کون کس کا ہو گا؟
ابھی ڈسکہ کے حلقہ این اے 75 کے دوبارہ ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار کی کامیابی سے پیدا ہونے والی گرما گرمی ختم نہیں ہوئی تھی کہ کراچی کے حلقہ این اے 249 کا قضیہ کھڑا ہو گیا۔ دونوں ضمنی انتخابات میں یہ قدر مشترک ہے کہ ہارنے والے تمام فریق نتائج ماننے کو تیار نہیں، ڈسکہ میں تو تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی جو مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کے مقابلے میں صرف 93433 ووٹ حاصل کر سکے، نے خوب ہاہا کار مچائی کہ انتخابات کا یہ نظام ہی ناقص ہے، لہٰذا اپوزیشن اور حکومتی پارٹی کو مل کر انتخابی نظام میں اصلاحات لانی چاہئیں۔ کراچی کے ضمنی انتخاب کے نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل 16156 ووٹ حاصل کر کے سبقت لے گئے، جبکہ ان کے مد مقابل مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل نے 15473 ووٹ حاصل کیے۔ یہاں نہ صرف مجموعی طور پر پولنگ کی شرح مایوس کن حد تک کم رہی بلکہ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کا جیت کا مارجن بھی بہت کم ووٹوں کا تھا۔ واضح رہے اسی حلقہ پر عام الیکشن 2018میں تحریک انصاف کے جیتنے والے امیدوار فیصل واوڈا اور مسلم لیگ ن کے رنراپ امیدوار میاں شہباز شریف کے ووٹوں کا فرق بھی تقریباً سوا سات سو کا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل پولنگ میں آگے جا رہے تھے کہ راتوں رات پانسہ پلٹ گیا اور پیپلزپارٹی حیران کن طور پر یہ نشست جیت گئی۔
تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کے مستعفی ہونے کے بعد یہاں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے پانچویں نمبرپر آنے کی وجہ سے حکمران یہ کہنے کے قابل بھی نہیں رہے کہ ان کی جماعت دھاندلی کا شکار ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری یہی رٹ لگا رہے ہیں کہ انتخابی اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے آئین کے آرٹیکل 95 (5) کا حوالہ دیتے ہوئے یہ مطالبہ داغ دیا ہے کہ حلقہ 249 میں دوبارہ گنتی کرائی جائے۔ ادھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اعلیٰ سطح پر یعنی بلاول بھٹو اور مریم نواز کے مابین لفظی گولہ باری شدت سے جاری ہے۔
واضح رہے یہ دونوں جماعتیں مولانا فضل الرحمنٰ کی کاوشوں سے بنائے گئے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر ہی آشکار ہو گیا تھا اور پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پیپلزپارٹی کی تحریری جواب طلبی کر کے معاملات کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ بظاہر دونوں جماعتوں کے درمیان خلیج مزید وسیع ہو گئی ہے جسے پْر کرنا کٹھن ہوگا۔
انتخابات کا جمہوریت میں کلیدی رول ہوتا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات، واقعات اور دیگر مواقع پر مخالفانہ بیان بازی نے عوام کی نظروں میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور حکمران جماعت تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے درمیان محاذ آرائی اس حد تک بڑھ چکی تھی جیسے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہیں لیکن حالیہ واقعات سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان شدید مخالفت تاریخ کا حصہ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ دراصل اپوزیشن اتحاد میں ہم سفر ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام جماعتیں ایک دوسرے میں ضم ہوگئی ہوں، اتحاد میں شامل ہر سیاسی جماعت کا اپنا نظریہ، پروگرام اور مطمع نظر ہے لہٰذا انتخابی معرکے میں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس قسم کے اتحاد اختلافات کے باوجود کامیابی سے چلتے رہے لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ آمرانہ ادوار میں انتخابات کا دخل نہیں تھا اس لیے بات نبھتی گئی تاہم جیسے ہی انتخابی عمل شروع ہوامعاملات بگڑگئے۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی چونکہ مسلم لیگ (ن) نے جنرل ضیاء الحق کی گود میں پرورش پائی تھی لہٰذافطری طور پر ابھی اس سے باہر نہیں نکل سکی۔ پرانی نفرتیں اور دوریاں پی ڈی ایم بننے سے ختم ہوجائیں گی، غیر فطری سوچ تھی۔ بلاول بھٹو یا مریم نواز نظریاتی طور پر اپنی اپنی پارٹی کے ساتھ مخلص ہیں اور اب پارٹیوں کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
فریقین اپنی رسہ کشی میں اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر بیٹھے ہیں کہ حالیہ انتخابی کامیابیاں حکمران جماعت کے لیے مڈٹرم انتخابات کے طور پر سمجھی جائیں۔ جن میں خان صاحب کی جماعت کو کلی طور پر ناکامی ہوئی ہے۔ پارٹی کے سربراہ سمیت کسی کو نئی صورتحال کا ادراک نہیں ہے۔ خان صاحب خود بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ بڑے غلط فیصلے کر جاتے ہیں اور ملک کا پیسہ لوٹ کر باہر لے جانے والے غدار اور قومی مجرم ہیں، چوروں کے خلاف جدوجہد کامیاب ہو گئی۔ نیب نے صرف ہمارے دور میں طاقتور قوتوں پر ہاتھ ڈالا ہے۔ یہ بات اصولی طور پر درست ہے کہ ملک کو درپیش بحرانوں میں کرپشن بنیادی مسئلہ ضرور ہے جس کی بیخ کنی ہونی چاہیے لیکن یہ کوئی امرت دھارانہیں ہے جو پاکستان کے تمام مسائل کا تریاق ثابت ہو۔ کچھ ٹی وی چینلز نے ہنرمند بے روزگاروں کی لمبی قطاریں دکھا کرملک میں اقتصادی بدحالی، بے روزگاری، کساد بازاری کی گھمبیرصورتحال اورحکومتی کارکردگی کی اصل تصویرپیش کر دی ہے۔ علاوہ ازیں خان صاحب کے اپنے بیانات سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں بھی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں۔ مثال کے طور پر یورپ نے پاکستان پر حال ہی میں جو پابندی عائد کی، وہ اسی قسم کی مس ہینڈلنگ کی عملی تصویر ہے۔ پارٹی کے رہنمائوں کومبارک سلامت کے ماحول سے بالاتر ہو کر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کا نصف دور تو گزر چکا ہے اور انتخابات وقت سے پہلے نہ بھی ہوئے تو باقی عرصہ بھی ایسے ہی ڈنگ ٹپائوطریقے سے چلانا پڑے گا۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کو بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا پڑے گی کیونکہ موجودہ ماحول میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ کا انتخابی و سیاسی نقشہ کیا ہوگا۔ کون کس کاحریف اور کس کا حلیف ہوگا حتمی طور پر تعین کرنا اتنا آسان نہیں۔