The Comedy of Errors
کامیڈی آف (آو)ایریرز شہرہ آفاق برطانوی ڈرامہ نگار، شاعر شیکسپئر کا ایک مشہور کامیڈی ڈرامہ ہے۔ شیکسپئیر کے یہ اولین دور کا ڈرامہ ہے، سادہ سی کہانی اور سیچویشنل کامیڈی پر سارا انحصار ہے۔ دو ہم شکل جڑواں بھائی جو ایک دوسرے سے جدا ہوگئے، انہیں پیش آنے والے دلچسپ واقعات، ایک کی جگہ دوسرے کو سمجھا گیا اور پے در پے ایسی غلطیاں ہوتی گئیں، مزاح بھی ایسی غلطیوں سے ہی پیدا ہوا۔ کامیڈی آف ایررز مگر صرف شیکسپئیر کاایک ڈرامہ نہیں رہا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک مکمل اصطلاح بن گئی ہے۔ آج اس حوالے سے مزید کچھ بتانے، سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں۔ پچھلے تین دنوں میں پاکستان میں بھی پے در پے ایسی غلطیاں، ایسے بلنڈر ہوئے کہ کامیڈی آف ایریرز کی یاد تازہ ہوگئی۔ شکر خداوندی ہے کہ معاملہ اچھے طریقے سے نمٹ گیا اور کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوا۔ کئی سوالات البتہ پیدا ہوئے، بعض اہم پہلو بھی سامنے آئے اور چاہے یہ کیس ختم ہوگیا مگر اس کے مضمرات تادیر رہیں گے۔
اس پورے واقعے کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کی حکومت کو پہنچا۔ ان کی حکومت، ان کی ٹیم اور مشیروں کے حوالے سے عمومی تاثر بہت خراب اور منفی تھا، مگر حالات اس قدر دگرگوں ہوں گے اور کسی بھی قسم کی کرائسس مینجمنٹ کو سنبھالنے کی صلاحیت اتنی ناقص ہوگی، اس کا شائد کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ آرمی چیف کے عہدے اور توسیع کے معاملے کو اس قدر متنازع اور گنجلک حکومتی قانونی ٹیم نے بنایا۔ اس پر نیوزچینلز میں بہت کچھ آ چکا، پورے ملک میں بحث جاری تھی،، مزید کیا کہا جائے۔ کیس کی ہینڈلنگ شروع ہی سے غلط تھی۔ محترم اٹارنی جنرل صاحب لگتا ہے بغیر کسی تیاری کے سپریم کورٹ کے سامنے چلے گئے۔ جب سوالات ہوئے تو وہ بوکھلا گئے، ایک کا بھی جواب نہ دے سکے۔ اگلے روز ان کو خاصا وقت مل گیا تھا۔ مختلف اطراف سے قانونی معاونت بھی ہوئی ہوگی۔ اٹارنی جنرل صاحب ایک بار پھر عدالت کو قائل یا متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ نیوز چینلز پر خبروں کے ٹِکرز پڑھنے والے ہر شخص کو ان کی کمزوری اور استدلال کے افلاس کا اندازہ ہورہا تھا۔ پھر سمری، نوٹیفکیشن میں بار بار جو غلطیاں ہوئیں وہ توناقابل معافی ہیں۔ اب جب کہ یہ طوفان بیٹھ گیا ہے، متعلقہ ذمہ دار لوگوں کے خلا ف یقینی طور پر کارروائی ہونی چاہیے۔ ویسے حق تو یہ بنتا ہے کہ پوری قانونی ٹیم کو باہر کا راستہ دکھایا جائے۔ اگر سابق وزیر قانون کو دوبارہ لینا مجبوری ہے تو کم از کم اٹارنی جنرل کے عہدے پر کسی بیدارمغز، ہوشیار قانون دان کا تقرر کرنا چاہیے۔ اٹارنی جنرل صاحب کے ایک فقرے نے ان کی خاصی سبکی کرائی کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ اس پر جب عدالت نے گرفت کی اور پوچھا کہ پھر پینشن کیسے ملتی ہے؟ تب ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ہم جیسے عامی بھی جانتے ہیں کہ عدالتوں میں محاورہ ٹائپ ڈائیلاگ نہیں بولے جاتے اور ٹودی پوائنٹ بات ہوتی ہے۔ حیرت ہے اتنے سینئر وکیل کو کسی نے یہ نہیں سمجھایا۔ عمران خان صاحب کو اب اپنی ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔ وہ اگر حکومت میں کچھ وقت مزید گزارنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے دائیں بائیں سے کئی چہرے ہٹانے، بعض اہم لوگوں کی قربانی، کچھ وزرا کے قلمدان تبدیل کرنے کے ساتھ ان کے ہونٹوں پر ٹیپ چسپاں کرنا ہوگی۔ لگے ہاتھوں وہ خود بھی کچھ عرصہ ٹوئٹ اور شعلہ بار بیان دینے کے بجائے ڈیلیور کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔
مجھے اس پر شدید حیرت ہے کہ ایک خاصے بدنام، متنازع شخص کی درخواست پر اتنا ہنگامہ برپا ہوا۔ اس پر مزید حیرت ہے کہ ایک ایسا شخص جو ایسی مشکوک درخواستیں دیتا رہا ہو، جس پر کئی بار جرمانے ہوئے، سپریم کورٹ میں داخلے پر بھی پابندی لگی، مختلف چیف جسٹس صاحبان نے اس نے رویے پر اپنی ناراضی ظاہر کی، ایسے لوگوں کو کس طرح اتنے حساس، اہم معاملات پر کھلواڑ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے؟ ایسے مشکوک، متنازع شخص کو سپریم کورٹ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باہر کیوں نہیں کر دیا جاتا؟چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ تین چار ہفتوں کے اندر ریٹائر ہونے والے ہیں، بطور چیف جسٹس ان کے دور پر وکلا اور قانونی ماہرین ہی درست تبصرہ کر سکتے ہیں۔ میرے جیسا اخبارنویس یہ ضرور کہنا چاہے گا کہ انہوں نے اپنے پورے دور میں عدالت کا وقار بحال کیا اور کئی اہم، غیر معمولی فیصلے کئے۔ جسٹس کھوسہ صاحب فوجداری مقدمات کے بہترین ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی عدالتی تاریخ کے چند ممتاز ترین فوجداری (قوانین کے ماہر) ججوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنے دور میں سپریم کورٹ سے فوجداری کیسوں کا انبار نمٹا دیا۔ جعلی گواہی اور بعض دیگر حوالوں سے تاریخی فیصلے دئیے۔ سپریم کورٹ کے ایک اور نیک نام اور قابل چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے مطابق ممتاز قادری کیس میں جسٹس آصف کھوسہ کا فیصلہ اتنا اہم ہے کہ اس کا اردو ترجمہ شائع ہونا چاہیے۔ ویسے میں ذاتی طور پر پانامہ کیس میں جسٹس کھوسہ کے فیصلے کا معترف ہوں۔ انہوں نے فرانسیسی ادیب بالزاک کا فقرہ اپنے فیصلے میں نقل کیا تو ن لیگی احباب نے بہت شور مچایا، اعتراضات کئے۔ جسٹس کھوسہ کا فیصلہ مگربڑا مضبوط اور مدلل ہے۔ پانامہ کیس کے باقی تین جج صاحبان اگر جسٹس کھوسہ کے فیصلے سے اتفاق کر لیتے اور ساتھ ہی جے آئی ٹی کی تجویز دیتے تو شائد زیادہ مضبوط عدالتی نظیر سامنے آتی۔ بہرحال وہ تو اب تاریخ ہے۔ چیف جسٹس آصف کھوسہ نے آرمی چیف کی توسیع والے کیس میں اپنی غیر معمولی آئینی مہارت اور ژرف نگاہی ثابت کی ہے۔ وکلا برادری اور قانون سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں ان کا احترام کئی گنا بڑھا ہے۔ اپنی قابلیت، جرات اور استقلال سے انہوں نے یہ عزت حاصل کی۔
اب معاملہ پارلیمنٹ کے پاس آ گیا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ وہاں کامیڈی آف ایررز کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا اور سلیقے، مہارت کے ساتھ قانونی پہلوئوں کو سامنے رکھ کر معاملہ ختم کیا جائے گا۔ توسیع کے معاملے پر اگرچہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کا کہا گیا، یعنی حکومت اپنی عددی اکثریت کی بنا پر بھی ایسا کر سکتی ہے مگر یہ زیادہ اچھا ہوگا کہ اس پر متفقہ قانون سازی ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کر کے اتفاق رائے کے بعد قانون پاس کرے۔
معروف قانون دان، دانشور اور شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد مشتاق نے اس فیصلے پر ایک تحریر لکھی، اس میں انہوں نے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے کر اپنا نقطہ نظر پیش کیا، اس کے دو تین نکات کو قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر مشتاق لکھتے ہیں :" سب سے اہم بات یہ ہے کہ پہلی بار، جی ہاں، تاریخ میں بالکل پہلی بار آرمی چیف کی تعیناتی اور دوبارہ تعیناتی یا توسیع کا معاملہ کھلی عدالت میں زیرِ بحث آیا اور اس کے قانونی جواز کا جائزہ لیا گیا۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کی طرف ایک نہایت اہم پیش رفت ہے۔ خود اٹارنی جنرل صاحب مان رہے ہیں کہ عدالت میں ایسے سوالات اٹھائے گئے جن پر پہلے کبھی بحث ہی نہیں کی گئی تھی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ حکومت کو آرڈی نینس سے بھی روک لیا گیا ہے اور اسے صریح الفاظ میں پارلیمان کے ایکٹ کے ذریعے اس امر کا قانونی سانچہ وضع کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس سے زیادہ اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ آئندہ جو بھی ہو وہ دستور اور قانون کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہو؟ پہلے کبھی یہ سوال ہی نہیں اٹھا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی یا توسیع کیسے ہوتی ہے؟ اور اب جب پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں تو قانون ہی موجود نہیں ہے بلکہ صرف پریکٹس پر بات چل رہی ہے۔ اس مقدمے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ فوج کے متعلق ایسے امور بھی زیر بحث آئے اور وہ دستاویزات مانگ لی گئیں جن کا پہلے کبھی تصور نہیں کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر جنرل کیانی کی توسیع کی سمری اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا ریکارڈ بھی منگوایا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ فوج نے ان سوالات پر بحث یا ان دستاویزات کے پیش کیے جانے پر "وقار" اور "مورال" کی بنیاد پر روک ٹوک نہیں لگائی۔ یہ بجاے خود بہت بڑی پیش رفت ہے۔ اعتزاز احسن صاحب، اور بالعموم پیپلز پارٹی کے دانشوروں، کا بیانیہ جو پارلیمان کی حاکمیت اعلی کے خیالی تصور پر مبنی ہے، وہ بھی اس فیصلے کی روشنی میں ایک دفعہ پھر غلط ثابت ہوا کیونکہ پاکستان وفاقی ملک ہے جس کا باقاعدہ تحریری دستور ہے اور اس دستور کی پابندی پارلیمان پر بھی لازم ہے۔ چنانچہ پارلیمان کے منظور کردہ کسی قانون، یا انتظامیہ کے جاری کردہ کسی فرمان، کے دستوری جواز کا جائزہ لینے کا اختیار ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ پارلیمان، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کے توازن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عدالت پارلیمان کو قانون سازی کے خدوخال بنا کر نہیں دے سکتی لیکن پارلیمان کے بنائے گئے قانون کے دستوری جواز کا جائزہ ضرور لے سکتی ہے۔ اس فیصلے میں بھی عدالت نے اس بنیادی اصول سے انحراف نہیں کیا۔"