خطے میں امن کی کوششیں؟
جوں جوں باقی ماند ہ امریکی افواج کی افغانستان سے انخلا کی ڈیڈلائن قریب آتی جا رہی ہے نئی امریکی انتظامیہ بھی عجلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ یکم مئی کی ڈیڈلائن پر سختی سے عمل کرنا امریکہ کی اولین ترجیح ہے اور اگر اس پراسیس میں تاخیر بھی ہوئی تو وہ معمولی ہو گی۔ یقینا پاکستان افغان مسئلہ کے سیاسی حل کیلئے کلید ی کردار ادا کررہا ہے۔ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائند ے زلمے خلیل زاد وقتا ً فوقتا ً وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملتے رہتے ہیں لیکن افغانستان خاصا گنجلک معاملہ ہے۔ ایک ایسی قوت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کامیابی جو اس نے میدان جنگ میں حا صل کی ہے اس کو محض امریکہ اور اس کی اشرف غنی کے تحت کٹھ پتلی افغان حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تج کر دے گی، غیر فطری ہو گا۔ اسی بنا پر افغان طالبان نے تشدد کی کارروائیوں میں کمی نہیں آ نے دی اور وہاں دہشت گردی کے سنگین واقعات تسلسل سے جاری ہیں۔
دوسری طرف طالبان نے فطری طور پر ایک عبوری حکومت کے ڈرافٹ پر تحفظات کا اظہا ر کیا ہے۔ طالبان کے ترجما ن کا کہنا ہے کہ ایسی عبوری حکومتیں عموما ً بے اثر ثابت ہوتی ہیں۔ افغانستان کے حل کے بارے میں امریکی جلد بازی کااندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے وزیر دفا ع لائیڈ آ سٹن اتوار کو اچانک کابل پہنچ گئے اور افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ آ سٹن نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ میں افغانوں کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے آیا ہوں۔ امریکی وزیر دفاع نے ان سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا کہ آیا امریکہ یکم مئی کی ڈیڈلائن تک اپنی فوجیں نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا، وہ یہ کہہ کر طرح دے گئے کہ یہ ان کے باس جو بائیڈن کاکام ہے۔
ادھر دوحہ میں ہونے والے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کے علاوہ بھی کئی پراسیس چل رہے ہیں۔ اس سلسلے میں روس، امریکہ، پاکستان، ایران، بھارت اور اقوام متحدہ کے نمائند وں پر مشتمل میٹنگ بلائی جا رہی ہے جس کا ایجنڈا افغانستان میں عبوری حکومت کا قیام ہے اور اس کے علاوہ ترکی میں اپریل میں ہونے والے ایک اجلاس میں فریقین اس معاہدے پر دستخط کریں گے۔ جہاں تک افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل جس پر تمام فریقین کا اتفاق را ئے ہو اسے تلاش کرنے کی کوششیں سرگرمی سے جاری ہیں۔ ایران کو ان مذاکرت میں شامل کرنا خوش آئند ہے کیونکہ بہرحال وہ ایک سٹیک ہولڈر ہے۔ تاہم بھارت کو اس سے منسلک کرنے پر یقینا پاکستان معترض ہو گا کیونکہ نئی دلی کا افغانستان کے معاملے میں برا ہ راست کوئی سٹیک نہیں ماسوائے اس کے کہ وہاں بھارت نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور وہ افغانستان میں اپنے قونصل خانوں کو پاکستان کے خلاف جاسوسی کے لیے استعمال کرتاہے۔
امریکہ کی جانب سے افغان مسئلے کے جلد حل کا اندازہ اس انکشا ف سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیرخارجہ انتھونی کا اشرف غنی کے نام ایک خط لیک ہواہے جس میں انہوں نے مجوزہ افغان حکومت کے خد وخال اور ڈھانچے کا تذکرہ کیا ہے۔ کواکب یہی ہیں کہ افغان مسئلے کا سیاسی حل پُرپیج اور کٹھن معاملہ ہے او ر یہ بیل آسانی سے منڈے نہیں چڑھے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی نتائج کی پروا کئے بغیر امریکہ اپنا سامان باندھے گا اور وہاں سے انخلا کر ے گا یا نہیں؟
روس کے دارالحکومت ماسکو میں جمعرات کو ہونے والی افغان امن کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ مشترکہ بیان میں روس، امریکہ، چین اور پاکستان نے افغان گروپوں سے جنگ بندی پر فوری مذاکرات کا مطالبہ کیا۔ مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا بین الافغان مذاکرات میں امن کے لیے اہم نکات پر بات چیت کا آغاز کیا جائے جبکہ افغان فریقین اختلافات اور افغانستان میں تشدد میں کمی کے لیے مل کر کام کریں تاکہ سیاسی اور سفارتی فوائد حاصل کرنے کے لیے سازگار ماحول بنایا جاسکے۔ مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی اسلامی امارات کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ کانفرنس کے شروع میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہمیں افسوس ہے کہ دوحہ میں شروع ہونے والے سیاسی عمل کے نتائج اب تک سامنے نہیں آئے۔ دوسری طرف طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر کا کہنا تھا کہ معاہدہ فریقین کی ذمہ داریوں کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ اسلامی امارات نے اپنے وعدے پورے کئے ہیں اور ہم دیگر فریقین سے بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل کی اسلامی امارات بین الااقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرے گی، ہم کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک خط کے ذریعے صدر مملکت عارف علوی کو یوم پاکستان پر مبارکباد دی، خط کے متن میں تحریر کیا گیا ہے پاکستان امریکہ پارٹنرشپ علاقائی امن و خوشحالی کے مشترکہ مقصد پر مبنی ہے، افغانستان میں قیام امن، کورونا وبا پر قابو پانے، ماحولیاتی تبدیلی اور مشترکہ چیلنجز پر قابو پانے کے لیے تعاون جاری رہے گا۔ امریکی صدر نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ شراکت داری کو مستقبل میں مضبوط بنائیں گے۔ بہرحال امریکی صدر کی جانب سے یہ ایک رسمی سا خط ہے اس کو لیکر حکومتی ترجمان بغلیں نہ بجانا شروع کر دیں کیونکہ امریکی صدور بول بچن میں تو آپ کو خوش کر دیتے ہیں جیسے ٹرمپ وزیراعظم عمران خان کو لارے دیتے رہے لیکن عملی طور پر ابھی وہ ہم سے کوسوں دور ہیں، انہیں صرف امریکی مفادات عزیز ہیں، ویسے بھی وہ صرف مضبوط حکومتوں اور ممالک سے کام کی بات کرتے ہیں۔
دوسری طرف امریکی خبر رساں ادارے بلوم برگ نے انکشاف کیاہے کہ پاکستان اور بھارت متحدہ عرب امارات کے تجویز کردہ روڈ میپ پر خفیہ طور پر عمل کر رہے ہیں۔ پچھلے ما ہ ہی مبصرین اس وقت حیران رہ گئے تھے جب دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز نے 2003ء کے سیزفائر معا ہدے جس کی بھارت کئی برسوں سے دھجیاں اڑا رہا ہے پر عمل درآمد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ بلوم برگ کے مطابق یہ معاہد ہ متحد ہ عرب امارات کے ایما پر کئی ماہ سے جاری خفیہ سفارتکاری کا نتیجہ ہے۔ عرب امارات کے ایک اہلکار کے مطابق ابھی اس سلسلے میں بہت کچھ ہونا باقی ہے، ابتدائی طور پر پاکستان اور بھارت اپنے ہا ئی کمشنرز واپس بھیج دیں گے۔ واضح رہے کہ بھارت نے اگست 2019میں آرٹیکل 370منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کو ضم کر لیا تھا جس کے بعد پاکستان نے نئی دلی سے ہائی کمشنر کو واپس بلا لیا تھا۔
گزشتہ ہفتے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جا وید باجوہ کا یہ بیان کہ ہمیں ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر امن کے لیے آگے بڑھنا چاہیے اور یہ کہ فوج ہر قسم کے مذاکرات کے لیے تیار ہے، پاکستان کی طرف سے ایک بہت بڑی رعایت ہے جس کی بنا پر وطن عزیز میں اپوزیشن یہ نکتہ چینی کر رہی ہے کہ نواز شریف نے جب بطور وزیر اعظم پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے مودی کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی تھیں توانہیں غدار قرار دیا گیا تھا اور اس حوالے سے ڈان لیکس، کا قضیہ کھڑا ہو گیا اور معاملات اس حد تک خراب ہو گئے کہ نواز شریف کی چھٹی ہو گئی۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے مدوجزر اتنے تلاطم خیز ہیں کہ یہ کہنا کہ اب دونوں ممالک دوستی کی راہ پر گامزن ہو گئے ہیں قبل ازوقت ہو گا۔ بہرحال امریکہ، روس اور چین بھی چاہتے ہیں کہ افغانستان کا معاملہ کسی بھی طرح حل ہو، پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بھی موجودہ تلخی ختم ہو تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے، یہ خواہش اچھی ہے لیکن اس کی تکمیل کی راہ میں کئی رکاوٹیں اور قباحتیں ہیں۔