غلطیاں نہ دہرائی جائیں
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو آج کل متحدہ عرب امارات، ترکی اور ایران کے دورے پر ہیں، نے پاکستان کے اس دیرینہ موقف کا اعادہ کیا ہے کہ یہ پاکستان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ امریکہ اورطالبان کے درمیان معاہدہ اور مختلف گروپوں کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ انہوں نے امید کا اظہا ر کیا ہے کہ تمام فریق افغا نستان میں امن لائیں گے۔ 24 اپریل کواستنبول میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس جس میں امریکہ کے علاوہ چین، روس اور بھارت بھی شرکت کر رہے ہیں، افغان حکومت کی نمائندگی وزیر خارجہ حنیف آتمرکر رہے ہیں جنہوں نے اتوار کو شاہ محمود قریشی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، دونوں وزرائے خارجہ نے افغان عمل امن پراب تک سامنے آنے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔ شاہ محمودقریشی نے کہا ایک پرامن اور مستحکم افغانستان، پاکستان کے مفاد میں ہے، ہم افغانستان میں پرتشدد واقعات میں کمی کے خواہشمند ہیں، وزیر خارجہ نے توقع ظاہر کی کہ افغانستان میں دیرپا قیام امن کی کوششوں میں استنبول کانفرنس دوحہ ایگریمنٹ کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے معاون ثابت ہو گی۔ افغان وزیر خارجہ محمد حنیف آتمر نے افغان امن عمل کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے پاکستان کی مسلسل سفارتی، سیاسی اور اخلاقی معاونت کو سراہتے ہوئے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ ادھر طالبان نے امریکی فوجیوں کے11 ستمبر تک انخلا پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا وہ افغانستان کے مستقبل سے متعلق ترکی میں ہونے والے اجلاس میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ نہیں جاتیں۔ قطر میں طالبان دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا جب تک تمام غیر ملکی افواج مکمل طور پر ہماری سرزمین سے نکل نہیں جاتیں تب تک ہم افعانستان سے متعلق کسی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
دوسری طرف امریکہ کے وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے بر ملا طور پر کہا کہ امریکہ کے افغانستان میں اہداف پورے ہو چکے ہیں، اب اسے نئے چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں چین اور کوویڈ 19سے مقابلہ کرنا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے حال میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ اپنی تاریخ میں سب سے طویل جنگ جسے 11 ستمبر کو 20سال ہو جائیں گے، اس سے پہلے امریکی فوجیں افغانستان سے نکل آئیں گی۔ واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ ایک طرف طالبان سخت برہم ہیں کہ معاہدے کے تحت امریکی فوجیں افغانستان سے یکم مئی کے مکمل انخلا کے معاہدے پر عمل کیوں نہیں کر پائیں۔ طالبان نے دھمکی دی ہے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں پھر سے حملے شروع کر دیں گے۔ دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی اکڑ دکھا رہے ہیں اور الٹا پاکستان کو وارننگ دے رہے ہیں کہ امریکی انخلا کے مضمرات سے پاکستان نہیں بچ سکے گا۔ صدارتی محل ارگ میں پولیس فورس کے نوجوانوں کی تقریب سے خطاب میں افغان صدر نے پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا دوستی یا دشمنی دونوں پاکستان کے ہاتھ میں ہیں، پاکستان کے لیے فیصلے کا وقت ہے، اگر ہمارا ملک عدم استحکام کا شکار رہا تو پاکستان بھی ہوگا اور اگر وہ ہمارے ملک کی بہتری چاہتے ہیں، تو اس میں اْن کی بھی بہتری ہوگی۔ واضح رہے کہ پینٹاگون کے افغانستان میں اڑھائی ہز ار تک ٹروپس رہ گئے ہیں اگرچہ 9600نیٹو فوج کا حصہ ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے ایک انٹرویومیں دعویٰ کیاہے کہ افغانستان میں امریکہ کے تمام اہداف پورے ہو چکے ہیں، القاعد ہ کافی کمزور پڑ چکی ہے اور اب اس پوزیشن میں نہیں رہی کہ افغانستان سے امریکہ یا امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ امریکہ وہی غلطی کرنے تو نہیں جا رہا جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا تھا، 1989میں بھی یہی غلط فہمی تھی کہ ہماراکام ہو گیا ہے لہٰذا ہم افغانستان سے خیرباد کہتے ہیں۔ بہرحال سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے بعد جنرل ضیاء الحق نے جو رول ادا کیا اس کا خمیازہ آ ج تک پاکستان بھگت رہا ہے ہمیں اس غلطی کا اعادہ نہیں کرنا چاہیے۔
مبصرین کے مطابق افغانستان کی نام نہا د سٹرٹیجک گہرائی کی تھیوری اپناناپاکستان کے لیے گھاٹے کا سودا ہی ثابت ہوا۔ بھارت کو نیچا دکھانے کی کوششیں ہم سالہا سال سے کر رہے ہیں، کابل میں پاکستان نواز طالبان حکومت معرض وجود میں آ جائے لیکن یہ سعی لاحاصل ہی ثابت ہوئی ہیں۔ بدلے ہوئے حالات میں ہمیں دوبارہ تباہ کن حکمت عملی نہیں اپنانی چاہیے۔ افغانستان میں اتفاق رائے سے جو بھی حکومت آئے اس کے ساتھ بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات رکھنے ہونگے کیونکہ ما ضی میں ہمیں امریکہ کی ما لی اور فوجی امداد کے علاوہ انٹیلی جنس شیئرنگ کی سہولتیں حاصل تھیں گویا ہم ہر لحاظ سے امریکہ کے حواری تھے، اب ایسا نہیں ہے، حالات اس حد تک بدل چکے ہیں کہ اب بھارت امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر بن چکا ہے اور جیسا کہ امریکی وزیر خارجہ نے کھل کر کہا ہے اصل مسئلہ اب چین سے نبٹنا ہے گویا کہ اگر پاکستان نے اپنے پتے ٹھیک طرح نہ کھیلے تو اسے امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات اب منظر عام پر آچکی ہے کہ متحدہ عرب امارات کی کاوشوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بلا واسطہ مذاکرات کا آغاز ہوا اور 25فروری کو ڈائریکٹر جنرلزملٹری آ پریشنز کی ٹاک اس حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئی کہ تقریباً دو ماہ گزرنے کے باوجود سیز فائر برقرار ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پچھلے دنوں جوش خطابت میں کچھ زیادہ ہی کہہ گئے اور سکیورٹی ڈائیلاگ میں فرمایا کہ" ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے، پاکستان ہمسایہ ممالک سے مذکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کے لیے تیار ہے، انہوں نے کہا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے، جس کو حل کیے بغیر خطے میں دیرپا امن ممکن نہیں، وقت آ گیا ہے کہ ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھا جائے لیکن بامعنی مذاکرات کے ذریعے امن عمل شروع ہونے کے لیے ہمارے ہمسائے کو سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا، خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں "۔ اگلے ہی روز بھارت سے تجارت کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا، بعداز خرابی بسیار جب یہ احساس ہوا ہم تو بھارت سے "محبت کے جذبات " میں کچھ زیا دہ ہی بہہ گئے ہیں اور اس سلسلے کو واپس کیا گیا جس کی بنا پر ایک مضحکہ خیز صورتحال پیداہوئی کہ بطور وزیر تجارت وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کر نے کی منظوری دے دی اور بطور وزیر اعظم اپنی ہی سمری کو مسترد کر دیا۔ تا ہم موجودہ صورتحال میں بھارت سے دوبارہ دوطرفہ بنیادوں اور برابری کی سطح پرتعلقات کوکم از کم نارمل سطح تک لانا وقت کی ضرورت ہے اور دنیا کے علاوہ خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کا تقاضا بھی ہے۔