بجٹ،بجٹ
اس وقت بجٹ بجٹ کی صدائیں بلندہو رہی ہیں، ہونا بھی ایسے ہی چاہیے کیونکہ چند دنوں کے بعد(جمعہ کو) نئے وزیر خزانہ شوکت ترین 2021-22کے سالانہ بجٹ کا اعلان کریں گے، اس حوالے سے گلی محلوں میں ہونے والی بحث خوش آئند ہے کہ مالی اوراقتصادی معاملات پر کھل کر گفتگو ہو رہی ہے، عوام ماضی کے اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں پڑے ہوئے ہیں۔ پہلے معدودے چند انگریزی اخبارات کے سوا میڈیا میں ان معاملات کا کوئی خاص ذکر نہیں ہو تا تھا۔ تاہم بعض اخبارات بجٹ پر میڈیا سیمینار کا انعقاد کرتے تھے لیکن اب تو ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھے بزعم خود ماہرین اقتصادیات اپنے تجزیئے دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ تبدیلی بظاہر میڈیا کے مرہون منت ہی ہے جس کا مکو ٹھپنے کے لیے موجودہ حکومت کمربستہ ہے حالانکہ حکومت یہ کریڈٹ بھی لے سکتی تھی کہ تبدیلی سرکار کے دور میں نئے پاکستان میں یہ بڑی تبدیلی آئی ہے، اس سے قومی معاملات میں عوام کا شعور بلند ہواہے۔ پہلے شرح نمو، بجٹ خسارہ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کسے معلوم تھا لیکن اب بھی عوام یہ گتھی سلجھانے میں یکسر ناکام رہے ہیں کہ اعدادوشما ر کے مطابق اکانومی میں اچانک چار فیصد اضا فے کا انکشاف کر کے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن دوسری طرف روز مرہ استعمال کی اشیا کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے غریب آدمی تو کیا متوسط طبقے کا بھی بھرکس نکال دیا ہے۔
ہما رے ہاں قومی وتیرہ بن گیا ہے کہ ہر چند برس بعد آنے والی حکومتیں بڑے طمطراق سے آئی ایم ایف کا پروگرام شروع کرتی ہیں اور اس پروگرام کے تحت ایک یا د و قسطیں لے کر اس بھاری پتھر کو چوم کرچھوڑ دیتی ہیں۔ اس مرتبہ بھی تا ریخ کو بلاواسطہ طریقے سے دہرایا جارہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے اب حکومت کی نہیں بلکہ سا بق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی اچانک چھٹی کرا دی گئی اور نئے وزیرخزانہ شوکت ترین ہیں۔ ان کی تقرری سے ایک ہفتہ پہلے تک وزیر اعظم عمران خان، حفیظ شیخ کی حسن کا رکردگی کی بنا پر پیٹھ ٹھونکتے رہے پھر اچانک کیا ہوا، ترین صا حب کو لاتے ہوئے خان صاحب نے یہ عذر لنگ پیش کیا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے ہو تے ہوئے افراط زربہت بڑھ گیا تھا اور مہنگائی کےاژدھا نے عام آدمی کو ترنوالہ بنا لیا تھا جوان کے لیے قابل برداشت نہیں تھا گویا کہ میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تھو۔ ان کے مطابق سبکدوش کئے جانے والے وزیر خزانہ اس کے ذمہ دار ہیں جبکہ اکانومی کی حالت میں حکومت کے اعلانات کے مطابق معجزاتی طور پر بہتری آئی ہے۔ اس وقت حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے دوسری قسط کے حصول کے لیے مذاکرات میں مصروف ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے باضابطہ درخواست کی ہے کہ وہ اپنی بعض شرائط نرم کریں یہ پراسیس آئند ہ چند دنوں میں بجٹ کے اعلان سے پہلے مکمل ہونا ضروری ہے۔ وزیر خزانہ نے اس ضمن میں بین الاقوامی ما لیاتی ادارے کی اعلیٰ قیادت سے بھرپو ر لابنگ کی ہے۔ اس کی روشنی میں عام طور پر با ور کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف حکومت پاکستان کی بات مان لے گی۔
اس پس منظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستانی معیشت کو کیا دائمی مرض لاحق ہے جس کی بنا پر گزشتہ تیس برس سے معاملات ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں بلکہ مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی۔ ملکی معیشت رجعت قہقری کا شکا ر نظر آتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی اکانومی جو پاکستان سے کہیں پیچھے تھی اب ہم سے کئی قدم آگے ہے لیکن اقتصادی دیوالیہ پن سے پید ا شدہ حالات کی بہتری کے لیے یہاں کسی کو پلاننگ کا وقت کہاں جبکہ حکومتوں کا سارا زور ان کی اپنی لگائی ہوئی آگ بجھانے میں صرف ہوتا ہے، اس حوالے سے کسی کو ریفارمز ایجنڈے پر سوچنے کی فرصت نہیں۔ بعض اقتصادی ما ہرین کے مطابق پاکستان میں اصل بیماری یہی ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ سخت حالات میں جی ڈی پی کی شرح بڑھا کر ہم نے کتنا زبردست کام کیا اور دیگر ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا لیکن اقتصادیات میں بنیادی اصلاحات نہ لانے کی بنا پر ہم ہر چند برس بعد خود کو وہیں کھڑا پاتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔
اپو زیشن پارٹیاں بھی امسال بجٹ کے معاملات میں خاصی دلچسپی لے رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اس حوالے سے ایک بھرپور پری بجٹ سیمینار بھی کر ڈالا جس کی صدارت ویڈیو لنک کے ذریعے میاں شہباز شریف نے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تین سال میں بے روزگاری بڑھنے سے عام آدمی کا زندگی کے ساتھ تعلق قائم رکھنا مشکل ہوگیا، کتنے کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، تاریخ میں دوسری مرتبہ ہماری جی ڈی پی منفی پر چلی گئی، یہ بدترین کارکردگی اور بڑی ناکامیاں ہیں، جس کا آج پوری قوم کو سامنا ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا موجودہ حکومت نے بجلی کی قیمتیں 62 فیصد بڑھادیں، سوئی سدرن اور ناردرن دیوالیہ ہوگئے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا پی ٹی آئی نے معیشت سے کھلواڑ کیا، ملک کا قرضہ پندرہ ہزار ارب روپے بڑھا دیا۔ اسحٰق ڈار نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ہمیں معاشی پالیسی کا سنجیدہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو ہمارا مستقبل بہت روشن نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے اس سیمینار پر وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا انہوں نے روپے کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا اور اس کے نقصانات موجودہ حکومت کو بھگتنا پڑے۔ دیگر وزرا کے ہمراہ اپنی ورچوئل پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا مسلم لیگ (ن) نے جو کہنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے دور میں معیشت 3.7 سے تجاوز کرکے 5.8 تھی، یہ بحث طلب ہے، سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے مصنوعی طریقے سے روپے کو اوور ویلیو رکھا، اس سے 20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہوا۔
دوسری طرف یہ آوازیں بھی آ رہی ہیں کہ بجٹ منظور نہیں ہونے دیا جائے گا گویا کہ ایک طرف اقتصادی اصلاحات کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن بجٹ کو سرے سے منظور ہونے سے روکنے کا عند یہ دے رہی ہے حالانکہ کو ئی بھی اپوزیشن جماعت تنہا بجٹ کو نامنظور کرانے کی استطاعت نہیں رکھتی حتیٰ کہ جہانگیر ترین گروپ بھی تاحال اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس مرتبہ بجٹ کی تیاری کے حوالے سے ڈبیٹ کا یہ نتیجہ نکلنا چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر ملک کے لیے ایک نئے اقتصادی چارٹر کا اعلان کریں لیکن ایسا موجودہ حالات میں ناممکن نظر آتا ہے۔