کہا کہ جس گاڑی میں مجھے لایا گیا اس کی بر یکیں فیل تھیں، گاڑی دو دفعہ حادثے سے بچی۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلا ول بھٹو بڑی ذہانت سے اپنے سیاسی پتے کھیل رہے ہیں۔ پہلے توانہوں نے فر ما یا کہ وہ نو از شر یف کے جا رحانہ مو قف سے اتفا ق نہیں کرتے لیکن بعدازاں انہوں نے موقف میں تر میم کر لی کہ میں نے ایسے نہیں کہا۔ بلا ول بڑ ی مہا رت کے ساتھ وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے تمام آ پشن کھلے رکھے ہو ئے ہیں۔ بلا ول نے وہ غلطی نہیں کی جو نو از شر یف مسلسل کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے لئے را ستے بندنہیں کئے، ان کے عسکر ی قو توں سے بھی خو شگوار تعلقات ہیں اورنو ازشر یف کے ساتھ بھی ورکنگ ریلیشنز قا ئم ہیں۔ سیا ست میں تمام آ پشن کھلے رکھنا ہی درست حکمت عملی ہے نہ کہ نو از شر یف کی طرح کھلے راستے بھی اپنے لئے بند کر لیں۔ بلا ول کو یہ بات پہلے سمجھ آ گئی تھی کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر لینا سیاست میں گھا ٹے کا سودا ہے۔