کچھ حیران کن نہیں!
محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی ہر سال نوڈیرو میں ان کے مزارپر منائی جاتی ہے، میں بھی کئی مرتبہ اس میں شریک ہو چکا ہوں۔ آ صف زرداری سمیت سٹیج پر پیپلزپارٹی کے دیگر رہنما موجود ہوتے ہیں، چند سال قبل پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پہلی بار اردو میں خطاب بھی محترمہ کی برسی پر کیا۔ حا ضرین میں ہاریوں اور جیالوں کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے لیکن محترمہ کی 13ویں برسی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما شریک تھے بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، بلاول بھٹو کی دعوت پر خصوصی طور پر وہاں پہنچیں۔ ان کی موجودگی نے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا، یہ بات تھی بھی ایسی۔ ایک تو یہ پہلی مرتبہ تھا کہ کسی دوسرے سیاستدان کو وہاں مدعو کیا گیا اور وہ بھی نواز شریف کی صاحبزادی کو۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں عمران خان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کس قدر کوشاں ہیں۔ ماضی کے ازلی دشمن ایک ہی سٹیج پراکٹھے تھے اور اپنی تقریروں میں ایک دوسرے کی تائید کر رہے تھے۔ انقلابات ہیں زمانے کے!جلسے کے بعد مریم نواز نے بلاول کے ہمراہ بے نظیر بھٹو کے مزار پر حاضری دی، قبر پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔ بلاول نے مریم کو بھٹو خاندان کی قبروں کے احاطے میں گیلری کا دورہ بھی کرایا۔
واضح رہے کہ مریم نواز کے والد کی جماعت مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی ضد میں ہی تشکیل دی گئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے آئی جے آئی کی کوکھ سے جنم لیا اور اس میں مہران بینک سکینڈ ل کے حوالے سے اس وقت کے انٹیلی جنس اداروں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ میاں نواز شریف نے ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی کے مقابلے میں ہر قسم کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن بالآخر 2006ء میں لندن میں جلاوطنی کے دوران میاں نواز شریف کے محترمہ کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کے بعد بظاہر سیزفائر ہو جانا چاہیے تھا لیکن اس کے بعد آصف زرداری کی حکومت آئی تو میموگیٹ میں میاں نواز شریف خود وکیل کی وردی پہن کرزرداری کے خلاف سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے۔ جب پیپلزپارٹی کے اقتدار کی مدت ختم ہو گئی، اس کے بعد میاں صاحب نے زرداری اور پیپلز پارٹی کیسا تھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ میں نے جب زرداری کی لندن میں خودساختہ جلاوطنی کے دوران 2015ء میں انٹرویو کیا تو انہوں نے میرے ذریعے نواز شریف کو پیغام بھیجا کہ مغل اعظم کے بجائے وزیراعظم بنیں۔ اس پس منظر میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا ہنی مون کچھ عجیب سا تو لگتا ہے لیکن قطعاً حیران کن نہیں ہے۔ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی، کل کے حلیف آج کے حریف بننے میں دیر نہیں لگتی۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کا ردعمل دلچسپ ہے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز سمیت متعدد وزراء اور ترجمان رطب اللسان ہیں کہ یہ کیا ظلم ہے، نوڈیرو میں مریم نواز کی موجودگی چہ معنی دارد، اور ایسا کرنا بے نظیر اور ان کے والد کی میراث کی توہین ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر فیصل واوڈا کوتو مریم نواز کا نام بھی بھول گیا کہ ان کانام مریم نواز ہے یا مریم صفدر۔ انہوں نے کہا جو لوگ مریم نواز کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں وہ کیا پیدا ہی غلام ہوئے ہیں؟ مریم نواز سے پوچھا جائے تمہاری کوالیفکیشن کیا ہے کس کارکردگی کے تحت تمہیں لیڈر مان لیں؟ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا کہنا تھا گڑھی خدا بخش میں بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر سیاسی دشمنوں کو بلا کر سیاسی اکھاڑا بنایا گیا، ہمارے کلچر کے مطابق برسی میں دعا ہوتی ہے اور اسے سیاسی اکھاڑہ نہیں بنایا جاتا ہمارے حساب سے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید مرچکی ہیں کیونکہ ان کے اور ان کے والد کے مزار پر دشمنوں کو لا کر بٹھایا گیا، ان لوگوں نے ساری عمر بے نظیر بھٹو کو تکالیف دیں، ذو الفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھانے میں سہولت کار بنے آج وہ بانہوں میں بانہیں ڈال کر بیٹھے ہیں۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا بے نظیر بھٹو کی برسی پر مسلم لیگ (ن) کی رہنما کو بلانا پیپلز پارٹی کے لیے شرمناک اور مسلم لیگ (ن) کے لیے عبرت کا مقام ہے۔
اگر پی ڈی ایم کے نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ان کے لاڑکانہ کے شو نے ثابت کر دیا کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا فوری طور پر کوئی نتیجہ نکلے یا نکلے اپوزیشن جماعتیں حکومت کو اقتدار سے نکالنے کیلئے کوشاں اور اکٹھی ہے۔ کامیاب ہونا یا نہ ہونا الگ بحث ہے لیکن پی ٹی آئی کا یہ مشن کہ اپوزیشن کی صفوں میں پھوٹ پڑ جائے جاری وساری ہے۔ نوڈیرو کا جلسہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ اب دونوں بڑی پارٹیاں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نئی قیادت بلاول بھٹو اور مریم نواز پر مشتمل ہیں لیکن اب بھی آصف زرداری اور میاں نواز شریف قلابے ہلا رہے ہیں۔ آصف زرداری نے خرابی صحت کی بنا پر ویڈیو لنک کے ذریعے برسی کے جلسے سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پرویز مشرف کو ایوان صدر سے نکالا لیکن عمران خان کو نکالنے کے لیے طریقہ کار بدلنا ہو گا، جیلیں بھرنا ہونگی جس کیلئے ہم تیار ہیں۔ یہ کیا فارمولہ ہو گا کسی کوعلم نہیں کیونکہ لانگ مارچ اور دھرنوں سے عمران خان کی حکومت گرتی نظر نہیں آتی۔ اگر دھرنوں سے حکومتوں کو فارغ کیا جانا ہوتا تو عمران خان کے دھرنے سے میاں نوازشریف کی حکومت کی چھٹی ہو جاتی، وہ چار ماہ تک امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرتے رہے جس کا انہوں نے خود اعتراف کیا اور پھر بے نیل مرام دھرنا ختم کر کے گھر چلے گئے، اب بھی کوئی تیسرا امپائر انگلی اٹھانے کے موڈ میں نظر نہیں آرہا۔ وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری کا نوڈیرو جلسے کے بعد کہنا ہے حکومت سیاستدانوں سے مذاکرات کرنے کو تیار ہے لیکن کس چیز کے بارے میں مذاکرات ہونگے۔ اگر مذاکرات عمران خان کی چھٹی کرانے کے بارے میں ہونے ہیں تو حکومت ایسا کیونکر کرے گی جہاں تک کسی این آر او کا تعلق ہے وزیراعظم کئی بار اعادہ کر چکے ہیں کہ میں ملک لوٹنے والوں کو این آر او نہیں دوں گا تو پھر مذاکرات کس بارے میں ہونگے۔