استعفوں کا تنازع
اپو زیشن اتحاد پی ڈی ایم میں اسمبلیوں سے استعفے دینے کا معاملہ وجہ تنازع بنا ہوا ہے، پیپلز پا رٹی ایک طرف اور باقی جما عتیں دوسر ی طرف ہیں۔ حکومتی ارکان شا دیانے بجا رہے ہیں کہ اپو زیشن جما عتوں کا یہ اتحا د اپنے ہی بو جھ تلے دھڑم سے گر گیا۔ اصل مسئلہ پیپلز پا رٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اعتما د کے فقدان کا ہے جس وجہ سے یہ بحران ابتدائی طورپر ہی کھڑا ہو گیا۔ اسمبلیوں سے استعفے دینے کامعاملہ سیاسی اور عملی طورپر انتہا ئی گنجلک ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہبر میاں نواز شر یف عملی طور پر اپنی کشتیاں جلا چکے ہیں، وہ اوران کی صا حبزادی مر یم نواز جو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر ہیں حکومت کے لیے تو چیلنج ہیں لیکن سا تھ ہی سا تھ فو جی قیا دت کو للکا رنے کا کو ئی موقع ہا تھ سے نہیں جانے دیتے، دوسر ی آپشن انہوں نے شہبا زشر یف اور حمز ہ شہبا ز کی صورت میں سا فٹ اور حقیقت پسند انہ لا ئن اختیار کرنے کے لیے رکھی ہوئی ہے، گو یا کہ مر یم نو از کو پرانے اور نئے کیسز میں پھنسا کر اگر گرفتار کر لیا جا تا ہے تو شہبا ز شریف کو ضمانت پر رہا کیا جا سکتاہے۔
مولانا فضل الر حمن کو تو استعفوں کی صورت میں بلی کی طرح خواب میں چھیچھڑ ے نظر آ رہے ہیں، ان کا نواز شریف کی طرح سسٹم میں کو ئی سٹیک نہیں ہے، ان کی پا رلیمنٹ میں نما ئند گی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے جبکہ میاں صاحب کا معا ملہ مختلف ہے، انہیں حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے غا لبا ً یہ محسوس ہو رہا ہے کہ آئند ہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو پچھا ڑ کر دوبارہ مسند اقتدارپر فائز ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک پیپلز پا رٹی کا تعلق ہے، اس کی دوسر ے بڑ ے صوبے سند ھ میں حکومت ہے، اس لحا ظ سے وہ تمام تر اختلا فات کے با وجو دسسٹم میں سٹیک ہو لڈرہے۔ جب استعفوں کی حکمت عملی پر ابتد ائی بات ہو ئی تو پیپلز پا رٹی سمیت سب پا رٹیوں نے اس پر صا د کیا۔ بلا ول بھٹو نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ ہم اپنے ارکان سے استعفے لے رہے ہیں لیکن اب یہ اختلا فی مسئلہ استعفوں کی ٹا ئمنگ کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ مولانا فصل الر حمن کو نئی بات سو جھی کہ استعفے لانگ مارچ سے پہلے دیئے جا ئیں تو حکومت ویسے ہی ٹھس ہو جا ئے گی۔ انہوں نے پیپلز پا رٹی کو یہ رعایت دینے پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ صرف قومی اسمبلی سےاستعفے دے تو آدھا ایوان خالی ہو جا ئے گا اور ا ن کے خیال میں اتنے حلقوں میں ضمنی الیکشن کرانا ممکن نہیں ہو گا لہٰذا عام انتخابات کے سوا کو ئی چا رہ کا ر نہیں ہو گا۔
پیپلز پا رٹی کو مولانا فضل الر حمن کا یہ خیالی پلا ؤ قبول نہیں کیونکہ محض استعفے ہی پیپلز پا رٹی کے لیے وجہ تنا زع نہیں ہیں۔ بعض اخبار ی اطلا عا ت کے مطابق انہیں یہ بھی قلق ہے کہ بغیر صلا ح مشو رہ کے اعظم نذ یر تارڑ کو جو حال ہی پہلی با ر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ٹیکنو کر یٹ کی نشست پر سینیٹرمنتخب ہو ئے ہیں لیڈر آف اپو زیشن نا مز د کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ اعظم تارڑ محتر مہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے ذمہ دارقرار دیئے گئے پولیس افسروں کی وکالت کر رہے ہیں۔ اس بارے میں آ صف علی زرداری اپنے تحفظات کا اظہار میاں نوا زشر یف سے پہلے ہی کر چکے ہیں۔
آ صف علی زرداری کے میاں نوا ز شر یف سے تعلقات کی تاریخ خا صی تلخ ہے۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی پر لندن میں 2006ء میں محتر مہ بے نظیر بھٹو اور میاں نو از شر یف کے دستخط ہو نے کے باوجو د زرداری صاحب کی دانست میں نواز شر یف نے پیپلز پا رٹی کو بطور اپنی حر یف معا ف نہیں کیا۔ انہیں یہ بات بھی یا د ہے کہ کس طر ح میاں صا حب ان کے خلاف میمو گیٹ کی پیروی کر نے سپریم کورٹ میں سا بق چیف جسٹس افتخا ر محمد چو دھری کی عدالت میں کالا کوٹ پہن کرپہنچ گئے تھے۔ صدر آصف علی زرداری کے مبینہ سوئس اکاؤنٹس سے متعلق سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں جب سپریم کورٹ نے 26 اپریل 2012 کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا تو میاں نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی سے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فوری طور پر سبکدوش ہونے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا سزایافتہ وزیراعظم کے ہونے سے اب پارلیمان کی تضحیک ہوگی، عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے، انہوں نے مزیدکہا صدر زرداری کتنے وزیراعظم قربان کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر اگلا وزیراعظم خط نہیں لکھے گا تو اس پر بھی توہین عدالت کے ارتکاب کا الزام لگے گا۔
جب زرداری صاحب اپنی مد ت پو ری کر کے ایوان صدر سے رخصت ہو ئے تو میاں صا حب نے ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتما م کیا لیکن نہ جانے انہوں نے کس کے دبا ؤ میں آکر یہ الو داعی تقر یب منسو خ کر دی۔ بعدازاں آصف علی زرداری نو از شر یف سے بھی ناراض تھے اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی، فو جی قیا دت پرتنقید کر تے ہو ئے اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیا اور پھر خو د ساختہ جلا وطنی میں لند ن چلے گئے۔ شو مئی قسمت نو از شر یف پر جب بر ا وقت آیا تو وہ عارضہ قلب کے علاج کے سلسلے میں لند ن پہنچے جہاں انہوں نے آ صف علی زرداری سے ملا قا ت کی بسیا ر کو شش کی لیکن آ صف علی زرداری میاں صا حب کو رائٹ آ ف اور انہیں نہ ملنے کاتہیہ کر چکے تھے حتیٰ کہ وہ چر چل ہو ٹل سے بھی کہیں اور منتقل ہو گئے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں بھی مولانافضل الر حمن نے ثالثی کر انے کی کو شش کی لیکن زرداری صا حب نہیں ما نے۔ میں جب ان کا انٹرویو کر نے لندن گیا تو آصف علی زرداری نے مجھے کہا " اپنے دوست کو میراپیغام دیں کہ وہ وزیر اعظم بنیں، مغل اعظم نہیں "۔ یہ مغل اعظم والا فقر ہ انہوں نے حال ہی میں پی ڈی ایم کے اجلا س میں استعفے دینے سے انکا ر کے موقع پر اپنے ایک دوست کے سامنے بھی دہرایا۔
پیپلزپا رٹی کی سنٹر ل ایگز یکٹو کمیٹی کا اجلا س شا ید 4۔ اپر یل کو ذوالفقا ر علی بھٹو کی بر سی سے پہلے نہ ہو پائے گو یا کہ ما ہ رمضان کی آمد تک پی ڈی ایم کا استعفوں کا بحران ٹلتا ہوانظر آ تا ہے۔ تاہم عملی طورپر آ صف علی زرداری نے ایسا ترپ کا پتہ چلا یا جس سے انہوں نے نہ صرف اپنی پا رٹی کے مفادات کی آبیا ری کی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی خوش کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس میں آ صف علی زرداری کے مکالمے" نواز شریف واپس آئیں، لڑنا ہے تو سب کو جیل جانا ہوگا، راہیں جدا کرنیوالے فیصلے نہ کریں، ہمارے انتشار کا فائدہ جمہوریت کے دشمنوں کو ہوگا"کے جواب میں محتر مہ مر یم نو از نے عجیب انکشا ف کیا کہ میاں نواز شر یف اس بنا پر واپس نہیں آ سکتے کہ ان کی جان کو خطر ہ ہے اور یہ خطر ہ ہم مول نہیں لے سکتے۔ دوسرے لفظوں میں مسلم لیگ (ن) نے تسلیم کیا کہ میاں صا حب بغر ض علاج جلا وطنی میں نہیں ہیں بلکہ اپنی جان کے تحفظ کے لیے لند ن میں بیٹھے ہیں۔