کورونا کی تشویشناک صورتحال
وطن عزیز میں موذی وبا کورونا کی تیسری لہر جس سرعت سے پھیل رہی ہے، اس کے پیش نظر گزشتہ روز زیراعظم عمران خان نے کہا ملک میں کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے پاک فوج کی مدد لی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مزیدکہا: اگر ایس او پیز پر ٹھیک طریقے سے عمل کیا تو شہروں میں لاک ڈاؤن نہیں کرنا پڑے گا، عوام میں کورونا کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے اس کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا تھا: موجودہ صورتحال میں شہروں کے لاک ڈاؤن کا خدشہ نظر آرہا ہے، اس لیے این سی او سی کو ہدایات دی گئی ہیں کہ آئندہ چند روز میں صوبوں کے ساتھ مل کر منصوبہ تشکیل دیا جائے اور لوگوں کو مشکلات سے بچانے کے لیے جو اقدامات کرنے چاہیے، وہ تجویز کئے جائیں۔ انہوں نے فیصلوں سے متعلق بتایا جن شہروں میں مثبت کیسز کی شرح زیادہ ہے، وہاں نویں سے بارہویں جماعت کے لیے بھی سکولز عید تک بند رہیں گے۔ گویا کہ اسد عمر نے بھی عندیہ دے دیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا "سمارٹ لاک ڈاؤن " کا فیورٹ فارمولہ کام نہیں کررہا اور حکومت انتہائی اقدامات کرنے پر مجبور ہوتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا زیر علاج تشویشناک مریضوں کی تعداد ساڑھے 4 ہزار سے زیادہ ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کورونا کے مثبت کیسز کی تعداد قریباً 11 فیصد ہے جبکہ کئی شہروں لاہور، گوجرانوالہ، مردان، لوئر دیر، پشاور، بہاول پور، فیصل آباد، ملتان، اسلام آباد، راولپنڈی، سوات، کراچی، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں کورونا مریضوں کی شرح 11 سے51 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ملک بھر میں اموات کی تعداد ایک سو یومیہ سے بڑھ گئی ہے۔ اگر گزشتہ چند روز کے دوران اموات کا جائزہ لیا جائے تو ملک بھر میں 20 اپریل کو 137، اکیس اپریل کو 148، بائیس اپریل کو 98 جبکہ 23 اپریل کو 144 اموات ہوئیں۔ منگل کا دن پنجاب میں مہلک ترین رہا کیونکہ اس ایک روز میں 104افراد کورونا کا شکار بن گئے۔ ہسپتالوں کی صورتحال اس لحاظ سے تشویشناک ہو گئی کہ یہ کوویڈ مریضوں سے کھچا کھچ بھر چکے ہیں، اس طرح وینٹی لیٹراور آکسیجن بیڈزبھی کم پڑتے جا رہے ہیں اور ملک میں آکسیجن کی قلت بھی پیدا ہو گئی ہے۔ مردان میں 100 فیصد، گوجرانوالہ 88، ملتان 85 اور لاہور میں 82 فیصد وینٹی لیٹرز زیر استعمال ہیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ میں تقریباً 85 فیصد، پشاور میں 74 فیصد اور نوشہرہ اور صوابی میں 67 فیصد آکسیجن بیڈ زیر استعمال ہیں۔
اس گھمبیر صورتحال کے حوالے سے حکومت جواز پیش کرتی ہے کہ یہ اس کی نالائقی نہیں بلکہ کورونا کی پہلی اور دوسری کے بعد تیسری لہر انتہائی شدید ثابت ہوئی ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی مثال دی جاتی ہے جہاں کوویڈ 19کے پھیلاؤ کی صورتحال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ ہزاروں لوگ روزانہ دم توڑ رہے ہیں، مردوں کو دفنانے اور جلانے کیلئے جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔ اسی طرح برازیل میں بھی برا حال ہے جبکہ خود امریکہ میں بسیار کوششو ں کے باوجود وبا پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ لیکن پاکستان تو ایساملک تھا جہاں اس حوالے سے معاملات قابومیں تھے، حکمران طبقے میں یہ تاثر جاگزین ہو چکا ہے کہ ہر معاملے کا بھارت سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز بھی وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہمارے ہاں وہ حالات نہیں جو بھارت میں ہیں مگر بھارت جیسے حالات ہوگئے تو شہر بند کرنا پڑیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ کورونا سے بھارت میں زیادہ لوگ مررہے ہیں تو پاکستان کی پالیسی ٹھیک ہے حالانکہ ہمیں ان ممالک کی طرف دیکھنا چاہیے جنہوں نے اپنی منصوبہ بندی کے ذریعے نہ صرف وبا کو پھیلنے سے روکا بلکہ کامیابی سے اس میں خاطر خواہ کمی بھی لائے۔ ہماری کوویڈ 19سے نبٹنے والی ٹیم خاصی بڑی ہے۔ ظاہر ہے بطور وزیر اسد عمر بھی کہتے ہیں کہ بعض معاملات میں بے بس ہوں۔ این سی اوسی کے حوالے سے کوویڈ سے نبٹنے کے لیے افواج پاکستان کا کلیدی رول بھی شامل ہے اور وزیر اعظم کے معتمد خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان جو کہ شوکت خانم ہسپتا ل کے سربرا ہ بھی ہیں، اس حوالے سے پوائنٹ مین ہیں۔
صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی" زیا دہ باورچی ہونے کی وجہ سے کھانا ٹھیک نہیں بن رہا " کے مصداق ہے۔ ویکسین کے معاملے کو ہی لیں، پاکستان میں 65سال سے زائد عمرکے تمام افراد کو بھی اب تک ویکسین نہیں لگ سکی اور جو لگی ہے یہ کلی طور پر عظیم ہمسا یہ ملک چین کی طرف سے فراہم کی گئی تھی۔ شاید ہمیں توقع تھی کہ ویکسین مفت ہی ملتی جائے گی لیکن ایسانہیں ہے۔ ملک میں روسی ویکسینSputnikاور مغرب میں تیار ہونیوالی ویکیسنز بھی قیمتاً دستیاب ہیں۔ ظاہر ہے کہ اشرافیہ اور متمول طبقہ ہی یہ ویکسین لگوانے کا متحمل ہوسکتا ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ کم علمی کی بنا پر عوام کی بڑی تعداد ویکسین لگوانے پر تیار ہی نہیں۔ حکومتی ترجمان ہرروز میڈیا پر آ کر اپوزیشن کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ اسی طرح وزیر اعظم ہر روز نئی سے نئی تقریب میں ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، ان کا دھیان بھی ویکسین لگوانے کی خدشات کے بارے میں نہیں گیا۔ مزید برآں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی اس حوالے سے کسی قسم کی مہم کو شجر ممنوعہ سمجھا جا رہا ہے۔ حالانکہ کمرشل ادارے پروموشن کے لیے میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، حکومت کو قومی ضرورت کے لیے یہ بھی گوارانہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں سپیکراسد قیصر کو جوتا مارنے کی دھمکی دی ہے جس پر انہیں نوٹس جاری کر دیا گیا۔ نوٹس کے متن کے مطابق" شاہد خاقان عباسی کے طرز عمل سے اسمبلی کی کارروائی کو آسانی سے چلانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور ایوان کی کارروائی میں رکاوٹ ڈال کر سپیکر کے منصب کا تمسخر اڑایا، شاہد خاقان عباسی 7 دن میں پوزیشن واضح کریں اور معذرت کریں ورنہ رول 21 کے تحت کارروائی ہو گی، مقررہ وقت پرجواب داخل نہ کرنے پر یہ تصور کیا جائے گا کہ دفاع میں کچھ نہیں کہنا"۔ ادھر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا نوٹس پر صرف اللہ سے معافی مانگوں گا اور کسی سے نہیں، 23 کروڑ کا ملک خیرات میں ویکسین لے کر لوگوں کو لگا رہا ہے، حکومت کورونا ویکسین کا ایک ٹیکہ نہیں خرید سکی۔ بہرحال مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کو موجودہ سپیکر اسد قیصر کی غیر جانبداری کے حوالے سے جائز شکا یا ت ہو سکتی ہیں لیکن یہ سپیکر کے عہدے کی توہین ہے۔ شاہد خاقان عباسی خود وزیر اعظم رہے ہیں، اگر کوئی رکن اسمبلی وزیر اعظم کو جوتا مارنے کی دھمکی دے تو اسے انتہائی معیوب سمجھاجائے گا۔ بہتر ہو گا کہ عباسی صاحب اور ان کے حواری اپنے رویئے پر اصرار کرنے کے بجائے غیر مشروط معذرت کرلیں۔