Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Arif Nizami
  3. Aaj Kya Bolna Hai?

Aaj Kya Bolna Hai?

آج کیا بولنا ہے؟

یہ بات کوئی حیران کن نہیں ہے کہ حزب اختلاف نے براڈ شیٹ معاملے کی تحقیق کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ جسٹس (ر) عظمت سعیدکی تقرری کو مسترد کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما و سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی فرماتے ہیں کہ پاکستان میں ریاستی ادارے اپنا کام کرنے کے بجائے انتقامی کارروائیوں میں لگے رہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جسٹس (ر)عظمت سعید اس لحاظ سے موزوں نہیں کہ وہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل رہ چکے ہیں جبکہ پاناما سکینڈل کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ بھی تھے۔ یہ مفادات کا تضاد ہے لہٰذا ایسا شخص کیسے انصاف کر سکتا ہے۔ انہوں نے جسٹس (ر)عظمت سعید پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری قبول کرنے سے خود انکار کر دیں۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ جسٹس (ر)عظمت سعید شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کے بھی رکن ہیں۔ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے۔ سادا سا فارمولہ ہے کہ نہ صرف انصاف ہو بلکہ انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے۔

وطن عزیز میں تو ایسے معاملات میں الٹی گنگا بہنا روایت بن گیا ہے۔ مثال کے طور پر نیب کا کام احتساب کرنا ہے لیکن کسی کو بھی اس کے ذریعے احتساب ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ انتقام کی سرانڈ آتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے وزیراعظم سمیت سرکاری عہدیدار برملا کہتے ہیں کہ ہمارا نیب سے کیا تعلق، یہ تو آزاد ادارہ ہے۔ وزیراعظم درست طور پر یہ بھی کہتے ہیں کہ نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ہم نے مقرر نہیں کیا۔ چیئرمین پاک سرزمین پارٹی مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ عمران خان کے مخالف ہونگے تو نیب کا لیٹر آئے گا، ایم کیو ایم جیسی جماعت کو اب تک نیب کا نوٹس کیوں نہیں آیا۔ اسی انداز میں عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کا براڈ شیٹ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ادائیگی نہ کرتے تو یومیہ گیارہ لاکھ روپے سود دینا پڑتا۔ اگر واقعی ایسا ہے کہ جسٹس (ر)عظمت سعید کے حوالے سے یہ باتیں وہ نہیں جانتے، ان کا سابق جج سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر جسٹس (ر) عظمت سعید واقعی شوکت خانم کے بورڈ آف گورنر کے رکن ہیں تو ان کی کچھ نہ کچھ شناسائی تو ہوگی۔ وزیراعظم نے یہ کہتے ہوئے کہ ان کا براڈ شیٹ سے کوئی تعلق نہیں کسی حد تک تجاہل عارفانہ سے کام لیا کیونکہ ابتدائی طور پر براڈ شیٹ کے معاملے کو حکومت نے خود اچھالا ہے اور بقول عمران خان یہ اتنا بڑا سکینڈل ہے کہ شریفوں کے لیے ایک اور پاناما گیٹ ثابت ہوگا لیکن براڈ شیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے 2 کروڑ 9 لاکھ ڈالر بطور ہرجانہ وصول کرکے ڈکار مارے بغیر دائیں بائیں الزامات لگانا شروع کر دئیے۔

وہ حکومتی اہلکار جن میں مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر بھی شامل ہیں اور میاں نواز شریف کے بعض عزیزوں اور حتیٰ کہ ایک گمنام جرنیل جن کے بارے میں یہ علم نہیں کہ وہ حاضر سروس ہیں یا ریٹائرڈ، ان سے کٹ کا بھی مطالبہ کیا۔ موسوی کے بقول میاں نواز شریف کے اکائونٹ میں سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر لندن منتقل کیے گئے تھے اور پھر نواز شریف کے ایک مبینہ رشتہ دار انجم ڈار کا نام بھی لیا جاتا ہے جس نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔ گویا کہ کاوے موسوی نے انتہائی چالاکی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ، سیاستدان، بیوروکریٹ اور فوجی جرنیل خدانخواستہ سب کرپٹ ہیں۔

ملک کی جگ ہنسائی میں خود پاکستان کے میڈیا کا ایک حصہ بھی خاصا پْرجوش ہے۔ مجوزہ تحقیقاتی کمیٹی کے ٹی او آر ابھی تک پوری طرح واضح نہیں کئے گئے، یہ کمیٹی نواز شریف اور اپوزیشن کے رہنمائوں کو مزید بدنام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے اور اس سے کون سے راز منکشف ہونگے؟ ۔ ویسے تو اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ موسوی کی فرمائش پوری کرتے ہوئے اسے اتنی خطیر رقم کیوں تھما دی گئی اور اس میں کس کس کا حصہ تھا۔ جہاں تک سربراہ کمیٹی کی تقرری کا تعلق ہے اس پر نظرثانی کی جانی چاہیے کیونکہ وہ اپنا کام شروع کرنے سے پہلے ہی متنازعہ ہو گئے ہیں۔ اول تو اس کمیٹی کی ضرورت ہی نہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہاں کرپشن کی تحقیقات کرتے کرتے خوردبرد ہونے والے سرمائے سے زیادہ پیسے چوری ڈھونڈنے کے میکنزم کے اللوں تللوں پر لگ جائیں گے۔

خان صاحب نے درست طور پر یہ بھی کہا کہ براڈ شیٹ جنرل پرویز مشرف کے ذہن کی اختراع تھی، اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس کا مقصد تو نواز شریف اور دوسرے سیاستدانوں کو بے نقاب کرنا تھا لیکن جب نواز شریف کی 2000ء میں ڈیل ہوگئی تو کرپشن کی تحقیقات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی بلکہ حکومت پاکستان کی طرف سے دوسو سے زائد افراد کی جو لسٹ دی گئی تھی ان میں سے جو جتنا زیادہ کرپٹ تھا اسے اتنا ہی نواز دیا گیا۔ مشرف ماڈل کو آگے بڑھاتے ہوئے اس وقت پی ٹی آئی کے اتحاد یوں کی ٹیم کی واضح اکثریت کا تعلق انہی افراد سے ہے جنہوں نے ڈانگوں کے گز مال تقسیم کیا اور یہ انتہائی ڈھٹائی سے میڈیا اور پارلیمنٹ میں کہتے ہیں کہ جو بھی خرابی ہے وہ سابق حکومت کی نااہلی اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ مثلاً بجلی مہنگی کرنے اور ایل این جی نایاب ہونے کے ذمہ دار وفاقی وزیربرائے توانائی، پٹرولیم وقدرتی وسائل عمر ایوب اور مشیر برائے پٹرولیم ندیم بابرمیاں نواز شریف کی حکومت میں شامل تھے بلکہ ندیم بابر کا تعلق تو بہت قریبی تھا۔ اب یہی لوگ بڑے دھڑلے سے ملبہ ان پر ڈال دیتے ہیں۔ افسوسناک بات ہے کہ مدینے کی ریاست بنانے کے دعویدار کہتے ہیں کہ انقلاب آنا بھی شروع ہو گیا ہے اور قریباً ہر روز اپنے ترجمانوں کو بلا کر ہدایات دیتے ہیں۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra